• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رواں ہفتے آنے والا زلزلہ ملکی تاریخ کاہولناک تر ین زلزلہ تھا ۔ا س زلزلے نے اکتو بر 2005 ء کوآنے والے زلزلے کے زخم تازہ کر دیئے ۔گو یہ زلزلہ 10بر س قبل آنے والے زلزلے سے زیادہ شدت کا حامل تھا۔ تاہم اس بار اللہ کے فضل و کرم سے اس قدرجانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ جتنا 2005 میں ہوا تھا۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں کم و بیش 75000افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ زخمی اور گمشدہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔گرچہ پیر کے روز آنے والا زلزلہ ریکٹر اسکیل پر 8.1شدت کا حامل تھا تاہم وسیع پیمانے پر تباہی نہ ہونے کی وجہ سائنسی طور پر یہ بیان کی جا رہی ہے کہ زلزلے کا مرکز زمین کے اندر 193 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ جبکہ 2005ء کا زلزلہ اس لئے زیادہ تباہی کا باعث بنا کہ اس کا مرکز زمین کی سطح سے محض 15 کلومیٹر گہراتھا۔ اس سائنسی نقطہ نظر سے ہٹ کر حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے جس نے ہمیں وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھا۔
سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس زلزلےمیں 228قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،1600سے زائد افراد زخمی اور 2500 سے زائد مکانات متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں ہوا ہے۔ گلگت بلتستان بھی اس زلزلے کی زد میں آیا۔ عام طور پر ہمارے ہاں ادارے ہنگامی حالات میں بھی سست روی کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم اس زلزلے کے بعد متعلقہ حکومتی ادارے فوری طور پرمتحرک ہو گئے اور بلاتاخیر ریسکیو اور ریلیف کا کام شروع ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف بیرون ملک دورے پر تھے۔ انہوں نے متاثرین کی فوری دادرسی کے حوالے سے احکامات جاری کئے اور دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی فوجی جوانوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ کسی باضابطہ حکم یا ہدایت کا انتظار کئے بنا آگے بڑھیںاور ریسکیوکے کاموں میں بڑھ کر چڑھ کر حصہ لیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس مشکل سے نمٹنے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور تمام سول ملٹری ادارے مل جل کر کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین یکجہتی کی فضا قائم ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہمیںزلزلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ اس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ خیبر پختونخوا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی حریف سیاسی جماعت تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ وزیر اعظم نے نہ صرف خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ہے بلکہ متاثرین کے لئے امدادی پیکج کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ امدادی پیکج ہے۔ جس میں 50 فیصد حصہ وفاق ادا کرے گا۔ جبکہ 50فیصد صوبائی حکومت ادا کرئے گی۔
امدادی پیکج کے مطابق ہلاک ہونے والوں کو 6،6 لاکھ روپے، زخمیوں کے لئے ایک ایک لاکھ جبکہ معذور ہونے والوں کے لئے دو ، دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ گھروں کی تعمیر کے لئے بھی زر تلافی دی جائے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے خیبر پختونخوا کا دورہ کیا تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نے متاثرین کی امداد کے لئےکئے جانے والے اقدامات پر وزیراعلیٰ اور اُن کی حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی۔ ہمارے ہاں سیاست میں تلخی اور انتشار کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مل جل کر کام کرنا خوش آئند امر ہے۔ وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے،افواج پاکستان اور دیگر اداروں کو بھی شاباش دی جنہوں نے بر وقت اقدامات کو یقینی بنایا۔
قدرتی آفات کا ایک اہم پہلو غیر ملکی امداد بھی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو ایسی آفات سے نمٹنے اور متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں 2005 ء کےزلزلے میں اس قدر تباہی آئی تھی کہ امداد کے بنا حکومت ِ پاکستان اس ناگہانی آفت کی انتظام کاری سے قاصر تھی۔ تباہی کے حجم کے تناظر میںبیرونی ممالک سے کروڑوں ڈالر امداد ملی۔تاہم ان عطیات میں ہونے والی خوردبُرد اور بدعنوانیوں نے نہ صرف متاثرین کی آبادکاری کا عمل بُری طرح متاثر کیا بلکہ ملکی اعتبار اور ساکھ کو بھی شدید ٹھیس پہنچی۔حالیہ زلزلے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے عندیہ دیا کہ حکومت ِ پاکستان اگر درخواست کرے تو اقوام متحدہ امداد کے لئے تیار ہے۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہم عوام کی ضروریات کو اپنے وسائل سے پورا کریں گے اور فی الحال کسی غیر ملکی امداد کی ضرورت نہیں۔ قومی وقار اور خودداری کے تناظر میں وزیراعظم کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔
بلاشبہ قدرتی آفات قدرت کی جانب سے قوموں کی آزمائش ہوتی ہیں۔ان ناگہانی آفات اور حادثات کو روکا نہیں جاسکتا۔ تاہم یہ امربھی حقیقت ہے کہ بر وقت اقدامات ، سے ان کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے یا کم از کم انکی شدت ضرور کم کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک زلزلے کا تعلق ہے تو ان کی قبل از وقت پیش گوئی ممکن نہیں۔ترقی یافتہ ممالک بھی کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں کرسکے ۔تاہم عمارات کی تعمیر خاص طریقوں سے کر کے زلزلوں کے نقصانات اور تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے جاپان کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں بکثرت زلزلے آتے ہیں۔ مگر جاپان میں عمارات اس طرح تعمیر کی جاتی ہیں کہ وہ زلزلے کے جھٹکے برداشت کرسکیں اور عمارات زمین بوس نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں آنے والے زلزلوں سے بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں حالیہ زلزلے کے بعد میڈیا نے ایرا اور این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بتایا کہ ادارے گزشتہ کئی برسوں سے سست روی کا شکار ہیں اور متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہیں ۔ میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ اکتوبر 2005 ء کے زلزلہ متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کا عمل دس سال گزرنے کے باوجودمکمل نہیں کیا جاسکا۔ متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو اس حوالے سے بجا طور پر قصور وار ٹھہرانا چاہیے اور اس غفلت پر ان کی کڑی گرفت بھی کرنی چاہئے۔ تاہم اس پر بھی غور ہوناچاہئے کہ خود میڈیا گزشہ دس سال میں متاثرین کی داد رسی کروانے اوراداروں کی کارکردگی کا محاسبہ کرنے میں کس حد تک فعال رہا؟ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا نے بھی چند ماہ کی کوریج کے بعد اس معاملے پر توجہ دینا ضروری نہ سمجھا اور اب دس سال بعد اداروں کی کارکردگی کا محاسبہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا کا فرض ہے کہ اب اس کوتاہی کی تلافی کرے اور متاثرین کی مکمل بحالی اور آبادکاری تک اداروں اور حکومتوں پر کڑی نگاہ رکھے۔
اس زلزلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں وسیع پیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بچا لیا۔ دوسری جانب اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کے لئے دُعا کرنی چاہئے اور ان کی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس زلزلے کو قدرت کی جانب سے تنبیہ گردانتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح احوال کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آفات سے محفوظ رکھے اور ہم پر رحم فرمائے (آمین)
تازہ ترین