• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم پاکستان محمد نوازشریف امریکہ کا دوسرا سرکاری دورہ مکمل کر چکے۔ تیسری بار ملک کے وزیرا عظم منتخب ہونے کے بعد دو سال قبل جب انہوں نے وائٹ ہاوس میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی تھی تو تب ملکی حالات اتنے دگرگوں تھے کہ امریکی مطالبات یا معروف اصطلاح ڈومورپر سر تسلیم خم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔ پرویز مشرف کی نو سالہ آمریت اور پیپلز پارٹی کی مخلوط جمہوری حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی نے ورثے میں جو کچھ چھوڑا تھا وہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اتنا اعتماد بھی نہیں دے سکا کہ وہ دنیا کی سپر پاور کے طاقت ور ترین صدر سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمکلام ہو سکتے۔ تب انہوں نے جیب سے کاغذ نکالا اور تحریر کردہ نکات کا سہارا لے کر امریکی صدر پر واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں اکانومی،ایجوکیشن،انرجی اور ایکسٹریمزم( فورایز) شامل ہوں گی۔ اسی موقع پر افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے خطے میں امن اور استحکام کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کے متعلقہ نکات بھی بیان کیے تھے۔ بطور وزیر اعظم نواز شریف نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر باراک اوباما سے پہلی ملاقات بھی اکتوبر کے انہی دنوں میں کی تھی اوراب ٹھیک دو سال بعد وہ ایک بار پھر اکتوبر میں ہی امریکی صدر کی دعوت پر اوول آفس گئے۔ فرق واضح تھا کہ اس بار ہونے والی ملاقات میں بطور چیف ایگزیکٹو ان کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی اور دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے نتائج نے انہیں اتنا پر اعتماد بنا دیا تھا کہ وہ امریکی صدر کے سامنے بیٹھے نہ صرف مسکرا رہے تھے بلکہ امریکہ کو یہ باور بھی کرا رہے تھے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اب سیکورٹی کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی امریکی انتظامیہ نے دورہ کرنے والی پاکستانی قیادت کو دبائو میں لانے کیلئے دورے سے قبل ہی اپنے مخصوص میڈیا میں مضامین اور خبریں شائع کرائیں جن میں برسوں سے امریکی حکومت کی آنکھوں میں کھٹکنے والے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کوممکنہ طور پر محدود کرنے کےمطالبے کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان نے جیسے ہی امریکی سرزمین پر قدم رکھا عین اسی وقت وائٹ ہائوس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ نے نیوز بریفنگ کے دوران میڈیا کے نمائندوں پر واضح کیا تھا کہ امریکی صدر اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان ہونے والی بات چیت کا محور خطے کی سیکورٹی ہی ہو گی۔انہوں نے تو یہ مشورہ بھی دے ڈالا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جوہری معاہدے کے بارے میں بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ یہ چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف تھا کیوں کہ حکومت پاکستان کے کسی ذمہ دار نمائندے نے جوہری پروگرام کے بارے میں کسی بھی ڈیل یا معاہدے کا نہ تو مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی فرمائش۔ دوسری طرف اس اہم ملاقات سے قبل وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں ان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے با ضابطہ طور پر تین ڈوزئیرز امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حوالے کیے۔ ان ڈوزئیرزمیں ریاستی سطح پر بھارت کے کراچی،فاٹا اور بلوچستان میں مداخلت کے ٹھوس ثبوت شامل تھے تاہم امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے صحافی کے بار بار استفسار پر بھی ان دستاویزات کی وصولی سے یکسر لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہ جان کربی اسی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا ترجمان تھا جس نے گزشتہ ماہ بھارتی ہم منصب سشما سوراج کے پہلو میں کھڑے ہو کر نہ صرف لشکر طیبہ،جیش محمد، ڈی کمپنی اور حقانی نیٹ ورک کا نام لے کر پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے بلکہ پاکستان سے ممبئی حملوں کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا بھارتی مطالبہ بھی دہرایا تھا۔ اب وہی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں کی وصولی کو ماننے سے بھی انکاری تھا۔ خیریہ تو تھا وہ ماحول جس میں وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی۔ اب ملاقات کے اس مشترکہ اعلامیے کا جائزہ لیتے ہیں جو اس ناچیز کی رائے میں نہ صرف ڈو مور کا تسلسل ہے بلکہ صدر اوباما نے اپنے دوسرے دورہ بھارت کے دوران جس نئی دہلی کو حقیقی گلوبل پارٹنر قرار دیا تھا اس اعلامیے میں اسی دوست کے مفادات کا بھرپورتحفظ بھی کیا ہے جس کا شکریہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے رد عمل میں کربھی دیا ہے۔ دس صفحات پر مبنی اسی اعلامیے میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے وہ لشکر طیبہ سمیت تمام دہشت گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ ڈو مور کی اسی گردان کو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اس امر کو یقینی بنائے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کا کوئی بھی گروہ پاکستانی سر زمین سے کارروائی کے قابل نہ رہے۔ امریکیوں کے خلاف دہشت گردی کے ممکنہ حملوں کو روکنے پر پاکستان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت مزید کارروائی جاری رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ امریکیوں کی نیت کا فتوراور رویے کا تضاد تو اعلامیے میں درج اس نکتے سے بھی آشکار ہے کہ ایک سانس میں جس پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کا قلع قمع کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے دوسری سانس میں اسی سے تعاون طلب کیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں وزیر اعظم پاکستان کو جنہوں نے امریکی سرزمین چھوڑنے سے قبل ہی انہیں باور کرا دیا کہ طالبان کو مارو اور مذاکرات کرو کی پالیسی ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس بار پاکستان پر ایک نئی ذمہ داری بھی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ خطے میں موجود امریکی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور یر غمال بنائے جانے والے امریکیوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے میں بھی کردار ادا کرے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زور دیا گیا ہے کہ پاک افغان بارڈرمینجمنٹ کو بہتر کرنے کیلئے افغان حکومت کیساتھ مل کر مربوط میکانزم بنایا جائے۔ امریکی مہربانوں نے بھارت کی غیر موجودگی میں اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اعلامیے میں تحریر کرایا کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کو روکنے کیلئے ایسا موثر میکانزم تشکیل دیا جائے جو بھارت اور پاکستان دونوں کیلئے قابل قبول ہو۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکرات کو پائیدار اور جامع انداز میں بلا تعطل جاری رکھنے کی ضرورت پر تو زور دیا گیا لیکن امریکہ نے اس ضمن میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کا پاکستانی مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کیا۔آخر میں ذکر کرتے ہیں مشترکہ اعلامیے میں شامل اہم نکتے کا جسے نیوکلیئر ٹیررازم کے خطرے کا نام دیا گیا ہے۔اس نکتے کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں تاہم یقینا اس کا اشارہ اسی امریکی وسوسے کی طرف ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے دہشتگردوں یا انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔اسی وسوسے اور ایٹمی جنگ کے خطرے کی آڑ میں پاکستان کے جوہری مواد سے لیس طویل اور محدود فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کو ترک کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس ضمن میں امریکی صدر کو جو کورا جواب پاکستان کی سویلین قیادت نے دیا ہے ویسے ہی ہری جھنڈی آئندہ ماہ فوجی قیادت پینٹاگون کے حکام کو دکھائے گی۔کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ کی طرف سے اعلامیے میں علاقائی توازن کی اہمیت پر تو زور دیاجائے لیکن بھارت کیساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدہ کرنے اوراسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلانے کی حمایت جیسے عدم توازن پیدا کرنیوالے اقدامات بھی کئے جائیں۔ نئی دہلی کیساتھ اربوں ڈالرز کے معاہدےجبکہ پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات میں مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے محض عزم کا اعادہ۔ اس امریکی رویے پر تو سہیل وڑائچ کا مقبول عام جملہ یاد آتا ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
تازہ ترین