• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک ہند تعلقات ایک ایسا موضوع ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیاء کیلئے بلکہ اقوام عالم کی نظروں میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وجہ اس کی صرف یہ نہیں ہے کہ ہر دو ممالک نیوکلیئر پاور کے حامل ہیں بلکہ ان کی کرب سے بھری خطرناک تاریخ بھی ہے اس حقیقت میں کوئی اشتباہ نہیں کہ جنوبی ایشیا صدیوں سے ایک ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس خطہ چلا آرہا ہے ایک سو ایک اختلافات کے باوجود یہاں بسنے والوںکے درمیان جہاں مروت، بھائی چارے، باہمی احترام اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شراکت کی اعلیٰ ترین اور ان گنت مثالیں بھی ملتی ہیں وہیں اس کے برعکس رویوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی نفسیات کا بھی یہ عجیب المیہ ہے کہ تعمیری کاوشیں اگرچہ بہت بڑے پیمانے پر ہوں اور تخریبی شرارتیں چاہے محدود نوعیت کی ہوں۔ سوسائٹی پرثانی الذکر زود اثر ہوتی ہیں یہی وہ بنیاد تھی جس پر جنوبی ایشیاء میں بسنے والی دو بڑی اقوام نے یہ بہتر سمجھا کہ جس طرح الجھنوں سے بچنے کے لئےدو بھائی اپنے علیحدہ گھر بسا لیتے ہیں اسی طرح یہ دونوں اپنے اپنے ممالک میں امن و شانتی کے ساتھ رہیں گے اور باہم اچھی ہمسائیگی کا نمونہ اقوام دیگرکے سامنے پیش کریں گے مگر افسوس کہ ایسے ہو نہ سکا۔
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
محبت کی کثیر تعمیری قوتوں پر نفرت کی قلیل تخریبی و سازشی طاقتیں بتدریج یا اُتار چڑھائو کے ساتھ غالب آتی جاتی رہیں۔ آغاز تعلق تو اس طرح ہوا تھا کہ ہمارے بابائے قوم نے فرمایا کہ پاک ہند تعلقات امریکہ و کینیڈا جیسے ہونگے اور یہ کہ میں اپنی چھٹیاں اپنے ممبئی والے گھر میں گزارا کروں گا جبکہ انڈین نیشن کے باپو نے یہ کہا کہ میں اپنی بقیہ زندگی کا زیادہ حصہ نوزائیدہ مملکت پاکستان میںگزاروں گا یہ دو طرفہ اعلیٰ داعیے سر آنکھوں پر لیکن بعد میں جو ہوا وہ افسوسناک ہی نہیں درد ناک بھی ہے۔ یہاں بے گناہ ہزاروں انسان آگ اور خون میں نہا گئے اور پھر کیا تھا اپنے بزرگ قائدین کی تمنائوں کے برعکس یکے بعد دیگرے چار خوفناک جنگیں لڑی گئیں۔
ہم نے اپنی کوتاہیوں سے بھی کبھی صرف نظر نہیں کیا لیکن سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں جب سے مودی سرکار برسراقتدار آئی ہے خطے میں شکتی و شانتی کی سوچیں پریشان حال ہیں مسکراتا ہوا بدھا پیہم آنسو بہانے پر مجبور ہے۔
ان باشعور قوتوں کیلئے یہ بہت بڑی امید اور ڈھارس تھی کہ عین اس وقت پاکستان میں کسی جنگجو طالع آزما کی حکمرانی نہیں چل رہی تھی بلکہ وہ شخص برسراقتدار تھاجو سب سے بڑھ کر امن و سلامتی کا خواستگار تھا۔ پاک ہند تعلقات بہتر بنانے کیلئے جس کی خلوص نیت سے کی گئی کاوشیں خطے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جی ہاں یہ وہی نوازشریف ہیں جو نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی مبارکباد دینے کیلئے بنفس نفیس دہلی تشریف لے گئے تھے۔ باوجود یہ کہ پاکستانی میڈیا کے کچھ عناصر اور کچھدیگر حلقوں نے اس پر ناک بھوں بھی چڑھائی تھی اوفا میں بھی انہوں نے امن کی طرف محبت بھرا ہاتھ بڑھایا تھا حالانکہ مخالف سمت سے رعونت بھرا رویہ پایا اور غیر سفارتی طرز عمل اپنایا گیا تھا۔ جو شخص وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچتا ہے وہ مہذب نہ بھی ہو تب بھی اس میں کچھ تہذیب یا شائستگی آجانی چاہئے کم از کم بڑی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بلند اخلاقی و اعلیٰ ظرفی کا بھرم ہی رکھ لیا جاتا ہے ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نریندر مودی صاحب تو اخلاق کی پچھلی صفوں میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم سے محروم ہی سہی ہے تب بھی انسان وقت سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اگر انہوں نے غربت دیکھی ہے جیسے کہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کی والدہ محترمہ امیر ہمسایوں کے گھروں میں جا کر کام کرتے رہے ہیں ، برتن دھو کر اپنا گھر چلاتے تھے یا وہ معمولی کھوکھے میں لوگوں کو چائے Serve کرتے رہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے اس محنت سے تو ان میں عظمت آنی چاہئے تھی۔ جس نے خود غربت دیکھی ہو اس کو غریبوں کے دکھوں کا احساس بھی اس قدر زیادہ ہونا چاہئے۔ ان کی شدت پسندانہ سوچ سے اگر پاک و ہند میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خطے میں بسنے والے کروڑوں غریب عوام کو ہوگا۔ اس طرح وہ غریبوں کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنیں گے۔
کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اولین ذمہ داری بی جے پی کے ان طبقات کی تشفی ہے جن کے ووٹوں کی قوت سے وہ پردھان منتری بنے ہیں بلاشبہ انہیں اپنے عوام کی نمائندگی کرنی چاہئے مگر اس وقت وہ متشدد گروہوں کے نہیں پورے ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لیڈر کا کام لیڈ کرنا ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے فالورزکے پیچھے چلنا شروع کردے۔ بلاشبہ لیڈر کو اپنے عوام اور ان کی امنگوں کا خیال رکھنا چاہئے لیکن بے ہنگم عوامی امنگوں کو درست سمت موڑنا بھی لیڈر ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے مودی صاحب ان تمام معیارات پر ہنوز بری طرح سے ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ہم پوچھتے ہیں کہ آخر اٹل بہاری واجپائی صاحب بھی تو انہی طبقات کے نمائندہ تھے وہ کانگریس کے رہنماتو نہیں تھے کیا ہندوستان جیسے بڑے لبرل سیکولر ملک میں ایسے دانشور نہیں ہیں جو اس حوالے سے ان دونوں وزرائے اعظم کے کردار کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اپنے پردھان منتری جی کو بتلائیں کہ مخالفت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ یہ کوئی بات ہے کہ آپ دہلی میں آئیں تو فلاں کو ملیں یا فلاں کو نہ ملیں کس سے پہلے ملیں کس سے بعد میں ملیں آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ کے زیر کنٹرول کشمیر آپ کا اٹوٹ انگ ہے تو پھر آپ کو خوف کاہے کا ہے؟
اس وقت پاکستان اور بھارت میں دو طرفہ مذاکرات جیسے بھی تھے ٹوٹ چکے ہیں دونوں کی قیادتیں ایک دوسرے سے بات چیت تو دور کی بات ہے رسمی مصافحہ بھی نہیں کرسکیں خطے کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی ہے؟ ہمیں تسلیم ہے کہ وزیراعظم نوازشریف پر مختلف النوع پریشرز ہونگے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف نے اس تمام تر صورتحال کے باوجود نفرت میں ڈوبا ہوا کوئی ایک فقرہ بھی ادا نہیں کیا۔ کشمیر کا ذکر اگر انہوں نے اقوام متحدہ میں چھیڑا ہے تو اس کا جواز موجودہ بھارتی قیادت نے ازخود انہیں فراہم کیا ہے۔ جب آپ ایسا غیر لچکدار اور پرتشدد رویہ اختیار کریں گے تو لازمی بات ہے، آپ متشدد ہاتھوں کو ہی مضبوط کرنے کا باعث بنیں گے بالفاظ دیگر آپ امن دشمنوں کومضبوط اوراس سے دوستی کی آرزو رکھنے والوں کو کمزور کررہے ہیں۔ آپ کا یہ رویہ کشمیر میں بھی ایک بری صورتحال پیدا کر رہا ہے۔
تازہ ترین