• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کون کہہ سکتا تھا کہ ایسے بھی ہو سکتا ہے؟ امریکہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا غصیلا مسخرہ اور نسل پرست یوں جمہوری قدروں، نسلیاتی کثرت پسندی اور نسوانی تکریم کی دھجیاں بکھیر کر امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔ گوری اکثریت کے محنت کشوں کی محرومیوں اور خوف کے جذبات کو نسل پرستانہ انگیخت دے کر وہ ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت کی حامل منجھی ہوئی سیاستدان کو اس کی اکثریت کے باوجود شکست دے سکتا ہے۔ پہلے بھی ایسے ہوا تھا جب جارج بش جونیئر جیسا پھوہڑ دماغ اقلیت میں ہونے کے باوجود الگور جیسے دانا کو اس کی اکثریت کو شکست دے پایا تھا۔ غالباً، امریکی معاشرے میں ایسے نئے تلخ عوامل داخل ہو چکے تھے جو حالات کے جوں کا توں رہنے (Status quo) سے مطمئن ہونے والے نہیں تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف امریکی سیاست کا دھڑن تختہ کر دیا بلکہ اپنی اختیار کردہ ریپبلکن پارٹی کی نظریاتی ساخت کو بھی اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ دائیں بازو کی اس اُلٹ پلٹ کے دوسری جانب ایک اور اتھل پتھل بھی برنی سینڈرز جیسے جمہوری سوشلسٹ کی صورت میں سامنے آئی۔ سینیٹر برنی سینڈرز جو دونوں صدارتی اُمیدواروں کے مقابلے میں زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور جس نے معاشرتی انصاف کے لئے سرمایہ دارانہ نابرابری کے خلاف آواز بلند کر کے ڈیموکریٹک پارٹی کو نئی جلا بخشی۔ لیکن انہیں اُن کی پارٹی کی مقتدرہ نے قبول نہ کیا۔ جبکہ ہلیری کلنٹن وال اسٹریٹ کے ساہوکاروں اور واشنگٹن مقتدرہ کی نمائندہ سمجھی جاتی تھیں، اس لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی انتظامیہ کے لئے زیادہ قابلِ قبول تھیں۔ ہلیری کلنٹن نے پڑھے لکھے گوروں، افریقی امریکیوں، لاطینیوں اور خواتین کی بھاری حمایت لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ ووٹ تو حاصل کر لئے لیکن وہ انتخابی ادارے کے 270 ووٹ (جنہیں وفاق میں شامل اکائیوں کی نمائندگی کی بنا پر ووٹوں کی اکثریت پر فوقیت حاصل ہے) حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ یوں وہ جیت کر بھی ہار گئیں۔
اسی طرح کا منظر ہم پہلے بھی برطانیہ کے یورپین یونین سے علیحدگی کے ریفرنڈم (Brexit) میں دیکھ چکے ہیں، جو اب ہمیں پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کے حالیہ اُبھار کی صورت میں صاف نظر آ رہا ہے۔ آخر ترقی یافتہ ممالک علاقائی اتحادوں جیسے یورپی یونین نافٹا (NAFTA) اور ایشیأ بحر الکاہل کی بڑی معاشی جتھہ بندیوں سے کیوں دور ہونا چاہ رہے ہیں؟ عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کی جگہ قومی ریاستی سرمایہ کاری کی جانب مراجعت کیوں ہو رہی ہے؟ سرمائے کے عالمی ہونے کے ساتھ ساتھ، تارکینِ وطن کی عالمی نقل مکانی سے ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتیں اور مقامی آبادیاں دباؤ کا شکار ہو کر خلوت پسندی کی جانب کیوں راغب ہو رہی ہیں؟ اور ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ، پیوٹن، ایردوان اور مودی جیسے حکمرانوں سے واسطہ پڑ رہا ہے جو کسی نہ کسی طرح کی آمریت پسند اور متعصب سیاست کا مظہر ہیں۔ پاکستان میں بھی ہمیں پرانی سیاست گری اور آزمائے ہوئے سیاستدانوں سے عمومی بیزاری کا اظہار دھرنوں اور آمرانہ عوامیت پسندی کی حامل تحریکِ انصاف اور عمران خان کی صورت نظر آ رہا ہے، جو ایک حد تک ڈونلڈ ٹرمپ اور ایردوان کا امتزاج نظر آتے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، سرمایہ دارانہ عالمگیریت سائنس اور ٹیکنالوجی اور اطلاعات کے انقلاب نے ایک نئی دُنیا کی جانب پیش رفت کی تھی۔ اور اس نئے عالمی نظام (World Order) کو واشنگٹن اتفاقِ رائے (Washington Consensus) کی صورت میں ایک عالمی طاقت کے زیرِ قیادت مسلط کر دیا گیا۔ ہوا یہ کہ عالمگیریت نے اُبھرتی معیشتوں کو زبردست مہمیز لگائی اور دُنیا کی کھلی منڈیوں نے اُن کی قومی پیداوار کے لئے بے پناہ مواقع فراہم کر دیئے۔ سستی محنت اور کم پیداواری لاگت کے باعث ترقی پذیر معیشتوں نے مہنگی محنت اور زیادہ پیداواری لاگت والی ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں سبقت حاصل کر لی۔ چین، بھارت، برازیل کی معیشتیں سات سے دس کی قومی پیداواری شرح سے عالمی منڈی میں اپنا حصہ بڑھاتی چلی گئیں اور ترقی یافتہ معیشتیں کم شرح بلکہ منفی شرح ترقی کے باعث پیچھے کھسکتی چلی گئیں۔ سرمائے کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ تارکینِ وطن کا پھیلاؤ بھی ہوا کیونکہ علاقائی تجارتی معاہدوں نے انسانی آمد و رفت میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کر دیا اور یوں بڑی تعداد میں لوگ تیسری دُنیا سے ترقی یافتہ پہلی دُنیا میں تیز رفتاری سے منتقل ہونے لگے اور ترقی یافتہ ممالک میں بے شمار اسامیوں اور روزگاروں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے گئے تاآنکہ مقامی آبادیوں کو روزگار کے کم ہوتے ہوئے مواقعوں کے ہاتھوں در بدر ہونا پڑا۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی بڑی وجہ یہی تھی اور یہی ہمیں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ جس گلوبلائزیشن کا چرچا کیا گیا تھا، وہ ترقی پذیر ملکوں کے زیادہ کام آیا اور ترقی یافتہ ممالک کے مقامی لوگوں اور محنت کشوں کے لئے یہ گھاٹے کا سودا بنتا گیا، حالانکہ دُنیا کی کثیر القومی سرمایہ دار کمپنیوں نے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور وہ ترقی پذیر ممالک میں سستی محنت کے استحصال کے لئے سرمایہ اور ٹیکنالوجی لے کر پہنچ گئیں۔ اس سب کا پھل امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں کو تو ملا لیکن ان ملکوں میں جہاں صنعت کاری رُک گئی وہاں امیر اور غریب کی خلیج بڑھتی گئی۔
ان حالات میں ہلیری کلنٹن نے جو درمیانی راستہ اختیار کیا وہ گوری اکثریت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے قابل نہ تھا اور وہ ایک بہتر پروگرام اور امریکی سیاست کے سنہری اُصولوں پر کاربند رہنے کے باوجود شکست سے دوچار ہو گئیں۔ اُن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ تھا جس نے تارکینِ وطن، مسلمانوں، لاطینیوں اور ہسپانویوں کو اپنی نسلی دشنام طرازی کا نشانہ بنایا۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے، غیرقانونی تارکینِ وطن کو نکال باہر کرنے، مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے اور کالے امریکیوں کو اپنی انتخابی مہم میں مشقِ ستم کا شکار کیا۔ خاص طور پر عورتیں اُس کی پدرشاہانہ ملامت کا نشانہ بنیں۔ ایسا طوفانِ بدتمیزی مچا کہ متمدن دُنیا سہم کر رہ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ عالمگیریت کی بجائے قومی اجارہ دارانہ سرمایہ داری کو اولیت دے رہا ہے۔ عالمی تجارتی معاہدوں کو دوبارہ سے لکھنا چاہتا ہے اور امریکی داخلی معیشت کو چالو کرنے کے لئے قومی منڈی کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ تارکینِ وطن کو نکال کر گوری آبادی کے لئے مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے تنہا سامراجی تسلط کی جگہ وہ یورپی یونین، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر فوجی شراکت داروں کو کہنے جا رہا ہے کہ اپنی سلامتی کا خود بیڑہ اُٹھاؤ کہ اب امریکہ تمہاری سلامتی کا ٹھیکیدار بننے سے رہا۔ نتیجتاً یورپ، جاپان، آسٹریلیا، جنوبی کوریا و دیگر علاقائی طاقتیں پریشان دکھائی پڑتی ہیں۔ جاپان اور جرمنی جو غیرحربی طاقتیں تھیں، اب فوجی طاقتیں بننے کی راہ لیں گی اور دُنیا میں اک نئی فوجی و تجارتی جتھہ بندیوں کی راہ کھلے گی۔
کچھ اسی طرح کا نقشہ یورپ میں بھی بننے جا رہا ہے اور روس کا کردار ایک نئی جارحانہ صورت میں سامنے آئے گا جس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کوئی معاملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اصل تنازع چین سے ہو گا۔ اس سارے عمل میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ جس کے ردّعمل میں فرانس، جرمنی، ہالینڈ،ا سپین اور یورپ کے دیگر ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور فسطائیت پسند سامنے آئیں گے جو ٹرمپ کے ساتھ مل کر عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک نئی قوت سے برسرِپیکار ہوں گے۔ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت، جاپان و دیگر ملکوں سے ملکر چین کے خلاف محاذ آرائی کرے گا۔ شاید امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والا نیوکلیئر معاہدہ کہیں کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ پاکستان کی جانب اُس کا رویہ بہت خوفناک ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں جاری خلفشار سے نکلتے نکلتے وہ پاکستان کو وہ کچھ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا جو اب تک ہم کر نہیں پائے۔ جو ہوا نہیں تھا، ہونے جا رہا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے بھی ہو سکتا ہے۔



.
تازہ ترین