• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کی جو سیاسی صورت حال ہے ، وہ ملک کی حقیقی ہئیت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) کےلیے مثالی ہے ۔ یہ وہی صورت حال ہے ، جس کا 1947 ء میں اس ہئیت مقتدرہ نے خواب دیکھا تھا ۔لگتا ہے کہ اب اس خواب کو تعبیر مل چکی ہے ۔ مختلف نجی اداروں اور این جی اوز کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ سرویز (Surveys) کے مطابق عوامی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف پہلے اور دوسرے نمبر کی سیاسی جماعتیں ہیں ۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی مقبولیت میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اور ان کے قائدین مقبولیت کی فہرست میں بہت نیچے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ایسی سیاسی جماعتیں ہیں ، جن کا پاکستان کی کسی سیاسی ، جمہوری ، طبقاتی ، قومی حقوق ، اقلیتی اور کمزور گروہوں کے حقوق کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان تحریکوں میں ہونے والی جدوجہد میں ان کا کوئی حصہ ہے ۔ اگر یہ سرویز درست ہیں تو ان دونوں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر لوگ مزاحمتی تحریکوں سے لا تعلق ہو چکے ہیں اور ان لوگوں کی سیاسی اپچ ( اپروچ ) ایسی ہو گئی ہے یا بنا دی گئی ہے ، جو ہیئت مقتدرہ کے لیے مثالی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے ان سے یہ توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ وہ اس دہشت گردی کو ختم کر دیں گے ، جس دہشت گردی پر ریاست نے گذشتہ تین عشروں سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔ پاکستان کو یہاں تک لانے کے لیے 60 سال سے زیادہ عرصہ لگا ۔ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہیں ۔ اس بحث میں بھی نہیں الجھتے کہ پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے کی دعوے دار سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت میں کمی کے اسباب کیا ہیں ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک نئی مملکت خداداد پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے پہلے دن سے ہی اس سیاسی عمل کو روکنے کی کوشش کی ، جو عوامی اور قومی جمہوری خصوصیات کا حامل ہو ۔ اس کے لیے سب سے پہلے پاکستان کی خالق سیاسی جماعت مسلم لیگ کو ختم کیا گیا ۔ پاکستان میں آئین نہیں بننے دیا گیا کیونکہ آئین ملک کو سیاسی اور جمہوری طریقے سے چلانے کا پابند بناتا ہے ۔ پاکستان کو امریکی کیمپ میں دھکیل دیا گیا کیونکہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے عوام کو حکمرانی اور وسائل پر کنٹرول کا حق نہ دیا جائے ۔ اس مقصد نے اسے مغربی سامراج کا قدرتی اتحادی اور کاسہ لیس بنا دیا ۔ پاکستان کو سیٹو ( Seato ) اور سینٹو ( Cento ) جیسے سامراجی ممالک کے فوجی اتحادوں کا رکن بنایا گیا اور اس خطے میں سامراجی مفادات کے کھیل میں پاکستان کو اس قدر ملوث کر دیا گیا کہ پاکستان آج تک ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا ہوا ہے ۔ حقیقی سیاسی قوتوں کو کچلنے کے لیے ایبڈو اور پراڈو کے سیاہ قوانین کے ذریعہ سیاسی انتقام کو رواج دیا گیا ۔ ہر مزاحمتی تحریک کو طاقت کے ذریعہ کچلا گیا ۔ ملک کو طویل عرصے تک براہ راست فوجی حکمرانی کے تحت چلایا گیا ۔ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا تاکہ لوگوں کی تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی سیاسی حقوق کی نفی کی جا سکے ۔ مصنوعی اور ہیئت مقتدرہ کے بیانیہ پر چلنے والی سیاسی قیادت پیدا کی گئی لیکن 1970ء کے انتخابات ہیئت مقتدرہ کے ’’ سیاسی منصوبوں ‘‘ کو عبرتناک شکست ہوئی ۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران ہی حقیقی سیاسی عمل کو روکنے کے لیے ریاستی طاقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ۔ بس یہیں سے صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوئی ۔ضیاء الحق کی آمریت کے بعد سیاسی حکومتیں پہلے دہشت گردی کی وجہ سے غیر مستحکم ہوتی تھیں اور اس کے بعد انہیں آئین کے بدنام زمانہ آرٹیکل ۔ 58 (2 ) بی کے تحت برطرف کر دیا جاتا تھا ۔ سیاسی حکومتوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کی ایک محتاط کوشش کی ، جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ اس کے بعد سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتیں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف مؤثر محاذ بنانے میں ناکام رہیں بلکہ انہوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے کے باوجود دہشت گردی کے مقابلے میں دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی بنتا چلاگیا اور یہ جماعتیں اس مسئلے سے لاتعلق ہوتی چلی گئیں ۔ اس کی وجہ سے ان کی عوام میں مغائرت ( Irrelevance ) بڑھتی گئی ۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی حکومتوں میں آ کر نہ صرف عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکیں بلکہ ان جماعتوں کے بعض لوگوں پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں ۔ دیگر ترقی پسند گروہوں اور روشن خیال طبقہ ( Intelligentsia ) کو این جی اوازم نے ہڑپ کر لیا ہے ۔ چھوٹی قوموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی قوم پرست جماعتوں کا اپنے لوگوں کی قومی جمہوری جدوجہد سے کبھی تال میل نہیں بن سکا ہے اور ان کی سمت ہمیشہ غلط رہی ہے ۔ اب ایسی کوئی سیاسی قوت نہیں ہے ، جو پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کی پریشانی کا باعث بن سکے ۔ امریکا اور یورپی ممالک میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی جماعتیں بھی موجود ہیں ۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی مقابلے میں ہے ۔ برطانیہ میں کنزرویٹو(ٹوری ) پارٹی کے مقابلے میں لیبر پارٹی ہے ۔ پاکستان میں پہلے اور دوسرے نمبر پر جو سیاسی جماعتیں ہیں ، ان میں ایک ری پبلکن اور دوسری کنزرویٹو ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں دہشت گردی ہے۔طالبان اور دیگر فرقہ وارانہ لسانی دہشت گرد گروہ ابھی تک ختم نہیں ہوئے ۔ داعش نامی ایک اور دہشت گروہ اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔ سرویز کے مطابق پاکستان کی دونوں بڑی مقبول سیاسی جماعتوں کی یہ پالیسی ہی نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑا جائے ۔ دیگر ترقی پسند اور روشن خیال گروہ لڑائی کے قابل ہی نہیں رہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج پر مکمل انحصار کر لیا گیا ہے ۔ یہ صورت حال پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے مثالی ہو سکتی ہے لیکن یہ ملک اور قوم کے لیے مثالی نہیں ہے کیونکہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ نئی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں اور نئے بلاکس بھی بن رہے ہیں ۔ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اور اس کی فطری اتحادی مغربی سامراجیت بے شمار داخلی تضادات کا شکار ہیں ۔ جلد اندازہ ہو جائے گا کہ حقیقی سیاسی عمل کو روکنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں ۔ موجودہ سیاسی اور ریاستی ڈھانچہ اس انارکی کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتا ، جس کا نئی عالمی صف بندیوں کے مکمل ہونے تک پاکستان جیسے ملکوں کو سامنا کرنا پڑے گا ۔
تازہ ترین