• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں قانون کی عملداری قائم کرنے کے دو طریقے رائج ہیں ۔ ایک قدیم اورموثرطریقہ خلیج کے برادر اسلامی ممالک میں رائج ہے ۔ وہاں جرائم پر انتہائی سخت سزائیں نافذ ہیں ۔ مقامی افراد اور تارکین وطن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جرم کی صورت میں بلا امتیاز کارروائی ہو گی ۔ قتل کیا تو گردن ماپی جائے گی ،چوری کی تو ہاتھ کٹے گا، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی تو لائسنس منسوخ ہوگا اور لڑائی جھگڑے ،فساد یا مذہبی منافرت پھیلانے پر جیل یاترا اور کوڑوں کے علاوہ ویزا بھی کینسل ہوگا۔
ان ممالک کے رہنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ کوئی جرم سر ز د ہونے کی صورت میں کوئی شیخ، وزیر، دھونس دھاندلی یا رشوت کام نہیں آئے گی ۔ نیز کوئی واقف کار تھانیدار بھی ندیدہ ثابت ہوگا۔ ہمارے بڑے بڑے سورما قسم کے قانون شکن ان ممالک کے ایئر پورٹس پر اترتے ہی’’مسلمان‘‘ ہو جاتے ہیں ۔ جو یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے ، وہاں پہنچ کر قانون کا پابند ہو جاتا ہے ۔ نہ کوئی اکڑ کر چلتا ہے ،نہ دھمکی دیتا ہے ، نہ دھونس جماتا ہے ،نہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو کٹ مارتا ہے ، حتیٰ کہ وہ بے جا ہارن تک بجانے کی جرأت نہیں کرتا۔ تاہم وہاں پرہر طرح کی سہولتوں کے باوجود شہریوں کو اپنے حکمرانوں کے چنائو کا حق اورشخصی آزادیاںحاصل نہیں ، البتہ تحفظ ضرور حاصل ہے ، جو کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اس نعمت کی قدر وہی جانتا ہے جس کی جان، مال ،عزت، بچے اور عورتیں محفوظ نہ ہوں ۔ قانون کی حکمرانی کی اس قسم کو ہم ڈنڈے کے زور پر قانون کا نفاذ کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی کوئی چاہے یا نہ چاہے مگر اسے قانون کا احترام کرنا پڑتا ہے ۔
قانون کی بالا دستی کی دوسری قسم اغیار کے ہاں رائج ہے ، جنہیں ہم اخلاق باختہ اور کھوکھلے معاشروں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان غیر مسلم ممالک میں قانون کی عملداری بذریعہ تربیت قائم کی گئی ہے ۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما طریقہ ہے ، جو کفار ہی کو زیبا ہے ۔ یورپی معاشروں نے اس ’’موذی پلاننگ‘‘ کے تحت مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے ریاست سے الگ کیا اور بلا تخصیص جنس ،مذہب و ملت اور رنگ و نسل وہی معتبر ٹھہرا جو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا ہے ۔ ان ممالک میں بچہ ہوش سنبھالتاہے تو قانون کی حکمرانی ، احترام انسانیت ، اخلاق ، ڈسپلن ، تہذیب ، رواداری ، علم اور سچ کا بول بالا دیکھتا ہے اور اس کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی ہے ۔
ہماری طرح صفائی ان کا نصف ایمان تو نہیں البتہ صفائی میں ان کی جان ضرور ہے ، چاہے وہ تن کی ہو یا من کی ،گھر کی ہو یا گلی کی ، شہر کی ہو یا ملک کی ۔ جرائم وہاں بھی ہیں اور سزائیں بھی نافذ ہیں لیکن آبادی کی غالب اکثریت قانون کی پابندی اسی اجتماعی معاشرتی تربیت کے سبب بخوشی خود اور بلا جبر و اکراہ غیرے کرتی ہے ۔ کوئی ٹریفک کی سرخ بتی پر اس لئے نہیں رکتا کہ سامنے سپاہی کھڑاہے بلکہ اس کی گھٹی میں شامل ہے کہ اس نے قوانین کی پابندی کرنی ہے ، جھوٹ نہیں بولنا ،کم نہیں تولنا، بے ایمانی ، دھوکہ ،فریب نہیں کرنا، کسی کا حق نہیں مارنا اور ریاست کے ساتھ وفادار رہنا ہے۔ جواب میں ریاست بھی ان سے جفا نہیں کرتی اور انہیں روزگار،صحت و تعلیم ، عزت نفس اور دیگر سہولتوں کے علاوہ ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ ان لوگوں کو بلا خوف اپنے نمائندے چننے کا حق ہے اور وہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادیوں سے بھی بہرہ مند ہیں ۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ ان غیر مسلم معاشروں نے یہ تمام رہنما اصول ہمارے دین سے چرا کر ترقی کی ۔ بالکل صحیح ہے ،سو فیصد صحیح ، لیکن ان کی چوری کی مہارت کی داد دینی پڑے گی کہ کم بختوں نے ہمیں ہوا بھی نہیں لگنے دی اور واردات ہذا سے چپکے چپکے نہ صرف خوشحال ہو گئے بلکہ دنیا اور خلائوں پر اپنا سکہ بھی جما لیا۔ حیرت ہے کہ سچ کے خوگر ہم ہیں مگر اس پر ناجائز قبضہ ان کا ہے۔ اصول ہمارا ہے مگر تفرقہ بازی وہاں نہیں ہوتی ۔ اگر ایسا کچھ ہے بھی تو وہاں پر ہماری کمیونٹی میں ۔ دوسروں کی جان و مال کی حرمت کا حکم ہمیں ہے لیکن دہشت گردی وہاں نہیں ہوتی ۔اگر اکا دکا واردات ہو بھی جائے تو ہمارے کھاتے ہی میں شمار ہوتی ہے ۔ ہمارے چرائے ہوئے اصولوں کے تحت ان کے حکمران دشمنوں کے لئے جتنے بھی فولاد ہوں ، اپنے عوام کے لئے اتنے ہی نرم اور خادم ہیں ۔ وہ عوام کے ٹیکسوں سے عیاشی کرتے ہیں نہ شاہانہ جلوس میں کروفر سے سفر کرتے ہیں ۔ حکومت میں آ کر کاروبار کرتے ہیں نہ قومی سرمایہ لوٹ کر دوسرے ملکوں کے بینکوں میں منتقل کرتے ہیں ۔
ٹیکس بھی پورا دیتے ہیں اور بینکوں سے قرضے بھی معاف نہیں کراتے۔کمال ہے کہ وہ الیکشن ہار کر نہ صرف عوامی فیصلے کے آگے سر جھکا دیتے ہیں بلکہ دھاندلی کا واویلا کئے بغیر جیتنے والے مخالف امیدوار کو مبارکباد دے کر گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔ وہاں کوئی کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرتا ہے نہ جعلی ادویات بناتا ہے ۔ عدالتوں میں انصاف کی بے حرمتی ہوتی ہے نہ اسپتالوں میں مریضوں کی بے چارگی نظر آتی ہے ۔ عوام کی درخواستیں میز در میز رسوا ہوتی ہیں نہ انہیں کلرک اور افسر شاہی کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔ کوئی دوسرے کو جہنمی کہتا ہے نہ خود کو جنتی قرار دیتا ہے ۔کوئی دوسروں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے نہ کوئی دوسروں کے سامنے روبوٹ بنتا ہے ۔ ضمیر کی منڈیاں لگتی ہیں نہ منافقت کے بازار سجتے ہیں ۔ ہم انہیں غیور قوم یا با ضمیر ملت تو ہر گز نہیں کہہ سکتے البتہ کم بختوں کے پاس کوئی نہ کوئی متبادل جادو کی چھڑی ضرور ہے۔ اپنے معاشرے میں ان کے رویے مثبت ہیں ،جو ہم پارسا اور نیکو کاروں کے لئے عقل شکن حیرت ہی ہو سکتی ہے۔
قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی ہے جس میں قانون کی موم کی ناک مروڑ کر اسے اپنی خواہشات کے مطابق نافذ کیا جاتا ہے ، لیکن اسے رہنے دیں ۔ایام غم ہیں ، اسی مناسبت سے قیصر ؔ بارہوی کی ایک مسدس سنئے :
مردہ ہے خواہشات میں ڈوبا ہوا ضمیر
لعنت ہے زر کی دھوپ میں پگھلا ہوا ضمیر
تذلیل زندگی ہے خریدا ہوا ضمیر
پیمانہ یزید ہے بیچا ہوا ضمیر
آپ آن میں حیات کا رخ موڑ دیجئے
تاریکیوں کو حُر کی طرح چھوڑ دیجئے
تازہ ترین