• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنا محاسبہ کرنا اچھی بات ، لیکن ہم پاکستان میں اپنا، اپنی صلاحیتوں اور کا ر کردگی کا اس قدرمنفی جائزہ لینے کے عادی ہیں کہ جب صورت ِحال ہمارے حق میں ہوتو حیرت کے مارے ہمیں یقین نہیں آتا۔ وزیر ِ اعظم نواز شریف کے حالیہ امریکی دورے سے پہلے بہت سے ’’منجھے ‘‘ ہوئے سفارت کا ر ہمیں خبردار کررہے تھے کہ صدر اوباما اتنی رکھائی سے پیش آئیں گے کہ وزیر ِ اعظم نوا زشریف کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ سرکاری دورہ ملتوی کردیں، لیکن نوا زشریف اور اوباما کے مشترکہ اعلامیے نے ہمیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ۔ہمارے بدترین خدشات کیا تھے؟ پہلا یہ کہ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالے گا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام، جس کا مقصد بھرپور ایٹمی ڈیٹرنس حاصل کرنا ہے، کو ختم کردے، اوراگر ہم ’’کولڈا سٹارٹ ‘‘ جیسے عزائم کا تدارک کرنے کیلئے اپنا پروگرام آگے بڑھانے سے باز نہ آئے تووہ ہم پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے گا۔ اس پر پاکستان کا موقف یہ تھا اس کی جوہری پالیسی اس بحث کا حصہ نہیں،لیکن اس پر پس ِ پردہ کچھ بات ہوسکتی ہے۔ تاہم سرکاری اعلامیے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے پر کوئی بات نہیں تھی ۔
دوسرا خدشہ یہ تھا کہ اب جب صدراوباما کی مدت ختم ہونے جارہی ہے ،تو قدرتی طورپر اُن کی توجہ کامرکز اپنی اچھی وراثت چھوڑکر جانے اور اس بیانیے کو آگے بڑھانے میں ہے کہ اُن کا عہدکتنا اچھا تھا۔اُن کی انتظامیہ پاکستان پر الزام عائد کرے گی کہ اُس کی وجہ سے افغانستان سے امریکی دستوں کا انخلا کھٹائی میں پڑ گیا۔ صدراوبامانے دعویٰ کیا تھاکہ وہ اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے نکال لیں گے۔ کہا جائے گاکہ طالبان کی طرف سے قندوز پر مختصر مدت کیلئے قبضہ کرنا اور افغانستان میں تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھریہاں دوغلی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم اس دورے کے دوران ’’ڈومور‘‘ کی بازگشت سنائی نہ دی۔ تیسرا خدشہ یہ تھا کہ اس ستمبر کو سینیٹر جان کیری اور انڈیا کی سشما سوراج کی طرف سے دہشت گردی پر امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے ، جس میں جنوبی ایشیا میں لشکر ِ طیبہ، جیش محمد اور دائودابراہیم کمپنی کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کا اعادہ کیا گیا، کے بعد شاید ایک مرتبہ پھر پاکستان کو دہشت گردی کوفروغ دینے والے ملک کے طور پر اجاگر کیا جائے اور ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کی امریکی پالیسی میں بھارتی توقعات اور خواہشات کو مد ِ نظر رکھا جائے۔تاہم یہ خدشہ بھی بے بنیاد ثابت ہوا۔مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف بہادری سے لڑنے والے ملک، بلکہ امریکی پارٹنر کے طور پربھی پیش کیا گیا۔
پاک امریکہ مشترکہ اعلامیے کا مواد، لہجہ اور اس کا فوکس شاید پاکستان کے نقطہ ٔ نظر سےاس سے کہیں زیادہ خوشگوار ہے جتنا ہم نے حالیہ برسوںکے دوران کبھی دیکھا ہو۔ چھوٹے موٹے اختلافات اپنی جگہ پر، لیکن افغانستان کے مسئلے پربھی امریکہ نے پاکستان سے وہی کچھ کہا جو ہم پہلے ہی کررہے تھے۔ ضرب ِ عضب کے آغاز سے پاکستان نے اپنی پالیسی کا برملا اعلان کردیا تھا کہ اب قبائلی علاقوںمیں حقانی نیٹ ورک کو پناہ دینے کے دن گنے جاچکے۔ تاہم طالبان کو پاکستانی سرزمین استعمال کرتے ہوئے فوجی کارروائیوں سے روکنا ایک بات، لیکن ان سے روابط توڑنا دوسری بات ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں امریکہ دبے لفظوں میں پاکستان کی اس پالیسی کی حمایت کرتا ہوا محسوس ہو ا کہ اب بیک وقت مذاکرات اور لڑائی کی پالیسی نہیں چلے گی۔ پاکستان یا توطالبان کے ساتھ جنگ کرسکتا ہے ، یا اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔اس سال جولائی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کا آغاز کرنے میں معاونت کرنے پر پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے امریکہ بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کچھ شکوک و شبہات اپنی جگہ پر ، لیکن افغانستان میں قیام ِامن کیلئے پاکستان کے تجویز کردہ فارمولے سے بہتر کوئی حل نہیں۔ ایٹمی عدم پھیلائو کے متعلق جاری کردہ بیان پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارا یہ پروگرام بنیادی طور پر جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن اورا سٹرٹیجک استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں ’’تمام فریق‘‘ احتیاط کا دامن تھامنے پر مجبور ہیں۔ تمام دنیا پاکستان کے غیر روایتی ہتھیاروں کے ذخیرے میں اضافے کو روکنے کی خواہش مند، لیکن دوسری طرف اعلامیہ ہمارے ایٹمی پروگرام اور جنوبی ایشیا میں طاقت کے مطلوبہ توازن میںتعلق کو تسلیم کرتا ہے۔
پاک بھارت مسئلے پر امریکہ نے کسی فریق کی طرف جھکائو ظاہر نہیں کیا، لیکن ہم ایک ایسے ماحول کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ امریکہ لامحالہ طور پر کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑا ہوگا ، اور قیاس اغلب ہے کہ یہ فریق بھارت ہوگا، تاہم ایک مرتبہ پھر ہمارے خدشات درست ثابت نہ ہوئے۔ امریکہ نے پاکستان کی تشویش کو تسلیم کیا۔ وزیر ِ اعظم پاکستان نے اقوام ِ متحدہ میں کشمیر پر بات کی تھی، اسے موجودہ ملاقا ت میں بھی اپنا موضوع بنایا۔ ہم نے یہ بات واضح کردی کہ انڈیا اس وقت دہشت گردی کے سوا کسی موضوع پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں، لیکن پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیر سمیت تمام موضوعات پر گفتگو کی جائے۔ مشترکہ اعلامیہ کھل کر پاک بھارت مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کشمیر سمیت تمام علاقائی تنازعات پر بات کی جائے۔
اسی پیرائے میں یہ ’’پاک بھارت کے درمیان دہشت گردی سمیت تمام مسائل کا حل‘‘ چاہتا ہے۔ اس کا فوکس صرف بھارت کی خواہش کے مطابق لشکر ِطیبہ کے خلاف کارروائی پر مرتکز نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کی بات بھی کرتا ہے۔
تاہم اس سے پہلے کہ ہم اس کامیاب دورے پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا شروع کردیں، ہمیں ایک بات تسلیم کرنی ہوگی کہ سفات کاری اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کوایک کےنفع اور دوسرے کے نقصان کے ترازوپر نہیں تولا جاسکتا۔ انڈیا پاکستان کی نسبت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی کا حجم اور معیشت عالمی برادری کیلئے پاکستان کی نسبت زیادہ کشش رکھتی ہے۔ اہم بات یہ کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کادارومدار انڈیا کے زوال پر نہیں، بلکہ باہمی تنازعات کو نمٹانے میں ہے۔ پاکستان جیسے چھوٹے ملک کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوزیشن اور دعوئوں کے درمیان توازن پید ا کرے۔
مشترکہ اعلامیے سے پیدا ہونے والا مجموعی تاثر یہ ہے کہ اب امریکہ یہ بات تسلیم کرنے لگا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل کا ایک حصہ ہے۔نیز پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام بند کرنے پر اُس وقت تک مجبور نہیں کیا جاسکتا جب تک بھارت کی طرف سے لاحق سیکورٹی خدشات کا تدارک نہ ہوجائے۔ بھارت کی پوزیشن تو واضح ہے کہ وہ پاکستان میں موجود انتہا پسندگروہوں پر دہشت گردی کا الزام لگاتا تھا، لیکن اب انڈیا کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کی بات بھی زیر ِ بحث آئی ہے۔ اعلامیے کا لہجہ بہت جچا تلا اور اس کی تیاری میں پاکستان کے احساسات کا خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر لشکر ِطیبہ کے حوالے سے ان الفاظ میں بات کی گئی کہ اقوام ِ متحدہ کی طرف سے دہشت گردقرار دئیے جانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مجموعی طور پر پاکستان کو خدشہ تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد اس پر پریسلر دور کی پابندیاں عائد کردی جائیں گی، لیکن یہ خدشہ بے بنیاد ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ کمزور ہوتی القاعدہ کے علاوہ افغانستان میں پیدا ہونے والے خلا میں داعش جیسے گروہ قدم رکھ سکتے ہیں۔ اس دوران پاکستان نے ضرب ِ عضب کے ذریعے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔
جس دوران مشرق ِوسطیٰ شورش اور افراتفری کی زد میں ہے، منظم اور طاقتور فوج رکھنے والی اس ریاست کو برہم کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ا س حالیہ دورے سے دو معروضات سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ افغانستان میں قیام ِامن اور مفاہمت کے عمل کیلئے پاکستان ناگزیر ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں ریاستوں کے درمیان تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنے داخلی اختلافات طے نہیں کرنے کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ بیرونی دنیا کے سامنے یہ بات زیر ِ بحث لانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو درست راہ پر گامزن کرنے کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے یا جنرل راحیل شریف کو۔ ہمیں یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دونوں کے تال میل کے بغیر ضرب ِ عضب کو کامیابی سے جاری نہیں رکھا جاسکتا ۔
تازہ ترین