• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ کی کامیابی کوئی اتفاقی واقعہ یا "حادثہ " نہیں ہے۔ امریکہ میں داخلی مسائل کو سمیٹنے کی غرض سے عالمی حکمت عملی کو تشکیل دیا جاتا ہے۔ لہٰذا طویل عرصے سے ان موضوعات پر مباحثے ہو رہے تھے کہ آیا سرد جنگ کے زمانے کے ماضی بننے کے بعد بھی امریکہ کی خارجہ حکمت عملی سابقہ ڈگر پر ہی روا رہنی چاہئے یا عالمی حکمرانی کو برقرار بلکہ مزید توانا کرنے کی غرض سے حکمت عملی میں جوہری تبدیلی وقوع پذیر ہونی چاہئے یا کم از کم اتحادیوں کو ایسی تبدیلی کے خوف میں مبتلا کر کے مقاصد کو زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ وزن رکھتی ہے کہ ناتجربہ کار ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے تجربے کا فقدان کوئی نیا گل ہی نہ کھلا دے۔ پھر ان کی انتخابی مہم کے دوران Never Trump Campaign کے سبب سے یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی کابینہ بھی بہت تجربے کار افراد پر مشتمل نہیں ہو گی۔ لیکن سینیٹر باب کروکر کے وزیر خارجہ بننے کے امکانات سے یہ تصور کم از کم وزارت خارجہ کے حوالے سے درست نہیں ہو گا۔ وہ اس میدان میں عرصے سے موجود ہیں۔ آج سے چند سال قبل باب کروکر دیگر تین امریکی سینیٹر صاحبان کی قیادت کرتے ہوئے ایک وفد کی صورت میں پاکستان آئے۔ میری اور بیگم تہمینہ دولتانہ صاحبہ کی ملاقات امریکی سفارتخانے کی دعوت پر دوپہر کے کھانے پر ان افراد سے ہوئی۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کی معلومات بہت بہتر تھیں اور وہ معاملات کو سمجھنے کے لئے تیار بھی تھے۔ اس وقت سے اب تک کے تعلق اور مشاہدے کی بنیاد پر مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ان کے وزیر خارجہ بننے کے بعد پاکستانی مسائل سے آشنا شخص وہاں پر فیصلہ سازی میں شامل ہو گا۔ اس کے لئے ہمارے مسائل سے اجنبیت نہیں ہو گی۔
جہاں تک مسئلہ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا ہے تو ان کے حوالے سے یہ بالکل درست کہا جار ہا ہے کہ ان کی حکمت عملی کے حوالے سے کوئی پیشنگوئی کرنا ذرا مشکل ہو گاکہ وہ عالمی معاملات میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی آمد سے بنیادی طور پر امریکہ کے جنگ عظیم دوئم کے بعد سے اب تک کے اتحادی یقینا شش و پنج میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی انتخابی مہم کے دوران بنیادی طور پر تین نکات کے حوالے سے بیان کی۔
اول یہ کہ امریکہ کو موجودہ اس کے اسٹرٹیجک اتحادیوں نے دھوکہ دیا ہے ۔ لہٰذا امریکہ کو اس معاملے کو ازسر نو دیکھنا چاہئے۔ آزادانہ تجارت کے تصور کی انہوں نے کھل کر مخالفت کی ہے اور انتہائی اہم تیسرا نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں طاقتور شخصیات کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بالخصوص روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے حوالے سے ان کے خیالات عالمی منظر نامے کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یورپ گزشتہ سات دہائیوں سے امریکہ کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ جب ٹرمپ اس نوعیت کے اتحادوں کی مخالفت کرتے ہیں تو سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہونا یورپ کے لئے ایک فطری امر ہے۔ طاقت ور شخصیت کی حمایت کے تصور سے یہ معاملہ زیر گردش ہے کہ ٹرمپ یورپ میں امریکی مفادات کو اپنے عشروں پر محیط اتحادیوں کے اثر سے نکال کر پیوٹن سے براہ راست طے کرنے کی جانب چل سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے ان مذاکرات میں چین کو بھی شامل کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے تو دنیا کے معاملات تین بڑوں کے جن میں امریکہ سب سے بڑا ہو گا کی حد تک صرف طے ہونے کے امکانات بہرحال موجود ہیں۔ اس وقت یورپ ٹرمپ کے صدر بننے کے حوالے سے تین خدشات میں مبتلا ہو چکا ہے کہ یورپ کی سلامتی کی صورتحال کیا ہوگی۔ یورپی تجارت کہاں کھڑی ہو گی۔ اور یورپ جن اخلاقی اقدار کی بنیاد پر یورپ کہلایا جانا پسند کرتا ہے ان کی بقاکے امکانات کیا ہونگے۔ اگر ٹرمپ روس اور چین کے ساتھ براہ راست معاملات طے کرنے گئے اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے کہ فریقین حصہ بقدر جثہ پر راضی ہو گئے تو یورپ کی سلامتی میں روس کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔ ویسے بھی یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ نیٹو کی 45% امداد کو 37% تک لے آئینگے۔ Transtlantic Trade and Investment Partnership صرف تکنیکی بنیادوں تک قائم رہ سکتی ہے۔ مگر مزید توانا ہونے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جائینگے۔ خاص طور پر اس صورت میں اگر امریکہ نے یورپ پر یکطرفہ طور پر High Terrif لاگو کر دیا ۔ اس صورت میں یورپ میں ملازمتوں کے حوالے سے ایک بڑا بحران سامنے آ سکتا ہے۔ وہ مارکیٹیں جو تیزی سے ترقی کر رہی ہیں ۔ کساد بازاری کا شکار ہو جائینگی اور یقیناً یورپ کے لئے سلامتی اور معاشی خطرات سے نبٹنا ایک بڑا چیلنج بن جائے گا۔ کیونکہ روس سے معاملات کی بہتری کی صورت میں بالٹک کی ریاستیں، مالڈووا، یوکرائن، پولینڈ اور جارجیا سخت غیر مستحکم حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے جرمنی کی جانب دیکھے جانے کے امکانات بہت بڑھ جائینگے اور جرمنی کی سربراہی میں یورپ ایک اور حل کی جانب جانے کا طریقہ کار اختیار کر سکتا ہے۔ مگر اگر تینوں بڑے ممالک حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر کسی شراکت داری پر راضی ہو گئے تو یورپ سے لیکر آسٹریلیا ، جنوبی کوریا اور جاپان تک صورتحال میں فرق آ جائے گا۔ بھارت بھی جو پینگیں بڑھا رہا ہے اس کے پیچھے چین کے ممکنہ مزید عروج کا خوف موجود ہے۔ اگر یہ معاملہ کسی طرح حل ہو گیا تو بھارت کی خواہشات علاقائی تھانیدار بننے کی تربیت سے پہلے ہی آنجہانی ہو جائیں گی۔ مشرق وسطیٰ میں بھی مزید توڑ پھوڑ کا بھی امکان موجود ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے لازم ہے کہ وہ واشنگٹن ہو ، ماسکو یا بیجنگ وہاں پر اپنے گھوڑے اور تیز دوڑا دے۔ کیونکہ اگر ہماری بات ان ممالک تک درست طریقے سے پہنچا دی جائے تو چاہے صدر کوئی بھی ہو ہم اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں گے۔ ورنہ پریشانی کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔


.
تازہ ترین