• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت العباد ،گورنر بننے سے سبکدوشی تک الزامات ہی الزامات

Ishrat Ul Ibad Blames Prosecution Of Retirement Till Governor
افضل ندیم ڈوگر....چودہ سال تک باوقار انداز میں سندھ کے آئینی عہدے پر ذمہ داریاں نبھانے والے عشرت العباد خان کو گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالتے وقت مخالفین اور اب عہدے سے ہٹاتے وقت ان کے اپنوں کے سنگین الزامات کا سامنا رہا۔

دسمبر 2002 میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سندھ میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونے اور مسلم لیگ ق کے امیدوار علی محمد مہر کو متفقہ وزیراعلیٰ نامزد کرنے کے عوض گورنر سندھ کا عہدہ دیا گیا تھا۔ انہی دنوں متحدہ کی قیادت نے ڈاکٹر عمران فاروق کو پارٹی کنوینر شپ سے ہٹا کر عشرت العباد خان کو متحدہ کا کنوئنر بنایا تھا۔

سندھ میں گورنر کے عہدے کی پیشکش پر 12 دسمبر 2002 کو الطاف حسین کی جانب سے انہیں گورنر سندھ کے عہدے کیلئے نامزد کیا گیا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے گورنر سندھ کیلئے صرف عشرت العباد خان کا نام پیش کیا گیا تھا اور اسی روز وزارت داخلہ نے عشرت العباد خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے بھی خارج کردیا تھا۔

باخبر سیاستدان اور اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات نشریات شیخ رشید احمد نے عشرت العباد کی بطور گورنر نامزدگی کی خبر اسلام آباد میں سب سے پہلے میڈیا کو دے دی تھی لیکن اسی روز کراچی میں اس وقت کے نامزد وزیراعلیٰ علی محمد مہر، ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار اور نسرین جلیل نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران اس نامزدگی کا انکشاف کیا تھا۔

عشرت العباد کو گورنر سندھ بنائے جانے کی اطلاعات پر سب سے پہلا اور شدید ردعمل متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی جانب سے سامنے آیا تھا جنہوں نے لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مفرور اور پولیس کو مطلوب شخص کو گورنر سندھ بنایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے اس عمل کو ایم کیو ایم کا حکومت میں تعاون لینے کیلئے بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ کی بدترین مثال قرار دیا تھا۔

عشرت العباد خان پر الزام کے جواب میں متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے مولانا شاہ احمد نورانی کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی اور اُن پر قاتلوں اور دہشت گردوں کے سرپرست جیسے الزامات عائد کئے۔

دوسرا شدید ردعمل متحدہ مجلس عمل کے مرکزی رہنما منور حسن کی جانب سے سامنے آیا تھا۔ انہوں نے ایک بھر پور پریس کانفرنس میں عشرت العباد خان کو 73 کا دستور نہ ماننے والا قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر عشرت العباد خان نے 13 دسمبر کو غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنا پہلا ردعمل دیا اور وہ اپنے پہلے ہی بیان میں کئے گئے دو اہم اعلانات پر 14 سال تک عمل کرانے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گورنر سندھ بنے تو الطاف حسین کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار کرکے انہیں وطن واپس لائیں گے۔

دوسرا یہ کہ وہ سندھ کے دیہی علاقوں کی ترقی پر بھرپور توجہ دیں گے اور شہروں اور دیہات میں تفریق ختم کردیں گے۔

اور اب جب وہ رخصت ہوچکے ہیں اس وقت الطاف حسین کی وطن واپسی کے راستے بند ہوچکے ہیں اور سندھ کے شہروں اور دیہات کی تفریق بھی بڑھ چکی ہے۔

ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے 18 دسمبر 2002 کو اپنے بیان میں قائداعظم کے یوم پیدائش 25 دسمبر کو عشرت العباد کے بطور گورنر حلف لینے کا پروگرام جاری کیا لیکن اُنہوں نے اس روز حلف نہیں لیا۔

عشرت العباد خان 1992 کو پاکستان سے گئے اور لگ بھگ 20 سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد 22 دسمبر 2002ء کو پارٹی رہنما آفتاب شیخ کے ہمراہ لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ اُنہوں نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا سامنا کرنے سے گریز کیا تھا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر نسرین جلیل، ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت حسین مرحوم نے اُن کا استقبال کیا۔

اُنہیں سرکاری پروٹوکول میں کابینہ ڈویژن کی گاڑی میں ایئرپورٹ سے سندھ ہاؤس پہنچایا گیا تھا۔ آفتاب شیخ کی عشرت العباد کے ساتھ پاکستان آمد کی وجہ سے میڈیا میں آفتاب شیخ کے گورنر بنائے جانے کی افواہیں پھیل گئیں لیکن نسرین جلیل نے تردید کی۔

سندھ ہاؤس میں مذکورہ بالا تینوں پارٹی رہنماؤں نے گورنر انکلوژر میں ملاقات کی۔ اسی انکلوژر میں نسرین جلیل کے علاوہ فاروق ستار اور آفتاب شیخ بھی رہائش پذیر رہے۔

الطاف حسین نے 22 دسمبر کو کراچی میں مہاجر رابطہ کونسل کے کنونشن میں ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنا پہلا ردعمل دیا۔ انہوں نے عشرت العباد کے گورنر بنائے جانے کو خوش آئند قرار دیا اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس تقرری سے مہاجروں کو بھی پاکستان کا شہری سمجھنے کا عمل شروع ہوا۔

ڈاکٹر عشرت العباد خان نے 23 دسمبر کو اسلام آباد میں صدر جنرل پرویز مشرف سے ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات کی جس کے بعد وہ سندھ ہاؤس پہنچے اور میڈیا کے سامنے پہلی بار منظر پر آئے اور نسرین جلیل کے ہمراہ پہلی پریس کانفرنس کی۔ اُنہوں نے گورنر سندھ کا حلف اٹھانے کے پہلے مرحلے میں الطاف حسین سمیت تمام کارکنوں کے خلاف مقدمات پر نظرثانی کرنے کا اعلان کیا جس پر انہوں نے اپنے دور میں بھر پور عمل بھی کیا۔

انہوں نے کراچی میں نوگوایریاز ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا جو مخالف جماعت ایم کیو ایم حقیقی کے مرکزی دفتر بیت الحمزہ کو مسمار کرنے کے عمل سے شروع کیا گیا۔ انہوں نے حالات بہتر ہونے پر الطاف حسین کے پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا جس پر وہ آخری روز تک عمل نہیں کراسکے۔

آباد اینڈ ڈیولپرز کے اس وقت کے چیئرمین حفیظ الرحمٰن بٹ نے عشرت العباد کی تقرری پر متحدہ قیادت کو مبارک باد پیش کی اور ان کے حلف کے روز اخبارات میں مبارک باد کا پہلا اشتہار بھی انہی کی طرف سے شائع ہوا۔

عشرت العباد خان 27 دسمبر 2002 کو خصوصی طیارے سے اسلام آباد سے کراچی آئے۔ ائیرپورٹ پر استقبال کے بعد انہیں جلوس کی شکل میں نائن زیرو لایا گیا تھا جہاں انہوں نے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے والہانہ انداز میں ہاتھ کھڑے کرکے رہنماؤں کے ساتھ وکٹری کا نشان بنایا۔

سن 27 دسمبر 2002ء کو عشرت العباد خان نے بطور گورنر سندھ عہدے کا حلف لیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سیّد سعید اشہد نے اُن سے حلف لیا۔ حلف کے روز مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے ایک بھتہ لینے والے کو گورنر مقرر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سندھ بھر میں احتجاج کا اعلان کیا گیا جبکہ اس تقرری کے خلاف سندھی یونٹی کمیٹی کی جانب سے سندھ میں یوم احتجاج منایا گیا اور تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے و سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔

قادر مگسی نے انہیں لسانی تنظیم کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک وکیل سہیل حمید کی جانب سے عشرت العباد خان کی بطور گورنر تقرری کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا۔

ڈاکٹر عشرت العباد خان نے گورنر کے طور پر پہلا آرڈیننس جبری چندے اور بھتے کی پابندی کا جاری کیا جس کے تحت ایسا کرنے والوں کو عدالتی کارروائی کے بغیر 3 ماہ قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا لیکن ان کے دور میں سب سے زائد فروغ اسی جرم کا ہوا۔
تازہ ترین