• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپر پاور امریکہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے دنیا کے دیگر حکمرانوں اور اقوام عالم کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ دیگر ممالک کے عوام کی طرح پاکستانی حکمراںاور عوام بھی حیرت و پریشانی کی ملی جلی کیفیت سے دو چار ہیں یہی نہیں امریکی و عالمی میڈیا کے ہلیری کلنٹن کی یقینی جیت اور ٹرمپ کی ہار سے متعلق کئے گئے تبصرے بھی غلط ثابت ہو گئے۔ غالباً ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہلیری کلنٹن کو شکست دیکر امریکی صدارت کے منصب کیلئے اپنی کامیابی پر حیرت زدہ ہوں گے لیکن اب اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ٹرمپ ہی سپر پاور امریکہ کے سب سے طاقتور ترین اور بااختیارشخصیت کی حیثیت سے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ پاکستانی میڈیا نے بھی عالمی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امریکی انتخابات کے بارے میں اپنے عوام کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا لیکن ہلیری کلنٹن کی ہار اور ٹرمپ کی جیت کا اعلان پاکستانی حکمرانوں اور عوام کیلئے بھی انتہائی حیران کن تھا۔ ٹرمپ کی جیت کوپاکستانی میڈیا نے امریکی عوام بالخصوص ہلیری کلنٹن کے حامیوں کیلئے دوسرا 9/11 قرار دیا۔ یہ تمام باتیں حقائق اور عوامل اپنی جگہ لیکن ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد اب یہ امر پاکستانی حکومت کیلئے بے حد اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو جتنی جلدی ممکن ہو از سر نو ترتیب دے اگر چہ ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکائو زیادہ تر بھارت کی جانب تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اولین ترجیحات میں امریکہ کے اندرونی مسائل شامل ہوں گے۔ جن میں وہاں پر بڑھتی ہوئی بے روز گاری سب سے اہم مسئلہ ہے ایسے حالات میں جب ٹرمپ کی توجہ امریکہ کے داخلی امور حل کرنے کی جانب رہے گی۔ اس عرصے میں پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ روس، ایران، افغانستان ، کوریا، چین اور ترکی سمیت بہت سے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بہتر بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں او آئی سی کی ممبر ریاستوں سے بھی اپنے روابط کو دوستانہ ہی نہیں مثالی بنانا شامل ہونا چاہئے اور افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات انتہائی مستحکم اور خوشگوار بنانا ہوں گے گو کہ پاکستان کے سعودی عرب ، قطر، بحرین، یمن ، اومان اور متحدہ عرب امارات سمیت تقریباً سبھی عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں لیکن انہیں بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ میں مقیم مسلمان بالخصوص پاکستانی بے حد خوفزدہ ہیں ۔9/11 کے بعد امریکہ میں مقیم پاکستانی بالکل اسی طرح پریشان اور بے چینی کا شکار تھے جس کیفیت کا شکار وہ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ہیں اور چونکہ ٹرمپ کے صدر امریکہ ہونے کو بھی 9/11 تصور کیا جا رہا ہے اس لیے پاکستانی ایک بار پھر امریکہ چھوڑ کر اپنا سرمایہ پاکستان میں منتقل کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت پاکستان کو انتہائی ذمہ داری اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سرمایہ پاکستان میں لانے والوں کیلئے مراعات کا اعلان کر دینا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے ناصرف امریکہ سے واپس پاکستان آنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ برسہا برس سے دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی اپنا سرمایہ پاکستان میں لانے کی ترغیب ملے گی اور یقینا ایسا کرنے سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔ ٹرمپ کے انتخابی نعروں کے حوالے سے بالخصوص خارجہ امور پر انہوں نے جو بیانات دیئے ہیں ان پر عمل کرنا ان کیلئے انتہائی مشکل ہوگا جس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے انتخابی نعروں میں امریکہ میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری کا بارہا ذکر کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بے روز گاری ختم کر دیں گے ٹرمپ کی جیت میں کم پڑھے لکھے امریکیوں نے بھی کردار ادا کیا اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا سامنا امریکہ کو 9/11 کے واقعہ کے بعد سے کرنا پڑ رہا ہے ۔ ٹرمپ نے امریکی صدارت کے منصب کے حصول کیلئے اپنی انتخابی مہم میں کم پڑھے لکھے ان امریکیوں سے روز گار فراہم کرنے کے وعدے کیے ہوئے ہیں جو امریکی حکومت سے ہمیشہ احتجاج کرتے رہے کہ انہیں نظر انداز کر کے تارکین وطن کو نوکریاں دی جاتی ہیں۔ اب اکثریت میں شمار کیے جانے والے بے روز گار امریکیوں نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ منتخب ہونے کے بعد یہ امید باندھ لی ہے کہ انہیں ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دی جائیں گی لیکن دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ ری پبلکن پارٹی کے ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد صرف بے روز گاری ختم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے یا سرمایہ کاروں کو بھی ساتھ ملا کر چلنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن بے روز گاری کا خاتمہ اور امریکہ میں سرمایہ کاری کے عمل کو آگے بڑھانا ٹرمپ کیلئے ایک بڑا امتحان ہوگا دوسری جانب پاکستانی حکومت کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ بھارت سے اپنے کشیدہ تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرمپ حکومت سے تعلقات استوار کرنے پر خصوصی توجہ دے اسکے علاوہ حکومت پاکستان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ امریکہ میں اپنے سفارت خانے کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ان لابیز کو بھی متحرک کرے جو پاکستان دوست ہیں اور ہمارے ملک کی خیرخواہ ہیں ۔ پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا کہ ایسے وقت میں جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی نعروں میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے جیسے بیانات دے چکے ہیں وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو جو پچھلے کچھ عرصہ سے سرد مہری کا شکار ہیں بہتر کرے اگر چہ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ماضی میں ری پبلکن پارٹی کے منتخب امریکی صدور پاکستان کے زیادہ قریب رہے ہیں لیکن ٹرمپ قدرے مختلف امریکی صدر ثابت ہوں گے ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی بے حد ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ڈیمو کریٹس کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی شکست پر بے حد رنجیدہ ہیں کیونکہ امریکہ میں صدارتی انتخابی عمل کے آغاز پر ہی انہوں نے اپنی پارٹی کے چیئرمین کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ہیلری کلنٹن کے صدر امریکہ منتخب ہونے کے بعد ہم امریکہ میں بہتر لابی کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔


.
تازہ ترین