• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18اکتوبر کو سانحہ کارساز اور23اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی خاموشی سے گزر گئی۔اس موقع پر لاہور میں پیپلزپارٹی پنجاب کے زیر اہتمام کوئی تقریب منعقد نہیںہوئی۔ صوبائی قیادت اور رہنمائوں کو نہ تو سانحہ کارساز یاد رہا اور نہ ہی مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی۔ یہ دونوں مواقع پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور بیگم صاحبہ کی ناقابل فراموش قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔
18اکتوبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قافلے پر حملے میں 172کارکن شہید ہوئے ،ہر سال ان کی یادگار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ اس سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ،بختاور اور آصفہ کارساز جائے حادثہ گئے، پھول چڑھائے اور دعا مانگی۔ آصفہ نے بی بی شہید کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شہدا کے گھر جا کر تعزیت کی۔ لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور تنظیم اس سے لاتعلق رہی اور چیئرمین بلاول بھٹو کی کارساز یادگار پر حاضری کی خبر بھی ان کے احساسِ غفلت کو نہ جگا سکی جبکہ یہ ہر وقت ان کے نام کی مالا جپتے ہیںاور سوشل میڈیا پراپنی ’’کارکردگی‘‘ کے ترانے گاتے ہیں۔
اسی طرح بیگم نصرت بھٹو کی برسی نہ تو انہیں یاد ہے اور نہ ہی یہ احساس کہ اس عظیم خاتون نے جنرل ضیا کے مارشل لاء کے خلاف سینہ سُپر ہو کر پارٹی کو زندہ رکھا اور کارکنوں کو فعال کرکے جمہوری جدوجہد میں تاریخی کردار ادا کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرپرسن جناب آصف علی زرداری نے اپنے بیانات میں بیگم صاحبہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے لیکن پنجاب میں پارٹی رہنمائوں کی بے حسی کی وجہ سے یہ دن بھی خاموشی سے گزر گیا۔ وہ سانحہ کارساز اور بیگم صاحبہ کو بھول چکے ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی خدمات کے اعتراف میں سب سے بڑا قومی اعزاز نشانِ پاکستان دیا گیا لیکن پنجاب میں پارٹی نے ان کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔
نئے دور کے ان لیڈروں کی عدم دلچسپی اور لاتعلقی اس افسوسناک صورت حال کی عکاس ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی زوال پذیر اور زبوں حالی کا شکار اور جوڑ توڑ کی سیاست کی نذر ہو چکی ہے۔ 11اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں عبرتناک شکست نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور قیادت کے مبالغہ آمیز دعوے بھی بے نقاب ہوگئے ہیں۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کا جو حشر ہوا ہے اس کے ذمہ دار یقینا پنجاب میں صوبائی قیادت اور وہ سابق وزرا ہیں جنہوں نے دورِ اقتدار میں تمام تر توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھی۔ اپنے حلقہ انتخاب سے راہِ فرار اختیار کی۔ کارکنوں کی یہ عام شکایت ہے کہ ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور نہ ہی ان کے مسائل سے کسی کو دلچسپی تھی۔ اس عدم توجہی اور کارکنوں سے بے اعتنائی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج پیپلزپارٹی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کا مکمل صفایا ہو گیا۔
آج کل سیاسی و غیر سیاسی حلقوں اور اخبارات میں یہی موضوع زیر بحث ہے کہ پنجاب میں پی پی پی ختم ہوگئی ہے اور اس کے ذمہ دار سابق صدر جناب آصف علی زرداری ہیں۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تصور کو پارٹی کے بعض رہنما ہی فروغ دے رہے ہیں۔ ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگانے والوں کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ سابق صدر کے بارے میں عوام میںمنفی ردعمل پایا جاتا ہے۔ اس لئے حالیہ انتخابات میں ان کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا ہے لیکن انتخابی نتائج تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔
سابق صدر زرداری کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں وزرائے کرام اور رہنماان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ وہ بہت ذہین اور سیاسی چالوں کے ماہر ہیں او ران کا دور ماضی کی نسبت زیادہ بہتر اور کامیاب ہے۔ بعض وزرا نے تو یہ تک کہا کہ بے نظیربھٹو شہید اور بیگم صاحبہ کا دور ختم ہو چکا۔یہ ہمارا دور ہے۔ اور وہ یادِ ماضی ہیں۔ لیکن یہی نیا دور ان کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اپنے عظیم رہنمائوں کے نظریات سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ عقیدت و احترام کے رشتہ کی جگہ خودغرضی اور منافقت نے لے لی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک لیڈر نے ٹی وی پر یہ انکشاف کیا ہے کہ پی پی پی میں شریک چیئرپرسن کا کوئی عہدہ نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کئی سال تک شریک چیئرپرسن کے عہدے پر فائز رہی ہیں او رجلاوطنی کے ایام میں بھی لندن سے پارٹی ہدایات اور بیانات شریک چیئرپرسن کی حیثیت سے جاری ہوتے تھے۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جناب آصف علی زرداری پارٹی کے راہبر ہیں جبکہ پارٹی میں راہبر کا سرے سے کوئی عہدہ ہی نہیں ہے۔ شریک چیئرپرسن کے عہدے کی نفی اور راہبر کے عہدے کی تخلیق سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری کو پارٹی امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ صدرِ پاکستان تھے اور شریک چیئرپرسن کا عہدہ بھی استعمال کرتے تھےتو اس وقت ان وزراء،لیڈروں کو یہ کہنے کی جسارت کیوں نہ ہوئی کہ صدر صاحب آپ کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس لئے آپ اس منصب سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ لیکن اس وقت خوشامد اور چاپلوسی سکہ رواں تھا۔
مجھے یاد ہے کہ آج کے ایک اہم رہنما نے گورنر ہائوس لاہور میں ایک تقریب میں اپنے صدر کی خوشامد کے دریا بہا دیئے تھے اور میں یہ سن کر خوشامد کی اس طغیانی میں غوطے کھانے لگا تھا۔ انہوں نے بڑے پرجوش انداز میں کہا۔ جناب صدر آپ بھٹو صاحب اور بی بی شہید سے بھی زیادہ ہردلعزیز اور فہم و فراست کے مالک ہیں او رپی پی پی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ آپ کی مفاہمت کی پالیسی سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ ہے ۔ اب یہ تصور عام کیا جا رہا ہے کہ آصف علی زرداری کی وجہ سے پنجاب میں پی پی پی کا احیا اور مستقبل مخدوش ہے ۔ اس تصور کو وہی لیڈر ہوا دے رہے ہیں جنہوں نے ان کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹے اور اقتدار کا خمار اب تک برقرار ہے۔اس لئے شریک چیئرپرسن کے عہدے کی آڑ میں سابق صدر کے خلاف صف آرائی ہو رہی ہے جبکہ اقتدار کے زمانے میں صدر زرداری کی تعریف و توصیف اور خوشامد ان کا طرئہ امتیاز تھا۔
میرے ایک دوست نے ضمنی انتخابات کے بعد یہ ٹوئٹ کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کہاں ہے؟ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ پی پی پی کارکنوں کے دلوں میں زندہ ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نئے دور کے رہنما پارٹی کی تاریخ سے نابلد ہیں اور نہ ہی انہیں ماضی، حال اور مستقبل سے کوئی دلچسپی ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے عہدیداران کی نااہلی کی وجہ سے یہ کہنادرست نہیں کہ پیپلزپارٹی ختم ہو گئی ہے۔
تازہ ترین