• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر ِ اعظم نوازشریف نے حال ہی میں ریٹائرہونے والے لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر(این ایس اے) مقرر کیا ہے۔ جس دوران یہ موضوع زیر ِ بحث تھا کہ کیایہ تعیناتی این ایس اے آفس کو بامقصد بنادے گی یا سول ملٹری اختیارات کے توازن کے ایک طرف جھکے ہوئے پلڑے کو مزیدجھکا دے گی ،پاکستان کو ایک اور بہت زیادہ شدت کے زلزلے نے ہلاکر رکھ دیا۔ اس میں اب تک دوسوپچاس قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اگرچہ ہماری فوج نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں کا صفایا کررہی ہے لیکن زلزلے سے آنے والی تباہی کو دیکھتے ہوئے امدادی کارروائیاں کرنا یقینا پہلی ترجیح تھی، اس لئے آرمی چیف نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ۔
قدرتی آفات اور ان سے نمٹنے کے لئے ریاست کا رد ِعمل کسی بھی نظام کی ترجیحات کو ظاہر کرتاہے۔ چاہے زلزلہ ہو یا سیلاب ، گرمی کی لہر ہو یامسلسل بارشیں یا غذائی قلت، حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت سے لاپروادکھائی دیتی ہے۔ سوموار کو آنے والے زلزلے میں ریاست کا کچھ بھرم صرف اس لئے رہ گیا کہ اس کی شدت زیادہ ہونے کے باوجود نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ اگر اس زلزلے میں بھی اتنا ہی نقصان ہوتا جتنا 2005 میں برداشت کرنا پڑا تھا تو آج ہماری ریاست کا رد ِعمل بھی اتناہی افسوس ناک دکھائی دیتاجتنا دس سال پہلے تھا۔ تحریک ِطالبان پاکستان، بلوچ علیحدگی پسند، عدم استحکام کا شکار افغانستان یا جارحیت پر آمادہ انڈیا غالباََاس پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہیںگے جس میں وزیر ِ اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی تیسری نسل پروان چڑھے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں رہےگا۔ درحقیقت اُس وقت خطرہ اتنا مہیب ہوگاکہ انتہائی طاقت ور اور منظم فوج بھی اس کی طر ف سے لاحق سلامتی کے خطرے کا تدارک نہیں کرسکے گی، ا ور وہ خطرہ جو2050 ء میں ہماری طاقت ور اشرافیہ کے دولت مند بچوں کے پاکستان کے سامنے ایک ڈرائونے خواب کی طرح کھڑ اہوگا، وہ آبی قحط، بے انتہا آبادی، بے روزگاری، غربت اور جرائم اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک عدم برداشت ، جہالت اور انتہا پسندی کی صورت سراٹھائے گا۔ اس خطرے کو نہ ٹینکوں سے ڈرایا جاسکے گا اور نہ جوہری ہتھیاروں سے۔
جولائی میں یواین کی طرف سے جاری کردہ ’’ World Population Prospects 2015 ‘‘کے مطابق2050ء میں پاکستان کی آبادی تین سوملین سے تجاوز کرجائے گی۔ 2000 ء سے لے کر 2010ء کے درمیان8.7 ملین شہریوںکے اضافے کے ساتھ کراچی نے ایک عشرے کے دوران آبادی میں تیزرفتار شرح نمو کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔ جب آج 190 ملین نفوس کی کفالت کرنی مشکل ہورہی ہے تو صرف پینتیس سال بعد 110 ملین مزید افراد کی خوراک اور رہائش کے لئے وسائل کہاںسے آئیںگے؟آج اپنے شہروں میں ہجوم، افراتفری اور پلاننگ کا فقدان دیکھیں اور تصور کریں کہ 2050 میں کس قیامت کاعالم ہوگا۔
بہت سے دیگر چیلنجز کا تعلق بھی ہوشربا حد تک بڑھتی ہوئی آبادی سے ہے۔ اس سے پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو 2035 ء میں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا ، لیکن آبادی میں بے تحاشا اضافے اور غفلت کے باعث اب 2025ء میں ہی آبی قحط کے آثار ہویدا دکھائی دیتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے پانی کی طلب اور رسد میں فرق آنا لازمی تھا ، لیکن کیا ہم سرکاری فائلز کے علاوہ عملی طور پر پانی کی کمی دور کرنے کے لئے کام کررہے ہیں؟نہیں۔ کیا ہم پانی کی بچت کرنے یا رین واٹر ہاروسٹنگ کے منصوبے بنارہے ہیں؟نہیں۔تو کیا ہم فی کس پانی کا کم سے کم استعمال کرنے کے لئے اپنی اور اپنے بچوں کی عادات تبدیل کررہے ہیں؟نہیں۔ یادرہے، ہم دنیا میں سب سے زیادہ فی کس پانی استعمال کرنے والی قوم ہیں۔
’’Fund for Peace 'Fragile States Index 2015‘‘ کے مطابق دنیا کے نازک حالات کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان کا تیرواں نمبر ہے۔اس کے مستقبل کوموسمیاتی تبدیلیوںسے سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے۔سیلاب ، خشک سالی، انتہائی درجہ حرارت اور پانی کی کمی اس ملک، جو آج بمشکل خوراک میںخود کفیل، کی برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی آباد ی کے لئے خوراک کی کمی کے علاوہ بہت سے دیگر مسائل پیدا کردیں گے۔ اگر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم آج 190 ملین افراد کی بمشکل غذائی کفالت کرپارہے ہیں تو پینتیس سال بعد ، جبکہ فطرت اور ریاست، دونوں کی ترجیحات عوام دوست نہیں،تین سوملین کی خوراک کا بندوبست کون کرے گا؟درحقیقت ریاست کی غفلت کی وجہ سے ہی فطرت کی طاقتیں آمادہ ٔستم ہیں۔ پاکستان میں آبادی کا ارتکاز شہروں کی طرف ہے لیکن ہرطرف بڑھتے ہوئے شہروں میں پلاننگ نامی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر اگر ہم اسلام آباد ، جو کسی منصوبے کے تحت بنا ہوا ہمارا واحد شہر ہے ، میں بھی سیف بلڈنگ کوڈ نافذنہیں کرسکتے تو ہم دیگر شہروں میں ہونے والی آباد کاری کو کسی قاعدے کے تحت کس طرح یقینی بناسکتے ہیں؟ 2005 ء کے زلزلے میں مارگلہ ٹاور کے گرنے اور 2015ء میں کراچی میں گرمی کی لہر سے ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ دار فطرت نہیں، ریاست کی مجرمانہ غفلت ہے۔
اب چاہے قدرتی آفات ہوں یا ریاست کی کوتاہی، اس سے حتمی نقصان شہریوں کا ہی ہوتا ہے ۔ معاشرے کے غریب اورپہلے سے ہی وسائل سے محروم افراد زیادہ شدت سے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست شہریوں کو حفاظتی چھتری فراہم نہیں کرتی۔ہر قدرتی آفت کے بعد ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی انسانی ہمدردی اور فیاضی متاثرہ افراد کا بوجھ بانٹ لیتی ہے، لیکن جب قدرتی آفات اور انسانی حماقتوں کے نتیجے میں آنے والی تباہی میں تسلسل آجائے گا اور آبادی میں اضافے کے ساتھ امیر اور غریب کا فرق بھی بڑھ جائے گا توہنگامی بنیادوں پر دکھائی جانے والی ہمدردی اور انسان دوستی کام نہیں دے گی۔جس نہج پر ہمارا معاشرہ ڈھل رہا ہے، اس میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھے گا کیونکہ حکومت نے ان دونوں طبقوں میں کوئی درمیانی راستہ، جیسا کہ بہتر تعلیم اور روزگار ، نہیں چھوڑا۔ تعلیمی شعبے کی حالت ِ زار اپنی جگہ پر، اس وقت پچیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے تو دوسری طرف حکومت بھی پبلک اسکولوں کا معیار بہتر بناتے ہوئے سب شہریوں کو مساوی مواقع فراہم نہیں کرتی۔ اس کی زیادہ سے زیادہ فعالیت نجی اسکولوں کی فیسوں کا خود تعین کرتے ہوئے انہیں ’’نیم سرکاری‘‘ بنانا ہے۔ شہروں کی پلاننگ کرنے کی بجائے ہم ان اسکولوں کو ’’معاشرے پر بوجھ‘‘ سمجھتے ہوئے انہیں رہائشی علاقوں سے باہر نکال پھینکنے پر کمر بستہ ہیں۔
جہاں تک روزگار کا تعلق ہے، مختلف حکومتوں نے ریاست کوایک روزگار فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر دیکھا ہے، حالانکہ اس کا کام بہتر پالیسیوں کے ذریعے نجی شعبے کو تقویت فراہم کرکے معیشت کے حجم میں اضافہ کرنا ہے تاکہ عوام کونجی شعبے میں روزگار میسر آسکے۔ چنانچہ کیا ہم ان پڑھ اورغیر ہنرمند افراد پر مشتمل آبادی کے ایک بڑے حصے، ایسے نصاب ِ تعلیم جو تنگ نظری اور عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے، کے ذریعے بظاہر تعلیم یافتہ افراد اورسماجی ترقی کے ناپیدمواقع کے ساتھ پاکستان میں تشدد اور جنونیت کے بیج نہیں بورہے؟ کیا 2050 ء میں بھوکے، ان پڑھ اور بے روزگارپاکستانی نہایت صبر شکر کرتے ہوئے اپنے کچے مکانوں میں فطرت اور ریاست کے رحم و کرم پر بیٹھ کر دولت مند افراد کو زندگی کے مزے لوٹتے دیکھتے رہیںگے؟ہر گز نہیں، تو پھر اشرافیہ اپنی دیواریں کتنی بلند کرلے گی یا کتنے سیکورٹی گارڈ ز کا حصار اپنے گرد بنالے گی تاکہ اپنے بچوں کو ارد گرد ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نفرت اور غیض و غضب کے سیلاب سے محفوظ رکھ سکے؟
اپنی قومی سلامتی کے حقیقی تقاضوں،جیسا کہ سماجی فلاح، انفراسٹرکچر کی تعمیر، وسائل کا درست اور منصفانہ استعمال، سے غفلت برتتے ہوئے ہم شاید پاکستان کو ایک ایسی سمت میںلے جارہے ہیں جہاں آنے والے چند ایک عشروں میں شہریوں کے لئے زندگی گزارنا ناقابل ِ برداشت ہوجائے گا، اور اُس وقت ہماری نسلوں کو ہماری حماقتوں کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اگر ہم بطور ایک ملک اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دانائی کاتقاضا ہے کہ ہماری نگاہ کل پر نہیں،2050ء اور اس کے دشوار تقاضوں پر ہو۔ اگر وزیر ِ اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف اپنی آنے والی نسلوں کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ فیصلے کررہے ہیں تو اُنہیں میری بات سے اتفاق ہوگا کہ ہمیں ’’این ایس اے‘‘ کے متبادل کی ضرورت ہے۔ اس کی تقرری طاقت کے مختلف دھڑوں کے درمیان امن قائم کرنا نہیں بلکہ کل کے لئے سوچنا ہو اور اس کے سامنے چیلنج یہ ہوکہ ہم نے اپنے بچوں کے لئے کس طرح کا پاکستان چھوڑ کر جانا ہے۔ آپ اسے ’’گاڈ فادر این ایس اے‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
تازہ ترین