• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بد نصیب چوہے کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جو شراب کے ڈرم میں گر گیا تھا۔ جب بروری کے ملازم نے اسے دم سے پکڑ کر باہر پھینکا تو چوہے کو دنیا بدلی بدلی سی نظر آئی۔اس کے احساسات استاد امامؔ دین سے ملتے جلتے تھے جو میخانے میں اسی قماش کی ایک واردات کا نشانہ بنے تھے۔ استاد گئے تو رندوں کو سمجھانے کے لئے تھے لیکن وہاں پر ہاتھ کچھ ایسا الٹا پڑا کہ شریکوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا:
جناب شیخ میخانے چلے ہیں
بہانہ یہ کہ سمجھانے چلے ہیں
واردات آپ کے ساتھ یہ ہوئی کہ ناصح کا کردار ادا کرتے استادخود بھی مے خواروں کے جھانسے میں آ کر ساغر و مینا سے شغل کر بیٹھے ۔تب آپ نے اپنے جذبات کا اظہاریہ شعر تخلیق فرما کر کیا تھا کہ :
داخل ہوئے تھے استاد معائنے کے واسطے
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
چوہا بھی کچھ دیر بے سدھ پڑے رہنے کے بعد انگڑائی لے کر اٹھا تو اسے طبیعت میں عجیب سی خان بہادری محسوس ہوئی ،جیسے …دل کی دھڑکن تال ہو، جسم دھمال کرے …نشہ شراب کا ہو یا اختیارات کا ، چوہوں کو شیراور خان بہادر بنا دیتا ہے ۔ جنگل میں ایک بھونڈ بندر چھپ کر شیرنی کو چھیڑتا اور بے ہودہ جملے کستا تھا ۔ چونکہ جنگل میں پاکستان پینل کوڈ سیکشن 294کا اطلا ق نہیں ہوتا، جس کے مطابق کوئی بھی کسی کو عوامی جگہ پر یا اکیلے میں تنگ کرے ، جملے کسے یا ہراساں کرے تو اسے قید اور جرمانے کی سزائیں ہو سکتی ہیں ، لہذا ناہنجار بندر اس کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ آخر کار شیر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے ملزم پکڑنے کے لئے دربار لگایا اور اس میں تمام جانوروں کو حاضر ہوکر شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا۔ چوہا مونچھوں کو تائو دیتا اکڑ کر دربار میں جا رہا تھا ۔ بندر نے پوچھا کہ اکڑ کس بات پر رہے ہو؟ چوہا بولا’’ ساڈے تے شک کیتا گیا اے ‘‘۔
ذکر چوہوں کا چھڑا ہے تو آج انہی کی بات چلے گی ، ویسے بھی آج کل انہی کی چلتی ہے ۔ ہمارے نان سائنسی دماغ میں ایک بات راسخ ہو گئی ہے کہ انسانوں اور چوہوں کی ذہنی پرداخت میں کوئی نہ کوئی مماثلت ضرور ہے ۔ جب ہی تو امریکی سائنسدان انسانوں کی صحت ،نفسیات اور رویوں سے متعلق اکثر تجربات چوہوں پر کرتے ہیں ۔ کبھی انہیں اپنی لیبارٹریوں میں نشے کا عادی بناتے ہیں ، کبھی انہیں بھوکا رکھتے ہیں اور کبھی ان میں حجم سے زیادہ ہوا بھر کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں ۔ وہ چوہوں کو اپنی ’’بروری‘‘ کے ڈرموں میں رکھ کر خان بہادر بناتے ہیں اور جب چاہیں انہیں دم سے پکڑ کر باہر پھینک دیتے ہیں ۔ یونیورسٹی آف نیویارک کے ماہرین نفسیات نے ایک جدید تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ میں خوف اور ڈر پید اکرنے والا ’’امیگ ڈالا‘‘ نامی ایک عنصر ہوتا ہے ، جسے ختم کرنے کے لئے ہلدی کا استعمال مفید ہے ۔ ان ماہرین نے یہ تحقیق اپنی تجربہ گاہوں میں چوہوں کو کثیر مقدار میں ہلدی کھلا کر انجام دی ہے ، تاکہ ان کے چوہے بلا خوف و خطر دنیا میں پھیل کر چوہا گردی کر سکیں۔چوہا گری اور چوہا گردی میں امریکیوں کا جواب نہیں ۔ گزشتہ برس نیویارک کی یونیورسٹی آف روچسٹر کے میڈیکل سینٹر کے محققین نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے چوہوں کے دماغ میں انسانی دماغ کے خلیے ڈال کر سُپر چوہے تیار کئے ۔ شاید امریکی چھوٹے سروں اور بڑے پیٹوں والے اپنے شاہ دولے کے چوہوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے ، جب ہی تو انہیں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل سپر چوہے بنانے پڑے ۔ کالج میں ہم نے نفسیات کے نصاب میں پڑھا تھا کہ یورپی سائنسدانوں نے اپنی ایک لیبارٹری میں قید چوہوں کو گھنٹی بجا کر کھانا دینا شروع کیا۔ یہ مشق کئی روز تک جاری رہی ۔ پھر ایک دن کھانا لگائے بغیر گھنٹی بجائی گئی تو چوہے فوراً کھانے کی جگہ پر لپکے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر چوہوں کو عادی بنا دیا جائے تو وہ کسی خاص گھنٹی یا نقارے کی آواز سنتے ہی مخصوص دستر خوان پر لپکتے ہیں کہ ان کے کھانے کا وقت آ پہنچا ہے ، چاہے یہ نقارہ انہیں چکر دینے کے لئے فرضی طور پر بجایا گیا ہو۔ یہ سائنسدان اور محققین کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ کروڑ برسوں میں ڈائنو سار سکڑ کر پرندے بن گئے ہیں لیکن کم بخت یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتے کہ ان کے نت نئے تجربات سے دنیا میں کئی چوہے ڈائنو سار بن گئے جو انسانوں کو کھائے جا رہے ہیں ۔ کیا پچھتاوا ہے کہ دس لاکھ زندگیاں ختم کرکے بارہ سال بعد ٹونی بلیئر عراق جنگ پر معافی مانگ رہے ہیں ۔ جبکہ عراقی عوام ان کی چوہا سازی کے فن کو ابھی تک بھگت رہے ہیں ۔
چوہا گردی کا ایک بڑا مرکز ہمارے پڑوس میں واقع ہے ۔ تازہ خبر ہے کہ نئی دہلی میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے ایک مسلم گھرانے میں چوہے چھوڑ دیئے اور منع کرنے پر مشتعل ہوکر فائرنگ شروع کردی۔ انڈیا کی طرف سے یہ پہلی واردات نہیں ۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے اور پڑوسی ملکوں میں اپنے چوہے چھوڑ کر چوہا گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہے ۔نظر نہ لگے ، اس صنعت میں خود ہماری پروڈکشن کی صلاحیت کو بھی دنیا مانتی ہے ۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے حوالے سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں ہمارے اس ہنر کے شاہکاروں کی سرگرمیاں روکنے کا عزم بھی شامل ہے ۔ ہمارے ہاں چوہا گردی کی ایک اور قسم بھی رائج ہے جس میں چوہے قومی خزانے کو کتر کر کھا جاتے ہیں ۔ یہ ابھی دس سال قبل آنے والے زلزلے کے متاثرین کی بحالی کی لاکھوں ڈالر کی امداد کے ڈکار لے رہے تھے کہ یہ آفت پھر ناز ل ہو گئی ۔ اہل وطن پر قیامت کی گھڑی ہے مگر چوہوں کی رال ٹپک رہی ہے ۔
معاف کیجئے ! اصل قصہ تو درمیان ہی میں رہ گیا ۔تو جناب ! شراب کے ڈرم سے برآمد ہونے والا چوہا خان بہادری ہذا کے زیر اثر مستانہ سی چال چل کر سیدھا بلی کے ٹھکانے پر پہنچا اور سوئی ہوئی بلی کو پائوں سے ٹھوکر مار کر گرجا’’ اٹھ نی نرگسے، گجر تیرا مجرا ویکھن لئی آیا ای ‘‘ …اب یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ جواب میں چوہے کا وہی حشر ہوا جو دوسری جنگ عظیم میں بم کو لات مارنے والے گدھے کاہوا تھا ۔ چوہے جب بھی کسی ڈرم سے بے آبرو ہوکر نکلتے ہیں تو اپنے سے بڑے دشمن اور کبھی تو اپنے موجدین کو بھی اسی طرح للکارتے ہوئے چوہا گردی کی وارداتیں کرتے ہیں ۔ پھر غضب ناک بلیاں جوابی چوہا کشی میں ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہیں۔ نچوڑ یہ ہے کہ دنیا میں چوہا گری کی صنعت بند ہو گی تو ہی چوہا گردی اور چوہا شاہی بھی ختم ہو گی،ورنہ …جاری رکھو اہل مغرب تم بھی اور ہم بھی ۔تم ہمارے غریب خانوں کے دورے کرو ،ہم تمہارے دولت کدوں پر حاضریاں دیتے رہیں گے اور چشم فلک کہتی رہے گی کہ …جناب شیخ میخانے چلے ہیں /بہانہ یہ کہ سمجھانے چلے ہیں ۔
تازہ ترین