• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہا پسندی کا زہر بھارت میں تیزی سے پھیل چکاہے۔ نفرت کا الائو چاروں جانب پوری شدت سے جل رہا ہے۔ آگ ہے کہ بھڑکتی ہی جا رہی ہے۔ لوگ ہیں کہ جھلستے ہی جا رہے ہیں۔ شعلے ہیں کہ ہر چیز کو خاک کئے جا رہے ہیں ۔ ہر طرف دھواں ہے، راکھ ہے اور تپش ہے۔ حرمت آدم کا جنازہ جا رہا ہے۔ انسانیت قصہ پارینہ ہوئی جا رہی ہے۔ خواب ریزہ ریزہ اور تعبیر روز بہ روز مکروہ ہوتی جا رہی ہے۔دکھ بڑھتا جا رہا ہے ، الم فگار ہوتے جا رہے ہیں۔ نظریئے ،نوحہ کناں ہیں اور تماشہ دیکھنے والوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے۔اس سنگین ماحول میں اگر کوئی یہ کہے کہ یہ انتہا پسندی صرف بھارت کو چاٹ رہی ہے تو غلط ہے۔ اپنے ہاں بھی ظلم انتہا پر پہنچ چکا تھا ۔اقلیتوں کے گھر نذر آتش کرنا،فرقہ وارانہ فسادات، بموں کے دھماکے،ا سکولوں پر حملے، بسوں میں قتل عام ، اداروں پر شب خون کیا کیا نہ ہو ا ہے۔ ظلم کی داستانیں بے پناہ اور بے شمار ہیں۔ ہم نے ہر ایسے ظلم پر ماتم کیا ہے ، معذرت کی ہے۔ افسوس کا اظہار کیا ہے۔ چاروں جانب سے اس کی مذمت ہوئی ہے۔ہم معذرت خواہ رہے ۔ معافی طلب کرتے رہے ۔ امن نعرہ ہی سہی مگر اس نعرے کو بلند کرتے رہے۔ہمارے ہاں خلفشار صرف اندرونی نہیں بیرونی عوامل بھی تھے ۔ بڑی طاقتوں کے فیصلوں میں ہم گھاس کی طرح روندے گئے ، کچلے گئے مگرمعذرت اور مذمت کے سوا کوئی حرف زبان پر نہ آیا۔کچھ عرصہ پہلے تک نہ مقابلے کی خواہش کی نہ ہی ہم نے کبھی کوئی ایسا ارادہ ظاہر کیا۔ نہ ہم بجلی بن کر دشمنوں پر کڑکے نہ فسادیوں کو نیست و نابود کیا ۔ نہ دہشت گردوں کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا نہ انکے ٹھکانوں کو زیر کیا ۔نہ بیرونی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائی نہ اندرونی مسائل کا تدارک کیا۔ہمارے پاس واحد ہتھیار معافی اور مذمت تھی اور اس ہتھیار کا ہم نے استعمال بارہا کیا۔بھارت میں جو کچھ آج کل ہو رہا ہے اسکی بنیاد صرف مذہب نہیں ، بلکہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو برتری کی خاطر نفرت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ احساس برتری کبھی مذہب کے لبادے میں آتا ہے تو کبھی ذات پات کے لباس میں۔ کبھی قومیت کا بھوت بن کر ناچتا ہے اور کبھی کھیل کے میدان میں تشدد پھیلاتا ہے۔ کبھی یہ اچھوت اور برہمن کی جنگ نظر آتی ہے اور کبھی اختلاف سکھوں کی کرپان اور کیس سے ہوتا ہے۔کبھی عورتوں پر سرعام تشدد کو بڑھاوا دیا جا تا ہے اور کبھی فن اور فنکار پر جبر کی صورت نظر آتا ہے۔ کہیںکبڈی کے میدان خالی نظر آتے ہیں کہیں کرکٹ کے میدان حالت جنگ کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ کبھی نچلی ذاتوں کے لوگوں کو زندہ نذر آتش کر دیا جا تا ہے اور کہیں گائے کا گوشت کھانے پر تشدد سے قتل کرکے جشن منایا جاتا ہے۔ یہ سب ایک مریضانہ ذہنیت ہے جس نے سیکولر ازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ خاک کر دیا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں بے پناہ مماثلت ہونے کے باوجود انتہاپسندی کے حوالے سے طرز فکر میں بہت فرق ہے۔ اپنے ہاں پہلی دفعہ آواز اٹھائی گئی اور مثبت اقدامات کئے گئے۔ آپریشن ضرب عضب اسکی بہترین مثال ہے۔ ریاست پوری توانائی سے دہشت گردی کیخلاف برسرپیکار نظر آتی ہے۔ جنگ کو آخر کارجنگ مان لیا گیا ہے۔ مجرموں کو پھانسی دی جا رہی ہے۔ قصوروار لائق سزا ہو رہے ہیں۔ اب رویہ معذرت خواہانہ نہیں جارحانہ ہے۔بات مذمت سے آگے نکل گئی ہے۔مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی پھیلانے والوں کو ببانگ دہل مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔کوئی معافی اور معذرت قبول نہیں ہو رہی۔احتساب اور بلاتفریق احتساب کی بات چل نکلی ہے۔ ہم نے اس رویے کو تبدیل کیا ہے جو معافیوں پر مبنی تھا۔ جو معذرتیں ہمیں درپیش تھیں ہم ان سے ماورا ہو گئے۔ اٹل فیصلے کی جانب بڑھنے لگے ، زمینی حقائق کو پرکھنے لگے۔ عملی اقدامات کرنے لگے۔جن کے ثمرات کچھ آگئے ہیں اور بہت سے باقی ہیں ۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے معاملے میں ہم اب وہ نہیں رہے جو پہلے تھے ۔ ماضی کچھ شاندار نہیں مگر روشن مستقبل کی بہرحال امید ضرور ہوئی ہے۔
فرق بنیادی طور پر رویئے کا ہے۔ مودی سرکار کے آنے سے بھارت کی سیکولرہونے کی تمام تر اساس اپنی جگہ سے ہل گئی ہے۔ ہندو مت کی امن کی اپیل خوفناک شدت میں بدل گئی ہے۔ قصہ سارا مصنوعی احساس برتری کا ہے۔ جعلی تفاخر کا ہے۔ ہم جن معاملات پر دہائیوں شرمندہ رہے پڑوس میں ان ساری قبیح وارداتوں پر فخر کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں سے بھری ٹرین کو نذر آتش کرنے کا واقعہ انسانیت کی تذلیل تھی مگر اس پر ووٹ مانگنا حیران کن عمل ہے۔ کشمیریوں پر ظلم کرنا باعث شرم عمل ہے مگر اس بنیاد پر عنان حکومت قائم رکھنا تعجب انگیز ہے۔ کرکٹ کے میدانوں میں سرحدوں کی سیاست الم انگیز ہے مگر اس میں قومی افتخار کو شامل کر دینا شرمناک ہے۔ کتاب اور مصنف کی حرمت بھلے نہ کریں مگر ہر دو کی تذلیل دردناک ہے ۔فنکاروں کو قومیت کے نام پر ہراساں کرنا قابل مذمت ہے مگر اس بات کو قومی برتری بنا دینا الم ناک ہے۔مودی سرکار نے ظلم کو فخر ، جبر کو جذبہ اور تشدد کو تشکر کے معانی دے دیئے ہیں۔ انتہا پسندی کی کارروائیوں پر نہ کوئی معذرت کا جملہ کہا گیا نہ تاسف کا اظہار کیا گیا۔ نہ صف ماتم بچھی نہ درد کا اظہار کیا گیا۔ یہی وہ رویہ ہے جو خوف دلاتا ہے ، برتری کے جعلی جنون کو جوش دلاتا ہے اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ کیفیت پاکستان کیلئے ہی نہیں پڑھے لکھے بھارتی شہریوں کیلئے بھی شدید تشویش کا باعث ہے۔ ورنہ کون اپنے اعزاز اور ایوارڈواپس کرتا ہے ؟ کون اپنی عمر بھرکی کمائی سر بازار نیلام کرتا ہے؟کون اپنی ہی سرکار کا سپرد دشنام کرتا ہے؟خطے کی صورت حال نے عجب انگڑائی لی ہے۔ ہم جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار تھے اب اس سے پوری قوت سے برسرپیکار ہیں اور بھارت جو امن پسندی کی اساس بیچتا تھا اب اس بنیاد میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ ظلم ، نفرت اور جبر انسانی تاریخ کی مستقل کیفیات کبھی بھی نہیں رہیں۔ بالآخر انسان محبت کے جذبے کی طرف پلٹتا ہے، مساوات بہرحال انسانی سرشت کا حصہ ہے۔نفرت انسان کے خمیر میں وقتی جذبہ ہے۔دہشت اور تخریب کو دوام نہیں۔ انسان صرف انتقام نہیں۔جب کوئی ملک، فرد یا ادارہ نفرت کو بنیاد مان لے تو تنزلی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ انہدام اسکے خمیر میں رچ بس جاتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ اسکا مقدر ہوتی ہے۔یہی بات مودی سرکار کو سوچنی ہے۔وقتی جوش اور جنون میں کیا کہیں بھارت کا انہدام تو پو شیدہ نہیں؟ امن کے نام لیوا پر دہشت گردی کا الزام تو پوشیدہ نہیں؟ تقسیم در تقسیم کا مزید امکان تو پوشیدہ نہیں؟
تازہ ترین