• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے ساتھ ملکی معیشت کے جائزے پر ایک اہم میٹنگ منعقد کی جس میں میرے علاوہ پاکستان کے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدور، ممتاز معیشت دانوں اور وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی۔ دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کا شمار دنیا کی انتہائی بااثر شخصیات میں ہوتا ہے اور یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ وہ 10 ممالک پر مشتمل ساریک (CAREC) وزارتی کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئی تھیں جس میں آئی ایم ایف کے علاوہ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، یو این ڈی پی، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور یورپی یونین ڈویلپمنٹ بینک کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کے معاشی جائزے کو دنیا بھر کے مالیاتی ادارے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں نہایت اہمیت دیتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ معیشتوں میں شامل کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے، ایمرجنگ مارکیٹ انڈیکس (MSCI) میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے شامل ہونے اور سی پیک منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کو بہترین مواقع میسر ہوئے ہیں جنہیں استعمال کرکے پاکستان خطے میں ایک مضبوط معاشی طاقت بن سکتا ہے۔ کرسٹین لیگارڈ نے پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے موجودہ 2.5 فیصد تعلیمی بجٹ کو بڑھاکر 4 فیصد کرنے پر زور دیا۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے پاور سیکٹر ریفارمز کی تعریف کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے قرضوں کے پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے پر پاکستان کو مبارکباد دی۔ کرسٹین لیگارڈ نے سی پیک منصوبے کا گہرا مطالعہ، موثر اصلاحات، بزنس میں آسانیاں پیدا کرنے اور سی پیک منصوبوں پر شفافیت سے عملدرآمد کرنے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان دنیا کے 168 ممالک میں کرپشن میں 117 ویں نمبر پر ہے، پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 65 فیصد سے زیادہ ہوچکے ہیں جن کا مارک اپ ملکی ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہے اور یہ معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔ کرسٹین لیگارڈ نے بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر کے گردشی قرضے دو سال میں ختم کردے گی۔ انہوں نے سی پیک منصوبوں پر کامیابی سے عملدرآمد کو شفافیت، احتساب، گڈ گورننس اور سیاسی استحکام سے مشروط کیا اور کہا کہ بجلی کے آئی پی پیز معاہدوں کے نرخ حکومت کیلئے قابل برداشت ہونے چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کے 180 ممالک میں چین اُن کے 10 سرفہرست تجارتی پارٹنرز میں شامل ہے جبکہ چین پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ چین میں اجرتوں اور دیگر عوامل کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے اور چین اپنی مینوفیکچرنگ سستی اجرتوں والے ممالک منتقل کررہا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں چین سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے نقصان میں چلنے والے پبلک سیکٹر اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا جنہیں چلانے کیلئے حکومت ہر سال عوام کے ٹیکسوں کے 500 ارب روپے جھونک دیتی ہے۔
قارئین! میرے تجزیئے کے مطابق سی پیک کے 46 ارب ڈالر کے منصوبوں میں 12 ارب ڈالر کے حکومتی انفرااسٹرکچر منصوبے ہیں جس کیلئے چین نے حکومت پاکستان کو قرضے فراہم کئے ہیں جبکہ باقی 34 ارب ڈالر کے انرجی کے منصوبے ہمارے نجی شعبے کے بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز ہیں جس کیلئے انہوں نے چینی اور دیگر عالمی مالیاتی بینکوں سے قرضے لئے ہیں جن کی پلانٹ مشینری کی امپورٹ اور قرضوں کی ادائیگی 2020ء تک 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ 2020ء تک انرجی کے مکمل ہونے والے منصوبوں کے منافع کی ادائیگی ملکی جی ڈی پی کا 0.4 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کی آمد (Inflow) کے مقابلے میں اخراج (Outflow) زیادہ متوقع ہے جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ ڈالے گا۔ پاکستان کو ان ادائیگیوں کے مدنظر اپنی معیشت اور بیرونی ذخائر میں اضافہ کرنا ہوگا جس کیلئے ہمیں اپنی ایکسپورٹس اور بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ اور روپے کی قدر کو مارکیٹ کے حساب سے رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ ایکسپورٹ جی ڈی پی کا صرف 10 فیصد ہیں جبکہ دنیا کی ایمرجنگ ممالک کی ایکسپورٹ اُن کی جی ڈی پی کا 4 گنا ہے۔ معیشت دانوں کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے پاکستان کو جی ڈی پی میں2.5 فیصد اضافہ کرکے مجموعی 7.5 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی جو حکومت کیلئے یقینا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمتیں آدھی سے زیادہ کم ہوگئی ہیں جس سے ہمارا آئل امپورٹ بل کم ہوا ہے۔ دنیا میں بھارت، جنوبی افریقہ، چین، پولینڈ اورجرمنی کوئلے سے بجلی پیدا کرکے اپنی انرجی کی ضروریات پوری کررہے ہیں لیکن 2009ء میں جب صوبہ سندھ نے پہلی بار کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا تھا تو ماحولیاتی آلودگی کے پیش نظر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر پاکستان کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی حالانکہ پاکستان میں کاربن کا اخراج خطے میں سب سے کم ہے۔ اسی طرح امریکہ کے ایگزم بینک نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر پابندی عائد کی تھی جو بعد میں ہٹادی گئی اور اب ایگزم بینک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی فنانسنگ کررہا ہے لہٰذا پاکستان کو حکومتی رٹ برقرار رکھتے ہوئے تھرکول سے کالے سونے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ میں نے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کو بتایا کہ پاکستان میں انرجی سیکٹر ریفارمز کی وجہ سے صنعت کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر متبادل انرجی کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے، ونڈ پاور سے بجلی کی پیداوار کے نجی شعبے کے کئی منصوبے حکومت کی منظوری کے منتظر ہیں جبکہ سی پیک منصوبوں پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک منصوبے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنیا کیلئے گیم چینجر ثابت ہوں گے اور مستقبل میں پاکستان کو خطے میں مضبوط معاشی طاقت بنادیں گے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ نے پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے میرے مثبت بیان کو سراہا۔ دوران اجلاس کرسٹین لیگارڈ نے اپنی تقریر کا اختتام قائداعظم کے اس قول پر کیا کہ ’’لگن اور جدوجہد سے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ یقیناً ہم اپنے قائد کے اس قول پر عمل کرکے پاکستان کو خطے میں مضبوط معاشی ملک بناسکتے ہیں۔


.
تازہ ترین