• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیگم نصرت بھٹو 23؍مارچ 1928ء کو پیدا ہوئیں!
23؍ اکتوبر 2011ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں!
83برس کے قریب زندگی پائی۔
موت سے کافی عرصہ قبل وہ کومے میں چلی جاتی ہیں، رخصتی کے اس انداز میں ان کی زندگی کے المناک شب و روز کی تصویر متشکل کی جا سکتی ہے۔
دو جواں سال حسین و وجیہہ بیٹے پراسرار موت کی دبیز تہوں میں چھپا دیئے گئے۔ بیوی اور ماں دونوں حیثیتوں سے بیگم نصرت بھٹو نے اپنے غم پالے رکھے، پالتے پالتے برداشت کرتے کرتے، دل کی دھڑکنوں پر اشکوں کی برسات برساتے برساتے، ایک روز انہوں نے نطق اور بیداری دونوں سے پردہ کر لیا، اور پھر اسی اندوہناک احتجاج کے پردے کا آخری سرا، 23؍ اکتوبر 2011ء کو کھینچ دیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بیگم صاحبہ نے پاکستانی عوام کے حقوق اور آئین کی بالادستی کے راستے پر جدوجہد کا پُر عزم اور شجاعانہ ریکارڈ قائم کیا، چیئرمین پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار سے سرفراز کئے جانے کے بعد قائم مقام چیئرمین بنا دی گئیں!
قائم مقام چیئرمین کا عہدہ سوگوار سیاہ گھٹائوں کی صدمہ انگیز حالت میں، سازشیوں اور مخبروں کی چالوں کے باوجود، پارٹی کی بقاء کے طور پر ان کا استحقاق قرار پایا،بہ سلسلہ قائم مقام چیئرمین سازشیوں اور مخبروں کی ناکامی کو ترقی پسند قلمکار اور میرے محبی خادم حسین چوہدری نے نہایت اثر انگیز بصیرت کے ساتھ اپنی یادوں میں بیان کیا، لکھتے ہیں:’’ہمیں بیگم نصرت بھٹو کی مصروفیات اور ان کی جدوجہد کی کوریج کا بھی اعزاز حاصل ہے اور بہت سے واقعات یاد آتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ دن بڑا ہی جاں گسل تھا، جب گارڈن ٹائون کے نون ہائوس میں پیپلز پارٹی کے بڑے جمع ہوئے اور بڑی خاموشی اور تحمل سے پارٹی پر قبضے کی کوشش کی۔ یہ بھٹو کی قید کے دور کا ذکر ہے۔ یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ بھٹو کو شاید چھوڑا نہیں جائے گا اور اس وقت یہ تصور تھا کہ ان کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی ضرورت ہے، ایسے میں پارٹی کے اندر بڑے لوگوں نے قبضہ کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہم نون ہائوس کے لان میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ منتظر تھے کہ مجلس عاملہ کے نام پر ہونے والی یہ میٹنگ کیا فیصلہ سناتی ہے، اس وقت بلحاظ عہدہ شیخ رشید سینئر وائس چیئرمین تھے اور صدارت بھی انہی کو کرنا تھی، اندر مولانا کوثر نیازی ایک پُر اثر اور جذباتی تقریر کر رہے تھے۔
یہ درد بھری آواز تھی جو بھٹو کے غم کو اجاگر کرتی اور اس کا اختتام یوں ہوا کہ جدوجہد کے لئے قائم مقام چیئرمین کا تقرر ضروری ہے اور اس کے لئے انہوں نے محترم مصطفیٰ جتوئی کا نام پیش کر دیا۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ صدر نشین شیخ رشید بھی تجربہ کار سیاستدان تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہے؟ چنانچہ انہوں نے بھی ’’نیک نیتی‘‘ سے پیش کی جانے والی اس تجویز ہی کو آگے بڑھایا اور یکایک بیگم نصرت بھٹو کو چیئرمین بنانے اور خود ان کے حق میں دستبردار ہونے کی تجویز پیش کر دی، بتاتے ہیں کہ میٹنگ میں ایک دم سناٹا چھا گیا اور پھر یکایک تائید کا سلسلہ شروع ہوا تو دونوں معتبر حضرات منہ دیکھتے ہی رہ گئے اور بہت بھاری اکثریت نے اس تجویز کی تائید کر دی اور بیگم نصرت بھٹو قائم مقام چیئرپرسن بن گئیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور سیاسی جسد کو کمین گاہوں سے اپنوں کے تیروں سے اس طرح بچا لیا گیاجیسے آصف علی زرداری نے بی بی کی شہادت کے کھولتے غم کے موقع پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کو اور بلاول بھٹو زرداری کو چیئرمین پارٹی نامزد کروا کے پارٹی کو بچا لیا تھا۔ قوموں کی زندگی کے لمحات کی بعض تاریخی گھڑیاں چھوٹ جانے پر صدیوں کے فاصلے پڑ جاتے ہیں اور ان گھڑیوں کی صدا پر بروقت لبیک کہنے سے وہی صورتحال صدیوں کا فاصلہ ایک زقند میں طے کر لیتی ہے۔ بھٹو صاحب کی قید کے دوران میں قائم مقام چیئرمین کے فیصلے اور بی بی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر پارٹی کی سربراہی کے فیصلے کی دونوں آزمائشوں میں پارٹی قیادت کا سرخرو ہونا اس جماعت کے عوامی قرض کی ادائیگی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنے منصب کو اپنی تگ و تاز سے لے کر اپنی احتجاجی خامشی تک ایک مکمل سیاسی عبادت کے طور پر نبھایا بالکل اسی طرح جیسے آصف علی زرداری نے بی بی کی شہادت کے موقع پر اپنے فرض کے تقاضے میں قطعی کسی کوتاہی کو در نہ آنے دیا۔ ’’آصف علی زرداری پارٹی پر بوجھ ہیں‘‘ کی پاکستان گیر تھیوری، اچانک چند ماہ سے کونپل سے تناور درخت بنتی جا رہی ہے؟ یہ بیج کس نے بویا، کیوں بویا جا رہا ہے، اس کا ذکر پیپلز پارٹی کی بحالی کے تناظر میں آئے گا بلکہ اس تھیوری سے ہی اس موضوع کا آغاز ہو گا، فی الوقت موضوع سخن بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت اور یادیں ہیں!
پاکستان پیپلز پارٹی کے ریسرچ اسکالر، ہمدم دیرینہ ضیاء کھوکھر پاکستان کے چاروں صوبوں کے اہل شعور اور اہالیان پاکستان کو، برسوں سے پیپلز پارٹی کے ہر سکھ اور ہر دکھ (دکھ زیادہ ہیں) کے موقع پر یاد دہانی کا کشٹ اٹھاتے ہیں، اب کی بار، شاید پہلی بار، بیگم صاحبہ کی اس برسی پر ان کا کوئی پیغام موصول نہیں ہوا، پتہ لگا سکوت کے پس منظر میں دوستوں کے سوالات ان کی گزری عمر کا سارا نظریاتی جسد اپنے سوالات کے ترازو میں تولنے لگتے ہیں، مجھے ان کے اس سکوت پر از حد تکلیف ہے، وہ بہر طور نظریاتی امید کا ایک چراغ ہیں، ایسے چراغوں کو، ہزار اختلاف رائے کے باوجود مدہم نہیں ہونا چاہئے، بجھنا نہیں چاہئے!
عرصہ دراز پہلے ضیاء کھوکھر نے مجھے جوہر میر کی ایک نظم بھیجی تھی، میرؔ نے بیگم صاحبہ کی یاد میں، دل پارہ پارہ کر دینے والی نوحہ گری میں کلام کرتے کہا؎
اسلام آباد کے کونے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
مت پوچھ کیا کھو آئی ہوں، مت پوچھو کیا کیا لائی ہوں
اسلام آباد کے کوفے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
کچھ منظر ہیں، کچھ یادیں ہیں، کچھ آنسو، کچھ فریادیں ہیں
کچھ لمحوں کی سوغاتیں ہیں، کچھ گھڑیوں کی رو دادیں ہیں
کچھ سنگ زنوں کے تمغے ہیں، جو کچھ بھی ملا، لے آئی ہوں
اسلام ابٓاد کے کوفے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
وہ منظر اب تک قیدی ہے، میری گہنائی آنکھوں میں
وہ رات ابھی تک زندہ ہے، میری پتھرائی آنکھوں میں
جب کالے دن کی دستک پر، میں روئی ہوں، کرلائی ہوں
اسلام آباد کے کوفے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
وہ آخر وصل کا لمحہ تھا، جو ہجر کے غم میں بہنے لگا
میں روئی وہ ہنسنے لگا، میں تڑپی تو وہ کہنے لگا
میں آزادی کی خوشبو ہوں، میں زنداں کی رسوائی ہوں
اسلام آباد کے کوفے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
آواز پہ کان لگا رکھنا، شانوں پہ صلیب اٹھا رکھنا
آنکھوں میں یزید و شمر رکھنا، سینوں میں کرب و بلا رکھنا
زینب کی خطابت کا صدقہ، شبیر سے مانگ کے لائی ہوں
اسلام آباد کے کوفے سے، میں سندھ مدینے آئی ہوں
بیگم نصرت بھٹو کی یاد میں، پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں قرآن خوانی ہوئی، روح کو ایصال ثواب کیا گیا۔ کہاں؟ میرے دوست کالم نگار نے سوال کیا، پھر خود ہی جواب میں کہنے لگے ’’یہ کسی خبر میں نہیں، یہ خبر نظر سے ضرور گزری کہ ان کی چوتھی برسی ہے۔‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی اس قومی و سیاسی مفلسی اور بے خانمائی کا بوجھ بھی بیگم نصرت بھٹو کو ہی اٹھانا پڑا، سرحد اور بلوچستان ایک طرف، گلگت اور بلتستان کا بھی تذکرہ نہیں کر سکے مگر سندھ اور پنجاب کیا جواب دے سکتے ہیں؟ دونوں صوبوں میں قومی سطح کی ایک بھی مجلس تعزیت کا اہتمام نہ کیا گیا۔ لوگ اسے پیپلز پارٹی کی وفات اور میں اسے پیپلز پارٹی کی حیات گردانتا ہوں!
تم جان لو اس عمل سے یہ سب ایکسپوز ہو رہے ہیں، ان میں سے بہت بڑی اکثریت کے اصل چہرے سامنے آ رہے ہیں، عوام کی جرأت کے خلاف ان کے اتحاد کا پتہ چل رہا ہے، ان لوگوں نے اس بار بیگم نصرت بھٹو جیسی مشعل حیات کو بھی بجھانے کی کوشش کی، ان نقاب پوشوں کا یہی عمل پاکستان پیپلز پارٹی کی مکمل بحالی کا سندیسہ ہے جب پارٹی کا نظریاتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا علم آزادی اٹھا کر ان سب کا بوجھ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گا۔
بیگم نصرت بھٹو نطق اور بیداری سے ناراض کومے میں تھیں جب بی بی شہید ہوئیں، ہوسکتا ہے کسی غیبی فنامنے نے انہیں بتایا ہو جس پر بیگم نصرت بھٹو نے ایک بار پھر خود کلامی کی ہو ؎
اندیشوں کے صحرائوں میں، چپ بیٹھے ہوئے لوگوں، اٹھو!
پاکستان کا ہر وہ باشندہ جسے ایک خود مختار، ایک خود ساختہ مذہبی جبریت سے آزاد اور انسانی جان کے محافظ پاکستان کی تمنا ہے، وہ بیگم نصرت بھٹو کو ماضی کا مزار نہیں، حال کا پیغام حیات جانتا ہے!
تازہ ترین