• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو یہاںکوئی رہنما بھی ’’فلاپ‘‘ نہیں مگر 3طرح کے رہنما تو ایسے جو ہر دور میں سپر ہٹ ،ان میں ایک کاروباری رہنما ،دوسرے ہرباری رہنما اور تیسرے اخباری رہنما۔ سیاست کے اسٹاک ایکسچینج کاروباری رہنما جو اپنی حرکتوں سے بیوپاری رہنما بھی لگیں اور جنہیں اپنی Value اوردوسرے کی اوقات زبانی یاد ، ان کی بیرونِ ملک پراپرٹی اور اندرونِ ملک پارٹی،یہ ملکی ترقی اس طرح چاہیں کہ فون کال پر ایمبولینس سے پہلے پیزا پہنچے، ان کی سیاست دیکھ کر مشہوررائٹرسیمو ئیل جانسن یاد آئے کہ جس نے ایک لکھاری سے کہا کہ ’’آپ کی کتاب اچھی بھی ہے اوریجنل بھی مگر مسئلہ یہ ہے کہ کتاب کا جو حصہ اچھا ہے وہ اوریجنل نہیں اور جو اوریجنل ہے وہ اچھا نہیں‘‘۔بیوپاری رہنمائوں کے لئے ملک آڑھت اور قوم جِنس اور یہ ہر وقت اس جِنس کی جِنس بدلنے میں لگے ہوئے، انہیں وطن سے اُتنا ہی پیار کہ جتنی محبت آج کی پیپلز پارٹی سے اس پارٹی کے رہنمائوں کو اور عوام کو گلے لگاتے ان کی حالت بھی وہی ہوجائے جو حالت کسی بھی نام کے ساتھ لفظ وزیر اعظم لگنے کے بعد عمران خان کی ۔ کاروباری رہنمائوں کی جوانیاں ایسی’’ ہاؤس فل‘‘ کہ جیسے ایک اسٹیج ڈرامے میں شیبا حسن نے جب البیلا سے کہا کہ ’’جب جوانی گزرگئی تب تم آئے ‘‘ تو البیلا بولا ’’حضورجوانی کے وقت بھی آیا تھا مگر رش دیکھ کر واپس چلا گیا تھا‘‘ ۔ان کے بڑھاپے اکلا پے اور سیاپے بھرے اور حکیموں کے اکسانے پر یہ ایک شادی عمر کے اُس حصے میں بھی کر لیں کہ جب شادی کا مطلب بینک کی چوکیداری اور وہ بھی خالی ہاتھوں۔ کاروباری رہنمائوں اور باقی رہنمائوں میںوہی فرق جو فرق 5 ہزار کے نوٹ اور 50کے نوٹ میں، ایک مرتبہ 50 روپے کے نوٹ نے ڈرتے ڈرتے جب5ہزار کے نوٹ سے پوچھا کہ’’بھائی جان کیسی گزر رہی ہے ‘‘تولٹکتا مٹکتا 5ہزارکا نوٹ بولا ’’ دن فائیوا سٹار ہوٹلوں میں اور رات7 اسٹار کلبوں میں ، تم اپنی سنائو،تو 50 روپے کے نوٹ نے اِک ٹھنڈی آہ بھر کرکہا ’’ اپنی زندگی تو بس عبادت گاہ ،عبادت گاہ اور عبادت گاہ‘‘۔
رہنمائوں کی دوسری کامیاب قسم ہرباری رہنمائوں کی جنہیں اقتداری یا درباری رہنما بھی کہا جائے ، یہ کاریگر ایسے کہ خاموش بھی ہوں تو لگے کہ خوشامدہی کر رہے ہیں ، جہاں ان کا کوئی مفاد وہاں ان کی 4باتوں کا اثر 4سو باتوں جتنا ورنہ یہ ایسے کہ ان کے ساتھ 4منٹ بیٹھ کر بندے کی وہی حالت ہو جائے جو اپنے دوست کی فلم دیکھ کر اُس نقاد کی ہوئی کہ جس سے فلم کے بارے میں جب رائے پوچھی گئی تو وہ بولا’’ پوری فلم کے دوران میں اپنے سوئے ہوئے پائوں پر رشک کرتا رہا ‘‘۔ اقتداری رہنما بظاہر بھولے مگر اندر سے اُس ’’کھوچل ‘‘ بڈھے کی طرح کہ جسے سننے والا آلہ لگاکر7دنوں کے بعد پہلے چیک اپ کے دوران جب ڈاکٹر نے کہا ’’ آپ کی سماعت کی بحالی پر آپ کے گھر والے تو بہت خوش ہوں گے‘‘ توبڈھا بولا ’’میں نے تو اپنے گھر والوں کو بتایا ہی نہیں کہ میں اب سن سکتا ہوں، بس چپ چاپ بیٹھ کر ان کی باتیں سنتا رہتا ہوںاور 7دنوں میں3بار اپنی وصیت بدل چکا ہوں ‘‘۔ درباری رہنما تو شر سے بھی اس طرح خیر نکال لیں کہ جیسے مونیکا لیونسکی اسکینڈل کے دوران کلنٹن کے ڈیفنس اٹارنی نے شر سے خیر کا پہلو نکالا تھا ۔ صدر کی بلڈ رپورٹ پکڑے ان کے دفتر آکر وہ کہنے لگا ’’ سر ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری‘‘۔کلنٹن نے کہا کہ پہلے بُری خبر سنائو،تو یہ بولا ’’مونیکا کے لباس پر جو دھبے ہیں، ان کا ڈی این اے آپ کے ڈی این اے سے مل گیا ہے ‘‘ اچھی خبر کیا ہے ، کلنٹن نے پوچھا تواس نے کہا ’’ سر اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کا کولیسٹرول کم ہو کر نارمل لیول پر آگیا ہے۔ہمارا ایک دوست بسترِ مرگ پر پڑے ایک ایسے ہی دربا ری رہنما کی درازی عمر کی دعا کے لئے گیا لیکن 10منٹ کی اس عیادت کے بعد اب یہ 10سال سے ملک کی درازی عمر کی دعائیں کر رہا ہے ۔اپنے دیس میں رہنمائوں کی تیسری ہٹ قسم اخباری یاا شتہاری رہنمائوں کی۔ یہ جتنے بڑے اخباروں اور اشتہاروں میں اتنے بڑے تو ان کے بڑے بھی نہ تھے ، ان کی مقبولیت کا گراف چاہے جتنا بھی گرا مگر پھر بھی اتنا کبھی نہیں گرا کہ جتنا اقتدار کی خاطر یہ آئے روز گریں ، یہ خبروں میں ایسے رہیںکہ جیسے رہنے کیلئے کوئی اور جگہ ہی نہ ہو اور انہیں میڈیا کی ایسی لت لگےکہ خود کو آگ لگنے پر بھی یہ پہلے ٹی وی چینلز کو بتائیں پھرآگ بجھائیں،یہ تو روزانہ جیب میںیہ رقعہ ڈال کر گھر سے نکلیں کہ ’’ میں مشہور رہنما ہوں حادثے کی صورت میں پریس کو مطلع کریں‘‘ بولنا ان کا شوق اور اپنی آواز سننا ان کی کمزوری،انہیں چپ رہنے کا مشورہ دینا مطلب اداکارہ میرا کو برقعہ پہنانا،یہ تو حکمرانوں کے سامنے بھی بول پڑیں، ظاہر ہے چپ رہیں گے توجی حضوری کیسے کریں گے۔ اشتہاری رہنما اپنے قائدین میں خوبیاں یوں تلاش کریںکہ جیسے دو گھنٹوں سے اپنے ڈرائنگ روم میںکار کی چابیاں تلاش کرتی وہ اداکارہ کہ جس سے جب پوچھا گیا کہ چابیاں گری کہاں تھیں تو جواب مِلا ’’پچھلے صحن میں ‘‘پوچھنے والے نے حیرانگی سے کہا کہ تو پھر یہ تلاشی پچھلے صحن کی بجائے یہاں کیوں ‘‘ تو جواب آیا ’’ پچھلے صحن میں اندھیرا ہے اور یہاں روشنی ٹھیک آرہی ہے ‘‘اخباری رہنمائوں کے بیانات ایسے کہ اپنا سر دھننے کی بجائے ان کے سر دھننے کوجی کرے ، ان کے ہر بیان پرعوام کی حالت وہی ہوجائے جوبغداد کے مئیر کے بیان پر پیرس والوں کی ہوئی تھی،موصوف نے جب بیان داغا کہ 50سال بعد بغدادپیرس بن جائے گا تو اہلِ پیرس کی نیندیں اڑگئیں کہ 50سال بعد پیرس بغدادبن جا ئے گا ۔ دوستو! چند لمحوں کے غور کے بعد ہی جہاں یہ معلوم ہو جائے کہ نظام چاہے جو بھی ہو اورا قتدار چاہے جس کے پاس بھی ہو، کسی زیر زبر میں پڑنے کی بجائے ہر حکمران کی خدمت میں پیش پیش اپنے ان سپر ہٹ کاروباری، ہرباری اور اخباری رہنمائوں کے راستے جُداجُدا مگر سب کی منزل ایک ہی، وہاں تھوڑے سے مزید غور کے بعد یہ پتا بھی چل جائے کہ یہ سب وہ مریض کہ جنہیں اگر حکومتی آئی سی یو میں اقتدارکا وینٹی لیٹر نہ ملے تو ان کی حالت وہی ہو جائے جو پانی کے بغیر مچھلی کی لیکن صاحبو! جیسے کسی سیانے نے کہا تھا کہ’’ میں یہ دعا نہیں کرتا کہ میرے دشمن مر جائیں بلکہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ میرے دوست زندہ ہو جائیں‘‘ ایسے ہی اپنے ان رہنماؤں کو بھگت کر بھی میں یہ دعا نہیں کرتاکہ’’عزیز ہموطنو ‘‘کہہ کرپھر کوئی آجائے بلکہ میں یہی دعاکرتا ہوں کہ ’’یہ رہنما ہم وطنوں کو ہی عزیزماننے لگ جائیں‘‘
تازہ ترین