• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔نظام کو سدھارنے کے لئے حکومتی نااہلی ، غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی اس ابدتری کی بنیادی وجوہات ہیں۔لیکن یہ بہت تکلیف دہ اور تشویشناک بات ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ میں بھی کرپشن اور بدعنوانی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ غلط کو درست تصور کرنے لگاہے۔اس کی بنیادی وجوہات کی موافقت اور مخالفت میں کئی دلائل پیش کئے جا سکتے ہیںلیکن بہر صورت یہ تسلیم شدہ ہے کہ معاشرے کی مکمل تباہی کا آغاز یہیںسے ہوتا ہے جب نظام کی تبدیلی پر یقین رکھنے والا نوجوان بدعنوانی کو جائز تصور کرنے لگا اور اس کے ذہن میں اس کے حق میں دلائل موجود ہیں۔کبھی وقت تھا کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔اورمعاشرے میں برائی کے خاتمے کے لئے پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس میں شامل ہونے کو ترجیح دیتا تھا کیونکہ یہی وہ راستہ تھا جس کے ذریعے اختیارات کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا براہ راست موقع میسر آتا تھا۔عمومی طور پر سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والے نوجوانوں کی ترجیحات کی درجہ بندی میں پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس کو اولیت حاصل ہوتی تھی۔جس کے پس منظر میں خدمت اور اصلاح کا جذبہ ہوتا تھا ۔ وقت بدلتا گیا اور خدمت اور اصلاح معاشرے کے جذبے کی جگہ کرپشن اور بدعنوانی نے لے لی۔پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس میں شمولیت کی درجہ بندی تو وہی رہی مگر مقصد اور جذبہ تبدیل ہو گیا اور کرپشن اور بدعنوانی مطمع نظر بن گیا۔برائی دولت کمانے کا نظریہ بن گیا اور جائز اور ناجائز کی تمیز ختم ہو تی چلی گئی۔پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس میں ایمانداری پر ایمان رکھنے والے کنارہ کش ہوتے چلے گئے اور کرپٹ آفیسر سیاسی اثرو رسوخ کے ذریعے نظام پر حاوی ہوتے گئے۔گئے وقتوں میں پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ کا کوئی افسر آہستہ آہستہ کرپشن کے طرف راغب ہوتا تھا لیکن اب اے ایس پی اور اے سی کی سطح پر ہی معاشی اور اخلاقی بدعنوانیوں کا آغاز کر دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل آف پولیس بلوچستان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت داخلہ کو لکھے جانے والے ایک خط میں بلوچستان کے ایک ضلع کے 19ویں گریڈ (ایس ایس پی) کے پی ایس پی آفیسر کو کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے Stinking Officerلکھا گیا ہے۔بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں متنازعہ کردار کا مظاہرہ کرنے والے اس پولیس آفیسر کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ہمسایہ ملک سے پٹرول کی اسمگلنگ کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ رشوت وصول کرتا تھا۔شائد رشوت کی یہ دولت امریکہ اور برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اس آفیسر کی عزت بحال کرنے کے کام نہ آسکے۔یہ وہ لوگ ہیں جنھیں معاشرے میں اعلیٰ مقا م حاصل ہے اور احتساب اور انصاف کے لیے بے پناہ اختیارات دیئے گئے ۔یہ لوگ امن اور اصلاح کے امین تصور کئے جاتے ہیں۔ معتبر ، محتسب اور منصف سمجھے جاتے ہیںلیکن جو خود صالح نہیں وہ معاشرے کی اصلاح کیا کریں گے۔لالچ اور طمع کے سنگین مرض میں مبتلایہ آفیسر جیسے جیسے ریٹائرمنٹ کے قریب جاتے ہیں، ان کی دولت سمیٹنے کی حرص میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔شائد انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ مرتے ہوئے مال وزر ساتھ لے کر جائیں گے۔ان کی عقل پر قفل لگ چکے ہیں۔وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی۔مہذب اور زندہ قوموں میں ایمانداری اور انصاف ان کے مذہب کا نہیں بلکہ نظام کا حصہ ہیں جو مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔لیکن یہی عناصر ہمارے ایمان اور مذہب کا حصہ ہیںاور کمزور بنیادوں پر قائم ہے۔ایمانداری مہذب قوموں کی ضرورت ہے اور ہمارا عقیدہ لیکن فرقوں میں بٹی ہوئی ہماری قوم اپنی تطہیر کی بھی اہل نہیں۔یہ درست نہیں کہ قوموں کی اصلاح ممکن نہیں۔تاریخ ایسے انقلابوں سے بھری پڑی ہے جس کے نتیجے میں نسلوں سے بگڑی ہوئی قومیں بھی راہ راست پر آگئیں لیکن حکومتوں کی سنجیدہ کوششوں سے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے جو اب تک نہیں دکھائی دیا۔پاکستان میں بھی ادارہ سازی کے حوالے سے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو کرپشن فری تصور کے تحت تعمیر کی گئیں۔موٹروے اور اسلام آباد ٹریفک پولیس اس کی زندہ مثالیں ہیں۔جبکہ خیبر پختونخواہ پولیس تعمیر نو کے مراحل میں ہے اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کے پی کے پولیس کرپشن فری ادارہ بن کر ابھرے گی۔
تازہ ترین