• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی ماہ پہلے مائیکل مور ( امریکی فلم ساز)اسے درست سمجھے تھے ۔۔۔’’یہ جاہل، گھٹیا، خطرناک، جز وقتی مسخرہ اور کل وقتی غیر مہذب شخص ہمارا اگلا صدر بننے جارہا ہے ۔‘‘ انھوںنے ساتھی امریکیوں کو مشورہ دیا کہ وہ دنیا سے کٹ کر رہنے کا خیال ترک کردیں اور سچائی کا سامناکریں۔ سچائی کیا ہے ؟
آج یہ سچائی کرچی کرچی ہوکر بکھر چکی ہے ۔ ہیلری کی ’’غیر مقبولیت ‘‘ عیاں ہوچکی، اُن پر اعتماد نہیں کیا گیا، خواتین کی اکثریت نے بھی نہیں۔ برنی سینڈرس کے مایوس لبرل ووٹر بھی الیکشن کے موقع پر گھر سے نکل کر ہیلری کو ووٹ ڈالنے نہ آسکے۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے اہمیت کی حامل اپرمڈ ویسٹ کی ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی NAFTA کی حمایت کی پالیسیوں کی وجہ سے محنت کش طبقے میں اشتعال پایاجاتا تھا۔ اُن میں سے کئی ہزار اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے تھے ۔تاہم حتمی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ یہ معروضات ایک اہم عامل ،’’خوف‘‘ میںڈھل گئے۔ یہ خو ف اکثریت، پروٹسٹنٹ، سفیدفاموں کے "Feminazi"، سیاہ فام اور بیرونی دنیا سے آئے ہوئے اجنبیوںسے تھا۔خطرہ یہ محسوس کیا جارہا تھاکہ ان تمام عناصرکا امریکہ پر قبضہ دوسوچالیس سالہ آزادی کا دور ختم کردے گا۔
اعدادوشمار ان خدشات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ڈیموگرافک تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ 2042ء تک امریکہ سفید فاموں کی اکثریت رکھنے والا ملک نہیں ہوگا۔ کنزرویٹو رپبلکن، خاص طور پر امریکہ میں ایک اقلیت بن جائیںگے ۔ نسلی اور گروہی بنیادوں پر ہونے والی اس تیز رفتار تبدیلی کی وجہ ہجرت کی پالیسیاں اور شرح پیدائش میں کمی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں کم ہوتی ہوئی مذہبی اور ثقافتی اقدار ہیںجن کی وجہ سے سفید فام امریکی خود کو امریکہ میں اجنبی محسوس کرنا شروع کردیں گے۔ ہجرت کے نتیجے میں سراٹھانے والا شناخت کا بحران سیاسی شناخت کے بحران میں تبدیل ہوکر ’’امریکہ بمقابل دیگر‘‘ کی کشمکش کو جنم دے چکا ہے ۔ شناخت کا یہ بحران کم تعلیم یافتہ ، محنت کش سفید فام پروٹسٹنٹ آبادی میں زیادہ نمایاں ہے ۔ ان کی کمزور مالی حالت نے ان کے دل میں غصے اور خوف کے جذبات ابھارے اور اُنہیں سفید فاموں کی سماجی برتری کا بیانیہ آگے بڑھانے پر مجبور کیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشی اور ثقافتی گلوبلائزیشن ،کثریت شناختی اور سیاسی درستی کے تصورات نے موجودہ دور میں آزاد دنیا اور آزاد مارکیٹ کے لیڈر ، امریکہ،کے دل میں خوف پیدا کردیا ہے ۔ ہجرت، مہاجر، ملازمت ، بیرونی ذرائع، برین ڈرین ، وغیرہ اسی گلوبلائزیشن کا اظہار ہیںجس کی وجہ سے مختلف شناختیں اور معروضات سامنے آئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سفید فام مسیحی معاشرے کے دل میں اس ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف کا عملی اظہار ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ میں تبدیلی کی بنیاد بہتری کی امید پر نہیںہے ۔ بہتر سے مراد ثقافتی طور پر لبرل اور عالمی سطح پر زیادہ ہم آہنگی پید اکرنا نہیں بلکہ اس کے برعکس ، اس کے پیچھے ا س خوف کی کارفرمائی ہے کہ امریکہ میں آنے والی تبدیلیاں قابل ِ قبول ہوں گی کیونکہ وہ امریکہ مخالف ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس خوف کی وجہ سے مزید خوف کی لہریں پیدا ہوئیںاور یورپ میں قوم پرست، شدت پسندانہ نظریات رکھنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے موقف کو پذیرائی ملنے لگی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تبدیلیاں نمایاں ہورہی تھیں تو ہونے والے پول اسٹارز انہیں بھانپنے میں کیوں ناکام رہے ؟اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے زیادہ تر ووٹرز اُن کی کھلی حمایت کرکے سیاسی طور پر غلطی کا ارتکاب کرنے والوں میں شمار ہوناپسند نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ اُنھوںنے اپنی انتخابی چوائس کی بابت دروغ گوئی سے کام لیا۔ اُنھوںنے ووٹ ٹرمپ کو ہی دینا تھا لیکن وہ اس کا اعتراف کرنے سے گریزاں رہے ۔ اب تک ہونے والے امریکی انتخابات میں سے کوئی بھی اتنے فیصلہ کن جذبات اور سیاسی تصادم کے ماحول میں نہیں ہواتھا۔
تو اس کے بعد کیا ہوگا ؟ ٹرمپ نے فوراً ہی امریکیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ بھی اُن کے ویسے ہی صدر ثابت ہوںگے جیسے ہیلری کلنٹن نے ہونا تھا۔ ہیلری نے اپنے حامیوں پر زور دیا تھاکہ وہ سیاسی طور پر درست فیصلہ کریں۔تاہم مسٹر ٹرمپ اپنے آفس میں ایسے شخص ثابت نہیں ہوں گے جن سے کچھ محبت اور کچھ نفرت کرتے ہیں۔ عملیت پسندسیاست کے خارجہ پالیسی اور دفاعی امور میںتقاضے انتخابی نعروں کے برعکس ہوتے ہیں۔ یورپ نیٹو کو تحلیل کرنے کے عمل کی مزاحمت کرے گا۔ عظیم بزنس اُنہیں آزاد مارکیٹ پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ حتیٰ کہ رپبلکن کانگریس بھی اُنہیں اپنے جذباتی نعروں پر عمل کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دے گی۔ چونکہ دونوں امیدواروں کو ملنے والا مقبول ِعام ووٹ کم وبیش برابر ہے ، چنانچہ اُنہیں معاشرے کی طرف سے بھی خاطر خواہ مزاحمت کا سامناکرنا پڑے گا۔ اسی طرح زیادہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کرناایک بات ہے، اُنہیں عملی طو رپر فراہم کرنا دوسری بات ہے ۔ اس کے لئے معاشی اور صنعتی سرگرمیوں کو بڑھانا پڑے گا، نیز دنیاسے کٹ کر نہیں، دنیا کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ دیواریں بنانے کی بجائے پل بنانے پڑیں گے ۔
ہوسکتا ہے کہ واحد تبدیلی جو دیکھنے میں آئے، وہ مہاجرین کو کنٹرول کرنے کی بابت ہو۔ اس کے نتیجے میں امریکہ زیادہ محفوظ ہوگا اور ملازمتوں کے مواقع بڑھیںگے ۔ پھر بھی یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے ۔ بھارت نواز بیانیے کے نتیجے میں پاکستان مخالف جذبات ابھریں گے ۔ اس سے پہلے دنیا نے دم سادھے امریکی انتخابات اور ان کے نتائج کو دیکھا ہے ۔ اب اسے اگلے چار سال تک ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کے نتائج پر دم سادھے بیٹھناہوگا۔




.
تازہ ترین