• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مہینوں کے تھکا دینے والے طویل انتظار کے بعد بالآخراسپین میں نئی حکومت معرض وجود میں آگئی۔ نومبر 2015میں حکومت کی سفارش پر بادشاہ ’’فلپے ششم‘‘ نے ہسپانوی پارلیمان کے دونوں ایوان تحلیل کرتے ہوئے 20دسمبر 2015کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الیکشن منعقد کرانے کا اعلان کیا۔ ہسپانوی تاریخ کی بلند ترین شرح بے روزگاری جو کہ 25فیصد تک پہنچی ہوئی تھی، لاکھوں کی تعداد میں ہسپانوی نوجوان تلاش روزگار میں دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور بھاری پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر منظور کئے گئے کئی متنازع بل اور آئینی شقیں اس بات کی اُمید دلا رہی تھیں کہ اس بار شاید پاپولر پارٹی منتخب نہ ہو سکے، لیکن دو پارٹی سیاسی نظام کے زمین بوس ہوجانے کے بعد جو ’’ہنگ‘‘ پارلیمنٹ وجود میں آئی اُس میں باوجود کوشش کے دائیں اور بائیں بازو کے ’’دھڑے‘‘ حکومت بنانے میں ناکام رہے اور اسپین کی حالیہ جمہوری تاریخ میں چھ ماہ کے اندر دوبارہ 26جون 2016کو انتخابات انعقاد پذیر ہوئے۔ دوبارہ ہونے والے انتخابات میں کوئی جوہری تبدیلی تو پیدا نہ ہوئی البتہ پچھلے چار سال وزیراعظم رہنے والے ’’ماریانو راخوئی‘‘ دائیں بازو کی چھوٹی پارٹی ’’سیوتادان‘‘ کے ساتھ مل کر 165اراکین اکھٹے کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن ’’حنوز‘‘ 176 اراکین کا ہدف پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ہسپانوی انتخابات میں کل 350سیٹیں ہیں پہلی کوشش میں 176 اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد ماریانو راخوئی نے چپ سادھ لی تھی، دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتیں سوشلسٹ پارٹی 85نشستیں، پوئیدیموس جو کہ انتہائی بائیں بازو کی جماعت ہے، نے75نشستیں اور بائیں بازو کی ہی دوسری قوم پرست صوبائی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنانا ممکن تھا جس کا بائیں بازو کی دونوں جماعتوں نے اپنے منشور میں وعدہ بھی کیا تھا کہ اس بار ماریانو راخوئی کو ایوان وزیر اعظم سے باہر نکال کر ہی دم لیں گے لیکن عین وقت پر تمام وعدے ٹوٹ گئے، نئی سیاسی جماعت پوئیدیموس کی عدم سیاسی پختگی اور سوشلسٹ پارٹی کے اندرونی انتشار اور ساتھ ساتھ صوبہ کاتالونیا کی اسپین سے علیحدگی کے زبردست مطالبات کے خوف سے سوشلسٹ پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب سے غیر حاضر ہونے کا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ یقیناً اس پارٹی (سوشلسٹ ) کو بھگتنا پڑے گا،کیونکہ پارٹی کے بنیادی اراکین کی غالب اکثریت اس غیرحاضری کے فیصلے سے ناخوش ہے،اسی کھینچا تانی میں سوشلسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری ’’پیدرو سانچز‘‘ کو دو قربانیاں دینا پڑیں، اپنا فیصلہ نہ منوا سکنے کی بنا پر انہوں نے جنرل سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دیا اور ماریانو راخوئی کو ’’ناں‘‘ میں ووٹ کے اپنے وعدے کی بنا پر پارلیمنٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ سوشلسٹ پارٹی کے اس اندرونی سیاسی انتشار کی وجہ سے ’’ماریانو راخوئی‘‘ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے میں (اقلیت) کے ساتھ کامیاب ہو چکے ہیں لیکن روزمرہ کے امور مملکت چلانے بالخصوص بجٹ پاس کرانے میں انہیں چھوٹی اور اتحادی پارٹیوں کے ناز نخرے یقینا اٹھانا پڑیں گے ساتھ ساتھ اپنی کابینہ کا انتخاب بھی ان کے لئے آسان نہیں ہوگا باوجود اس کے کہ اتحادی پارٹی ’’سیوتادان‘‘ نے کابینہ کا حصہ بننے سے معذرت کی ہوئی ہے، اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ موجودہ وزیراعظم اس تقسیم شدہ ایوان کے ساتھ چار سال حکومت کر پائیں گے یا آٹھ مہینے کے بعد جو کہ کم از کم عرصہ کی آئینی رکاوٹ ہے ایوان تحلیل کرکے نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں گے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سرمایہ داروں اور ’’ وڈیروں ‘‘ کے حقوق کو تحفظ دیتی جبکہ عام عوام کو کم وسائل اور فوائد منتقل کرتی ہیں۔ اسپین میں 45لاکھ کے قریب بسنے والے تارکین وطن کی اکثریت اس بار حکومتی تبدیلی کے لئے پر اُمید تھی اسی لئے تارکین وطن نے نئی بننے والی سیاسی جماعت ’’پوئیدیموس‘‘ کو 75نشستوں کے ساتھ ’’دبنگ‘‘ انٹری ڈالنے میں بھرپور معاونت کی تھی کیونکہ تارکین وطن کی خواہش تھی کہ بائیں بازو کی حکومت بنے جس سے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو گا اور تارکین وطن کے ساتھ رویوں میں نرمی ہو گی، جیسا کہ ہسپانوی شہریت کا حصول، دوہری شہریت، ملازمتوں میں آسانی اور اُجرت میں اضافے جیسے مسائل بھی حل ہو نگے لیکن افسوس کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ موجودہ سیاسی نظام میں ایک فائدہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکثریت میں نہیں ہے اور اس وجہ سے ہر قانون سازی میں شرائط منوائی اور مانی جائیں گی۔اسپین کو مالیاتی خسارے میں کمی جیسے بڑے مسئلے کا پچھلے تین سال سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یورپی یونین کا دباؤ بھی کہ آپ مالیاتی خسارہ اپنے جی ڈی پی کے 3فیصد سے اُوپر نہیں لے کر جا سکتے۔ اگراسپین یورپی یونین کی یہ شرط پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کم از کم 60سے 70 ارب یورو کی سرکاری اخراجات میں کٹوتیاں کرنا پڑیں گی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں کو برداشت کرنا ہوگا اور اس عمل سے غربت اور امیری کے درمیان موجود ’’خلیج‘‘ میں مزید اضافہ ہوگا۔ رواں سال ہونے والے دوسری بار کے انتخابات میں پاکستانی کمیونٹی سمیت دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا تھا،سب کو قوی اُمید تھی کہ اس بار وہ سیاسی جماعتیں حکومت بنائیں گی جو تارکین وطن کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہیں اس کے لئے اسپین میں مقیم غیر ملکیوں نے الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گھروں میں جا کر ووٹ تک مانگے تھے، تارکین وطن کی پسندیدہ جماعتیں حکومت تو نہیں بنا سکیں، البتہ موجودہ حکومت کو بڑی مشکلات کا سامنا ہوگا اورآٹھ ماہ بعد نئے انتخابات ہوں گے، یہ نئی اُمید غیر ملکیوں کے لئے کسی’’دلاسے‘‘ سےکم نہیں۔



.
تازہ ترین