• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جانے بھی دیجئے! کیوں لٹھ لئے ایک منتخب وزیراعظم کے پیچھے پڑے ہیں جبکہ وہ امریکہ کے دورے پر تھے۔ کوئی ملک اپنے سربراہ کو اتنے وسوسوں کے ساتھ باہر روانہ نہیں کرتا۔ کیا ہذیان تھا جو نہیں اُگلا گیا۔ جو ٹی وی اسٹیشن لگایا، لگا کہ ’’آکاش وانی‘‘ ہے۔ شومئی قسمت اب تو ایسے ایسے ریٹائرڈ قسم کے ماہرین ا سکرینوں پہ جلوہ گر ہیں کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ شاید یہ پلے باندھ لیا گیا ہے کہ جتنی حکومت پہ لعن طعن بھیجو گے، اُتنے ہی کامیاب۔ بھلا قبولیت پانے کا یہی ڈھنگ رہ گیا ہے؟ ہم، آخر چاہتے کیا ہیں؟ ہمارے اپنے منتخب کردہ رہنما سلامتی و خارجہ امور سے لاتعلق کر دیئے جائیں؟ ایسا ہی کمال تھا تو آپریشن جبرالٹر، 65ء اور 71ء کی جنگیں، افغان جہاد در جہاد، کشمیر جہاد اور کارگل کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ تقلید نقش چھوڑ پائے۔ گھر کو پھونک کر چھاتی پھلا کے چلنے کا رواج یہیں ہے۔ کسی وزیراعظم نے کبھی ’’قومی مفاد‘‘ کا سودا کیا، کیا کوئی بتلا سکتا ہے؟ آج بھی قومی سلامتی کا نظریہ تقریباً وہی ہے جو بھٹو نے دیا تھا۔ اور کسی نے اُس کے بہت ہی بنیادی سقم دُور کرنے کی کبھی سعی کی؟ یادش بخیر! بم کی بنیاد رکھی بھٹو نے، دھماکا کیا نواز شریف نے، میزائل ٹیکنالوجی لائی بے نظیر اور مطعون ہوئے وزرائے اعظم۔ پھر وزیراعظم نواز شریف کو بار بار قومی پاسداری کی قسمیں اُٹھانے پر کیوں مجبور کیا گیا؟ جب گھر سے ہی اتنی گرد اُڑائی جائے گی، تو بیرونی میڈیا کو کیا پروا ہوگی۔ اگر آپ کا اپنا منتخب کردہ وزیراعظم اتنا ہی خالی ڈبہ تھا، تو صدر اوباما کو اُس کے ساتھ اپنے دو قیمتی گھنٹے ضائع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی۔اتنا لمبا چوڑا اعلامیہ، اور وہ بھی بنیادی طور پر دوستانہ، کبھی پاک امریکہ چوٹی ملاقات میں جاری ہوا تھا؟ کونسی پاکستانی تشویش تھی جو اعلامیہ میں جگہ نہ پا سکی؟ جی ہاں! کشمیر سمیت تمام تنازعات کا دو طرفہ پُرامن حل اس میں نمایاں ہے۔ جس حساس معاملے پر سویلین وزیراعظم پہ شک کے گولے برسائے جا رہے تھے، سارے فسانے میں جوہری پروگرام پر کسی تحدید کا کہیں ذکر نہ تھا۔ سرتاج عزیز نے جنوبی ایشیا میں جس اسٹرٹیجک عدم توازن کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اُس بارے میں تشویش بھی اعلامیہ میں شامل ہے۔ دہشت گردی کے سوال پر بھی پاکستان اور بھارت کی الگ الگ شکایات کے ازالے کی بات کی گئی ہے۔ یہ حوالہ بھی پاکستان کی جانب سے تھا کہ لشکر، حقانی و دیگر جنہیں اقوامِ متحدہ دہشت گردوں کے روزنامچوں میں لکھ چکی ہے، اُن کیخلاف کارروائی قومی و عالمی ذمہ داری ہے۔خوشخبری یہ ہے کہ سلامتی کے علاوہ بھی ہمارے امریکہ سے تعلقات معیشت، تجارت، توانائی، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و صحت کے میدانوں میں بھی بڑھ پائینگے؟ اس ناتے عالمی مالیاتی اداروں اور منڈیوں کو بہت مثبت پیغام دیا گیا ہے۔جیسا کہ گزشتہ کالم میں یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ زیادہ تر بات افغانستان، دہشت گردی اور اسٹرٹیجک تعاون پر مرکوز رہے گی۔ سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے پاک افغان سرحد کے ہر دو اطراف سلامتی و انتظام کو یقینی بنانے کی جو تجویز چوٹی کی ملاقات سے ایک روز قبل دی تھی، اُس پر اعلامیہ میں صراحت سے اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو بات سرکار دہرائے نہیں تھکتی کہ اپنی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس پر امریکی موقف کا ٹھوس بیان دہرایا گیا ہے۔ اُس کا لب لباب یہ ہے کہ عدم استحکام پیدا کرنیوالی کارروائیوں کو روکا جائے اور افغان حکومت اور طالبان میں بات چیت کی راہ ہموار کی جائے۔ بعد ازاں وزیراعظم نے پھر سے استفسار کیا ہے کہ افغان طالبان کو مارنے چل پڑے تو اُنہیں مذاکرات کی میز پر کس منہ سے لیکر آئینگے۔ لیکن شاید امریکی اتنا چاہتے ہیں کہ کھلانے والا ہاتھ انکے ہاتھ کو کچھ تو تھام سکتا ہے اور اس میں تضاد بھی نہیں! کاش کوئی یہ کہہ سکتا کہ ہمیں افغانستان سے کچھ نہیں چاہیے، ماسوا ایک محفوظ اور غیرمتنازع سرحد کے! پراکسیوں یعنی اپنے جہادیوںسے ہم نے پہلے کون سا فیض پایا کہ اس بار وہ ہمیں سرخرو کر پائینگے۔جوہری ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کے امریکی تقاضے اور عالمی جوہری اداروں میں شمولیت اور اُن سے استفادے کی پاکستانی تمنائیں تشنۂ تکمیل رہیں اور رہیں گی۔ قومی تمکنت کے اس ہوش رُبا مظہر پہ کون پسپائی کرنے والا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بھارتی جوہری دوڑ کا توڑ کرتے کرتے ہماری کمر دہری نہ ہو جائے اور بھارت چین سے مسابقت میں دم نہ ہار بیٹھے اور چین روسیوں کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کا جوہری توڑ حاصل نہ کر پائے۔ اس ممنوعہ مضمون پر اتنا کہنا کافی ہے کہ بھارتی خطرے کے توڑ میں کتنے جوہری ہتھیار درکار ہونگے؟ اور اگر ہم اپنے جوہری ہتھیاروں کی عالمی جوہری قوانین سے توثیق کروا پائے تو ہم مستقبل میں ایران اور شمالی کوریا کی خوفناک ناکہ بندی جیسی صورتحال سے بچ پائینگے۔ ابھی اچھا وقت ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حصہ دار ہیں اُسے ہماری ضرورت ہے۔ بات چل رہی ہے، ابھی پسِ پردہ ہے۔ بات ٹوٹنی نہیں چاہئے تاآنکہ عالمی پذیرائی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔ اکثر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کیوں اتنے دشمن ہو گئے کہ ایک دوسرے کو ہستی سے بار بار مٹانے کے اسباب بنانے پر تلے ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ سب سے زیادہ افلاس، سب سے زیادہ وحشت اور انسانیت کی تذلیل یہیں ہو رہی ہے۔اس محرم میں پچاس سے زائد شیعہ حضرات شہید ہوگئے دوسری طرف بھارت میں کیا ہوا۔بھارت کے دلتوں کو مارنے پر وہاں کے وزیر کو اتنا بھی ملال نہ ہوا جو کتے کے مرنے پر ہوتا ہے۔بھارت کی طرف سے بات چیت کی بحالی پہ رضامندی کا اشارہ آیا ہے اور وزیراعظم نواز شریف کے دوستی کے ہاتھ کو اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے، اُس مودی حکومت کے خلاف جو کرکٹ کھیلنے پہ بھی راضی نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر میکینزم کی بات ہم نے کی تھی اور یہی بات اعلامیہ میں بھی ہے۔ بھارتی انکار، بھارت کیلئے ممد ثابت نہیں ہوا۔ اب اعلامیہ میں بھی ایک پائیدار اور جامع مذاکرات پر اصرار کیا گیا ہے۔ گویا وزیراعظم کی اخلاقی فتح! اوفا (روس) اتفاقِ رائے بھی ایک راستہ تھا جو نہ چلا۔ راستے بہت ہیں، اگر کوئی راہ نکالنے پہ آمادہ ہو۔ جو بات ناقابلِ فہم ہے کہ ہم امریکہ کے بڑے مخالف بنتے ہیں اور اُسے دھوکے باز سمجھتے ہیں، پھر بھی یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ بھارت کی بڑی منڈی سے استفادے سے منہ موڑنے والا نہیں، یہ اصرار کرتے ہیں کہ امریکہ ہمارے کیمپ میں آ جائے۔
یہ تو کیا پدی اور کیا پدی کے شوربے والی بات ہوئی۔
ابھی واشنگٹن اعلامیہ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اُترے پھر میدان میں سلامتی کی مہارت کے چیمپئن۔ ایک ایٹمی طاقت کے وزیراعظم کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی کیوں ہمت نہ ہوئی؟ افغانستان میں کمیں گاہوں کے خاتمے کا ذکر کیوں نہ ہوا جبکہ ہمارے پیارے حقانی اور شہہ رگ کے محافظ لشکر کا تذکرہ ہے۔ اور کیا کچھ نہیں جو سننے کو نہیں مل رہا۔ یہ بھی کہ اصل بات تو آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہوئی اور فیصلہ کن مرحلہ تو سپہ سالار کے دورے میں آئے گا۔ آپ کہنا پھر یہ چاہ رہے ہیں کہ وزیراعظم جسے عوام کی اکثریت نے تیسری بار اعتماد کا ووٹ دیا ہے کون ہوتا ہے؟ خدا کا واسطہ پاکستان اور اس کے اداروں کااس طرح مذاق نہ بنائیں۔ اس دورے کی ہر سطح پر تیاری کی گئی تھی، اسے ناکام ہونے سے بھی بچایا گیا تھا اور اس پر سپہ سالار نے بھی وہی کرنا ہے جو اعلیٰ سطحی مشاورتوں میں طے ہوا ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ سب ایک ہی صفحے پر ہیں نہ کہ کھوج لگانے کی شوخی ماری جائے کہ کون کس کے صفحےپر ہے۔
دورے کی جو بہت خوبصورت بات رہی وہ امریکہ کی خاتونِ اوّل اور پاکستان کی دختر اوّل مریم نواز کے درمیان، پاکستان کی دو لاکھ بچیوں کی تعلیم و تربیت کے انتظام میں تعاون کا پیمان ہے۔ مشعل اوبامامریم نواز سے مل کر جتنی خوش نظر آئیں اور مریم جس متانت سے پیش آئیں، وہ پاکستان کے عالمی تصور کی جاذبیت کو بڑھاوا دے گا۔ عورتوں کے حقوق کیلئے قدامت پسند شریفوں کی بیٹی کا عزم لائقِ تحسین ہے۔ یہ ذکر اس لئے آ گیا کہ ہم صرف ایف سولہ لڑاکا طیاروں کے حصول میں ہی تسکین محسوس کرتے ہیں وگرنہ محروموں کی زندگیوں میں خوشیاں لانے کے کسی قدم پر جنگی ذہنوں کو کہاں جلا ملتی ہے۔ جانے دیجئے! اپنی اوقات میں رہنا ہی اچھا ہے۔ وگرنہ وزیراعظم کی بدخوئی سے کیا حاصل؟ اگلی بار کوئی اور سہی۔ یہی جمہوری دستور ہے!
تازہ ترین