• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن قوموں نے دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے ، وہ صرف ماضی اور حال میں الجھی نہیں رہیں بلکہ انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ ان کے پاس واضح پروگرام تھے کہ انہیں اپنی آنے والی نسلوں کو کیا دینا ہے اور اپنے دیہات ، قصبوں ، شہروں اور اپنے خطے کو کس طرح سنوارنا ہے ۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا بہت مناسب ہو گا ۔ روس کے انقلاب کے بانی ولادیمیر لینن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنی پارٹی کی ایک طویل فکری نشست میں شریک تھے ، جس میں سیاست اور فلسفے پر بات ہوتی رہی ۔ اس نشست سے فارغ ہو کر جب وہ باہر نکلے تو دیکھا بچے کھیل کود میں مصروف ہیں ۔ لینن ایک بچے کے پاس گئے ، اسے پیار کیا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ ’’ ہم سیاست اور فلسفے میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے سائنس اور اقتصادیات پڑھیں ۔ ‘‘ یہ لینن کا انقلابی وژن تھا ۔ دنیا نے دیکھا کہ انقلاب روس کے بعد آنے والی نسلوں نے سائنس اور اقتصادیات پر توجہ دی اور سوویت یونین ایک عالمی طاقت بن گیا ۔ دنیا کی غیر اشتراکی سرمایہ دار ریاستوں میں بھی سیاسی قیادت کا یہی وژن تھا ، جس کی وجہ سے وہ قومیں بھی دنیا میں آگے نکل گئیں ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مستقبل کی نہیں سوچتے اور ماضی سے باہر نہیں نکلتے ۔ ہم ہر وقت سیاست کی بات کرتے ہیں جبکہ بحیثیت قوم ہم اب تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہماری سیاسی منزل کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست نان ایشوز کی سیاست بن گئی ہے ۔ ہم حقیقی مسائل پر بات ہی نہیں کرتے۔ یہ سائنس اور تسخیر کائنات کا عہد ہے ۔ ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں ۔ جن معاملات پر دنیا سب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے ، ہم ان معاملات کے بارے میں سوچتے بھی نہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ ہم کس قدر خطرناک صورت حال سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ ہم نے سیاست تو کی لیکن ایک نصب العین کا تعین نہ کر سکے ۔ ہم نے پاکستان کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا لیکن دنیا میں سب سے زیادہ بدامنی کا شکار ہیں ۔ اس وقت داخلی اور سیاسی مسائل سے بھی زیادہ خوف ناک مسائل کا ہماری آنے والی نسلوں کو سامنا ہے ۔ وہ مسائل ماحولیات کی تباہی اور تعلیم کا گرتا ہوا معیار ہے۔ آج میں سیاست سے ہٹ کر ان مسائل پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے ، جہاں ماحولیاتی تباہی نے انسانی آبادیوں اور ان کی تہذیبوں کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ ہم نے اپنے دریاؤں ، ندیوں ، جھیلوں ، چشموں ، نہروں اور دیگر آبی ذخائر کو آلودہ کردیا ہے ۔ دریاؤں اور نہروں کو سیوریج نالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ ہمارے شہروں اور قصبوں کا سارا گندہ پانی اور صنعتوں کا فضلہ ہمارے آبی ذخائر میں چلا جاتا ہے ۔ ملک کی اکثریت آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ 2008ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کی صرف 30 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے ۔ یہ وہ آبادی ہے ، جو بڑے شہروں میں رہتی ہے لیکن سروے کرنے والوں نے شاید اس بات کو نظر انداز کردیا ہے کہ جو پانی اس آبادی کو فراہم کیا جاتا ہے ، وہ بھی پینے کے قابل نہیں ہوتا ہے ۔ پاکستان کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی یا تو ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض کا شکار ہے یا ہیپاٹائٹس کی کیریئر ہے ۔ ہم نے بہت بے رحمی سے جنگلات کاٹ دیئے ہیں ۔ دریاؤں میں پانی کا قدرتی بہاؤ نہیں رہنے دیا ، جس کی وجہ سے ساحل سمندر پر تیمر کے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں کہیں بھی ٹاؤن پلاننگ نہیں ہے ۔ ہمارے گاؤں ، قصبے اور شہر گندگی کے ڈھیر بن چکے ہیں ۔ کراچی جیسے شہر میں بھی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کوئی موثر نظام کام نہیں کر رہا۔ دھوئیں اور شور کی آلودگی کی وجہ سے شہروں میں رہنے والے لوگ بے شمار جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ بلڈنگ کنٹرول کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کسی منصوبہ بندی کے بغیر عمودی سمت بڑھ رہے ہیں ۔ شہروں میں جو علاقے پہلے رہنے کے قابل تھے اب وہ ناقابل رہائش ہوگئے ہیں ۔ دنیا میں ہمارے شہر اور قصبے سب سے زیادہ گندے اور ہر طرح کی آلودگی سے متاثر ہیں ۔
ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہم یا تو وبائی امراض کا شکار رہتے ہیں یا قدرتی آفات کے عذاب جھیل رہے ہوتے ہیں ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ، جہاں پانی کے بے پناہ وسائل ہیں لیکن لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ سال کے نو ماہ ہمارا ملک زراعت کےلئے پانی کی قلت کا شکار ہوتا ہے اور ایک دو مہینے سیلابوں کی زد میں ہوتا ہے ۔ یہ سیلاب ہماری زراعت اور ہمارا انفرا سٹرکچر سب کچھ تباہ کردیتے ہیں ۔ ہم نے موٹرویز تو بنالی ہیں لیکن ہم واٹر مینجمنٹ نہیں کر سکے ہیں ۔ کالا باغ ڈیم پر تمام لوگوں نے صرف سیاست کی ۔ جو اس ڈیم کے حامی تھے ، انہوں نے بھی اس پر سیاست کی اور جو اس کے مخالف تھے ، انہوں نے بھی اس پر سیاست چمکائی ۔ اگر یہ ڈیم متنازع تھا تو دوسرے ڈیم بنائے جاسکتے تھے لیکن اس طرف بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ ہم نے ماحولیات کے تحفظ اور ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کیلئے منصوبوں پر خرچ نہیں کیا اسلئے اس وقت ہم انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں ۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اچھا مستقبل نہیں دے رہے ۔ ماحولیاتی تباہی کے ساتھ ساتھ ہم نے تعلیم ، صحت ، ثقافت اور انسانی وسائل کی ترقی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔ ہمارے ہاں اساتذہ سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں ۔ اسکول اور کالج بنانے سے پہلے ہر کوئی اپنے محلات بناتا ہے۔ تعلیم کا معیار مسلسل گرتا جارہا ہے ۔ سائنسی اور اعلیٰ تعلیم پر ہمارا بجٹ دنیا کے غریب ملکوں سے بھی کم ہے ۔ بعض لوگ ماحولیاتی تباہی اور تعلیمی و ثقافتی انحطاط کا ذمہ دار بڑھتی ہوئی آبادی کو قرار دیتے ہیں لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صرف ایک ملک چین میں دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی رہتی ہے ۔ وہاں نئے شہر آباد کئے گئے ہیں اور خصوصاً صنعتی شہر آباد کئے گئے ہیں لیکن وہاں ماحولیاتی توازن نہیں بگڑا جبکہ قدرتی ماحول بھی برقرار ہے ۔ چین نے ماحول کے تحفظ ، تعلیم ، کلچر اور انسانی ترقی پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہم اس تباہی کا شکار ہیں ۔
وقت آگیا ہے اب ہمیں اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی ۔ ہمیں سب کچھ چھوڑ کر ماحولیاتی تحفظ اور نئی نسلوں کی بہتر تربیت کےلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں ماحولیاتی تحفظ کے سخت قوانین وضع کرنا ہوں گے اور ان قوانین پر عمل درآمد کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی ۔ اسی طرح تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے بھی ہمیں نہ صرف معیار تعلیم کو بہتر بنانا ہو گا بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا۔ ہمیں آلودگی کے خلاف اور جدید تعلیم کے فروغ کیلئے جہاد کرنا ہو گا ۔ ہمیں دہشت گردی سے بھی نمٹنا چاہئے لیکن یہ دہشت گردی سے بھی بڑے ایشو ہیں ، جن کا ہماری بقا اور ہمارے مستقبل سے تعلق ہے۔
تازہ ترین