• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ڈپلومیٹک افیئرز کے چیئرمین اشتیاق بیگ نے گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس میں ایک نہایت اہم مذاکراتی اجلاس منعقد کیا جس میں فرانس، سوئٹزرلینڈ، روس، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، جاپان، ایران، تاجکستان اور دیگر ممالک کے قونصل جنرلز اور کمرشل قونصلرز نے شرکت کی۔ اجلاس کا موضوع ’’پاک چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں پاکستان وژن 2025ء معاشی ترقی کا روڈ میپ‘‘ تھا۔ اجلاس میں میرے علاوہ ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر، FPCCI کے سینئر نائب صدر خالد تواب، نائب صدور حنیف گوہر، ارشد فاروق، زبیر طفیل، عبدالسمیع خان، گلزار فیروز، شکیل ڈھینگرا، نور خان، ممتاز صنعتکاروں، سرمایہ کاروں اور میڈیا کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ میں آج کے کالم میں اس اہم موضوع پر غیر ملکی سفارتکاروں کے خیالات شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
میں وژن 2025ء کے بارے میں گزشتہ کالم میں تحریر کرچکا ہوں جو پاکستان کی معاشی لانگ مارچ کا روڈ میپ ہے اور وژن پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرکے پاکستان 2025ء تک دنیا کی 25بڑی معیشتوں میں شامل ہوسکتا ہے۔ اجلاس میں ڈپلومیٹک افیئرز کمیٹی کے چیئرمین اشتیاق بیگ نے بتایا کہ وژن 2025ء میں ملکی جی ڈی پی مرحلہ وار بڑھاکر موجودہ 4 فیصد سے 6 اور 9 فیصد، ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے بڑھاکر 150 ارب ڈالر، بیرونی سرمایہ کاری 600 ملین ڈالر سے بڑھاکر 15 ارب ڈالر، ٹیکس کی جی ڈی پی میں موجودہ شرح 9.8 فیصد سے بڑھاکر 18 فیصد، غربت میں 50 فیصد کمی اور شرح خواندگی کو 90 فیصد تک لانے کے بلند اہداف مقرر کئے گئے ہیں جو بظاہر مشکل نظر آتے ہیں لیکن موثر منصوبہ بندی اور حقیقی عملدرآمد، زرعی شعبے کی بحالی، کرپشن فری اور گڈگورننس کو اپناکر ان اہداف کے حصول میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ وژن 2025ء کے مطابق ملکی اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے۔ وژن میں ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ اور غیرترقیاتی حکومتی اخراجات میں کمی کی سفارش کی گئی ہے جبکہ ملک کی فی کس سالانہ آمدنی 1300 ڈالر سے بڑھاکر 4200 ڈالر اور 2018ء تک ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کرکے 2025ء تک 25000میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کے اہداف بھی رکھے گئے ہیں۔ وژن 2025ء کے اہداف حاصل کرنے کیلئے وژن میں عوام،گروتھ، گورننس، بجلی، پانی، خوراک، تعلیم، نجی شعبہ، نالج اکانومی اور علاقائی رابطے کے 7 اہم ستون رکھے گئے ہیں جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری ان اہداف کو حاصل کرنے میں Catalystثابت ہوگی۔
FPCCI کی خصوصی کمیٹی برائے سی پیک کے رکن کی حیثیت سے میں نے سی پیک پر بریفنگ دیتے ہوئے بیرونی سفارتکاروں اور سرمایہ کاروں کو بتایا کہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری، موجودہ حکومت کی بہتر معاشی کارکردگی جس میں ہمارے بیرونی ذخائر، ترسیلات زر، جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ، بجٹ خسارے، افراط زر میں کمی، انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کا پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مستحکم قرار دینا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 42200 انڈیکس کی اونچی ترین سطح تک پہنچنا اور 46 ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں نے پاکستان کو خطے میں ایک نہایت اہم ملک بنادیا ہے۔ معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنیا کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ سی پیک کے منصوبوں میں چین کے شمال مغربی صوبے Xinjiangکو ہائی وے اور ریلوے کے ذریعے گوادر پورٹ سے ملانا اور 2700 کلومیٹر گوادر، کاشغر راہداری کے منصوبوں جن کی وجہ سے خطے کے ممالک اپنی تجارت کو صرف ایک تہائی قیمت اور وقت میں کرسکیں گے جو مستقبل میں سنگ میل ثابت ہوگا اور پاکستان خطے میں علاقائی معاشی حب بن سکتا ہے۔ معاشی راہداری میں خصوصی اکنامک زونز بنائے جائیں گے جو ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع اور معاشی خوشحالی پیدا کریں گے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ چین سے 1200کنٹینرز کا ایک کاررواں 12نومبر کو گوادر پورٹ پہنچ چکا ہے جو اس منصوبے کا ایک لٹمس ٹیسٹ تھا۔ سی پیک کے 46 ارب ڈالر کے منصوبوں میں ہوا، شمسی، ہائیڈرو، کوئلے، ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے 21منصوبوں کی مالیت 33.8 ارب ڈالر، ٹرانسپورٹ وانفرااسٹرکچر کے 4منصوبوں جن کی مالیت 9.8ارب ڈالر، گوادر پورٹ کے 8منصوبوں جن کی مالیت 792 ملین ڈالر ہےشامل ہیں۔ ان منصوبوں میں 2018ء تک بجلی پیدا کرنے کے فاسٹ ٹریک منصوبوں سے 10400میگاواٹ اضافی بجلی پیدا ہوگی جو ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کردے گی جبکہ 2022ء تک مزید 6120میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی اور اس طرح 7 سالوں میں مجموعی 16520 میگاواٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں 34 ارب ڈالر کے انرجی منصوبے ہمارا نجی شعبہ چین اور دیگر بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کے ساتھ لگارہا ہے۔ چینی حکومت نے پاکستان کو ان منصوبوں کیلئے کوئی قرضے فراہم نہیں کئے بلکہ چین کے 3بڑے بینکوں چائنا ڈویلپمنٹ بینک (CDB)، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا (ICBC) اور چائنا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک (CIDB) نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کو ان منصوبوں کے عوض فنانسنگ فراہم کررہے ہیں۔ چین کی توانائی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں میں چین کی تھری جارجز کارپوریشن اور چائنا پاور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پروجیکٹس مکمل کئے ہیں لیکن انفرااسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے 12 ارب ڈالر کے منصوبوں میں چینی حکومت کے حکومت پاکستان کو قرضے شامل ہیں۔ اجلاس کے دوران ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر اور فیڈریشن کے سینئر نائب صدر خالد تواب نے بتایا کہ علاقائی روابط قائم ہونے، تجارت کی لاجسٹک لاگت اور وقت میں کمی کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بیرونی سفارتکاروں نے کہا کہ پاکستان وژن 2025ء اور سی پیک منصوبے پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جس کیلئے ملک میں سیاسی استحکام اور بہتر امن و امان کی صورتحال ضروری ہے۔ انہوں نے پاکستان کے پوٹینشل پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں ان منصوبوں کو گہری دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کا بیرون ملک بہتر امیج بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور قومی اہمیت کے ان منصوبوں کے بارے میں بیرونی سفارتکاروں کو مفید معلومات فراہم کرنے پر فیڈریشن کے اقدام کو سراہتے ہوئے مستقبل میں بھی ایسے اہم مذاکراتی اجلاس باقاعدگی سے منعقد کرنے کی تجویز دی۔ غیر ملکی سفیروں سے آزادانہ تبادلہ خیال کے بعد پاکستان کے سیاسی رہنمائوں سے میری درخواست ہے کہ وہ ملکی مفاد اور پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ملک میں سیاسی استحکام برقرار رکھیں اور ملک دشمن عناصر کو ایسا کوئی موقع نہ دیں جسے وہ استعمال کرکے سی پیک کے اہم منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں کیونکہ سی پیک جیسے قومی اہمیت کے منصوبے بار بار نہیں آتے۔


.
تازہ ترین