• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم میں سے کچھ، یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتا ہے کہ کتنے، لیکن اچھی خاص تعداد میں احباب بشمول ہر آن معجزوں کے منتظر ریٹائرڈ افسران کی بٹالین، بہت بےتابی سے اکتوبر کے اختتام اور نومبر کے آغاز پر کچھ نہ کچھ ہونے کی امید کررہے تھے۔ دارالحکومت کی طرف مارچ کو ہم نے ایک ایسا عامل سمجھا جو بہت سے معاملات کو متحرک کردے گا،لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، وہ میسولینی کے روم کی طرف مارچ جیسا نہ نکلاجب اُس کی فاشسٹ پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ دارالحکومت مفلوج ہوجاتا، حقیقی بٹالین کو متحرک ہونے پر مجبور ہونا پڑتا اور اشرافیہ چھپنے کے لئے محفوظ ٹھکانے تلاش کرتی۔تاہم یہ توقع پوری نہ ہوئی۔
اس کی بجائے دو باتیں ہوئیں۔ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا، خیر یہ تھی ہی ایک تزویراتی غلطی۔ دارالحکومت کی طرف مارچ اور اس پر قبضہ کرنے کا قبل ازوقت اعلان ایک احمقانہ اقدام تھا۔ حتیٰ کہ جنگوں کا بھی اس طرح اعلان نہیں کیا جاتا۔ آپ پہلے وار کرنے کا حق اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں، چاہے پرل ہاربر ہو یا عراق پر حملہ۔ اعلان ِ جنگ بعد میں کیا جاتا ہے۔ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن یہی تو ہے، چپکے سے، چوری چھپے، برق رفتاری سے پہلے حملہ کریں، باقی باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ اگر حملے میں حیرت کا پہلو عنقا ہوجائے توپہلی گولی چلانے سے پہلے ہی آپ موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔
اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی نے حکومت کو فائدہ پہنچایا۔ اس نے مارچ کو روکنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھا لئے۔ دفاعی مورچے پکے کرلئے اور اُس پولیس اور کانسٹیبلری کوبھی ہلہ شیری دی جس نے 2014 ء کے دھرنوں میں بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا اور مظاہرین کے سامنے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب وہ اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے تھے۔ 2014ء اور موجودہ احتجاجی مارچ میں اہم فرق یہ تھا کہ اُس وقت پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک ِ انصاف مل کر اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے۔ جب وہ دارالحکومت میں داخل ہورہے تھے تو اُنہیں روکا نہیں گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تصادم کی نوبت بعد میں آئی تھی۔لیکن اس مرتبہ ’’میسولینی ٔ عصر‘‘، عمران خان نے میدان میں ایک قدم تک رکھے بغیر مارچ کا اعلان بہت پہلے کردیا۔ اس طرح پیش قدمی کا فائدہ حملہ آوروں کے ہاتھ سے نکل کر دفاع کرنے والوں کے پاس چلا گیا۔ اوریہ کوئی بھی میجر، اور جیسا کہ میں، ایک کیپٹن بھی آپ کو بتاسکتا ہے کہ بغیر تیاری کے کئے جانے والے حملے کے مقابلے میں ایک کمزور دفاع بھی مضبوط ثابت ہوتا ہے۔ اب اگر وزیر ِ داخلہ، چوہدری نثار ہرمن گورنگ (Hermann Goering)کی طرح سینہ تانے، فخرسے فاتحانہ انداز میں گرد ن اکڑائے پھررہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی قائدانہ صلاحیت نہیں بلکہ حملہ آوروں کی ناقص حکمت ِعملی تھی۔
اگر پی ٹی آئی کے کارکنانوں کو علامہ طاہر القادری کے حربی بحر ِعلوم سے ایک جرعہ نوش کرنے کی توفیق ہوتی تو شاید اُن کی تیاری کا عالم کچھ اور ہوتا۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو لاجسٹک اور اشیائے خوردونوش اور ٹرانسپورٹ کا منظم اہتمام کرکے چلنا سکھایا گیا ہے۔ ان کے سیکرٹر ی جنرل، خرم نواز گنڈاپور پی ایم اے سے اعزازی شمشیر یافتہ ہیں۔ وہ ایسے ہی صحرا میں چاول کاشت کرنے نہیں اتر جاتے، اور پھر ان کی کارکن خواتین بھی جذبے اور استقامت میں مرد کارکنوں سے کم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو علامہ قادری کے افکار و عزائم سے اختلاف ہو لیکن اُن کے کارکنوں کے جذبے کو سراہناپڑتا ہے۔ جماعت ِاسلامی کی صفوں میں بھی سخت جان اور پرعزم کارکن پائے جاتے تھے، لیکن جماعت کے نظریات مذہب کی ایسی خشک تصویر پیش کرتے ہیں جو زیادہ تر پاکستانیوں کے لئےقابل ِ قبول نہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن کسی کا سرتوڑنے پر نہیںتل جاتے۔ اُن کی طرف سے 2014 ء کے دھرنوں کے دوران تشدد کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا لیکن اُس وقت و ہ دیوار کے ساتھ لگ چکے تھے۔ دوسری طرف جماعت کے کارکن کالجوں اور جامعات کے کیمپسز میں اپنے حریفوں کے سرپھاڑنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ پاکستان میں تعلیمی زوال کی بہت سی دیگر وجوہ ہوں لیکن جماعت کا تعلیمی اداروں پر قبضہ ایک نمایاں وجہ کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال مارچ کو روک لیا گیا، بٹالین کو متحرک ہونے کا کوئی موقع نہ ملا۔ چنانچہ معجزہ نہ ہوا، اور اشرافیہ کو چھپنے کے لئے فرار نہ ہونا پڑا۔ اب وہ اس خوشی سے سرشار ہیں کہ چونکہ اُن کے خلاف سازش ناکام ہوگئی، اس لئے وہ پہلے سے بھی زیادہ توانا اور مضبوط ہیں۔ اب اُنھوں نے اپنا جوابی حملہ بھی شروع کردیا ہے۔ اُن کا فعال بازو پاکستان بار کونسل کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے،اور اس تنظیم نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے دی گئی پٹیشنز کی سماعت کرنے پر سپریم کورٹ کی اتھارٹی پر سوال اٹھایا ہے۔ حکمراں اشرافیہ تقسیم اور ابہام کے ایسے بیج بونے کی ہمیشہ سے ماہررہی ہے۔ 1998 ء میں چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ صاحب نے اُس وقت کے وزیر ِاعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف توہین کے کیس کی سماعت شروع کی۔ اشرافیہ نے دو’’کام ‘‘کئے۔ ایک تو سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی، اور جج حضرات کی صفوں میں نااتفاقی پید اکردی۔ اس کے نتیجے میں چیف جسٹس صاحب کو اپنے ہی ساتھی ججوں کے ہاتھوں منصب سے اترنا پڑا۔
اگر حکمراں اشرافیہ جج حضرات کے مابین اختلاف کی لکیر ڈال سکتی ہے پاکستان بار کونسل کوئی سیسہ پلائی دیوار تو ہے نہیں۔اور پھر بار کونسل کی اُس مخصوص میٹنگ کی صدارت فاضل اٹارنی جنرل، اشتر اوصاف علی کررہے تھے،جو بڑی حد تک ایک ’’فیملی وکیل ‘‘کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس دوران حقیقی بٹالینز کو بھی خوش کرنے کی کوشش میں وزیر ِ داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی کہانی، جسے مبینہ طور پر ’’سیکورٹی لیک ‘‘ قرار دیا جارہا ہے، کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی سربراہی کریں گے۔ شائع ہونے والی اُس کہانی نے مقتدر ادارے کو برہم کردیا تھا۔ چنانچہ اگر اب وہ ہائی کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کی تحقیقات پر مطمئن ہوجاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ حکمراں اشرافیہ کے سامنے دھندلے تمام افق صاف ہوچکے۔ ان پر چھائی سیاسی اسموگ چھٹ چکی۔وہ بند دروازوں کے پیچھے دل کھول کر ہنسیں گے، اور اس دوران ہنسی روک کر ’’الحمدﷲ ‘‘ کہنا نہیں بھولیں گے۔
حکمراں ایسے ان گنت کمیشنز کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جب 1990کی دہائی میں کواپریٹو اسکینڈل نے سراٹھایا (حکمران اشرافیہ نے کواپریٹو بنکوں سے بھاری قرضے لئےتھے جو اُنہیں نہیں لینے چاہئے تھے کیونکہ اس کی وجہ سے کواپریٹو سسٹم تباہ ہوگیا تھا) تو کمیشن کی سربراہی کرنے والے سپریم کورٹ کے ایک جج نے حکمرانوں کے ہاتھ ایک کلین چٹ تھما دی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جج صاحب اُن کے ٹکٹ پر ایک سینیٹر بن گئے۔ سپریم کورٹ پر حملے کی تحقیقات کے لئے ایک اور کمیشن قائم ہوا۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ اُس حملے کے پیچھے کون تھا لیکن محترم جج صاحب کو کچھ دکھائی نہ دیا۔ ماڈل ٹائون میں سفاکیت سے چودہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کی سربراہی میں واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم ہوا۔ اس کی لکھی ہوئی رپورٹ حکمرانوں کو پسندنہ آئی۔ اﷲ ہی علیم و خبیر ہے، فانی انسانوں کو ہر گز نہیں پتہ کہ آج کل وہ رپورٹ کہاں ہے۔ کیا پاناما لیکس میں تاریخ تبدیل ہوتی دکھائی دے گی؟




.
تازہ ترین