• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے حد عام سا منظر ہے۔ ہم سب نے بیسیوں بار دیکھا ہے۔ بڑے شہروں میں مخصوص جگہوں پر مزدور پیشہ لوگ صبح ہی صبح اوزاروں سمیت آ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ جسے ضرورت ہو دیہاڑی پر لے جائے۔ ان کی آنکھیں ہر آنے جانے والے کا تعاقب کرتی ہیں اوروہ ہر گاڑی کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہیں کہ شاید ان کے لئے دیہاڑی کا سندیسہ لے کر آئی ہو۔ یوں کچھ خوش نصیبوں کو کام بھی مل جاتا ہے، مگر اکثریت کے حصے میں مایوسی آتی ہے۔ 10/11 بجے کے بعد جب آس ٹوٹ جاتی ہے تو ان کے چہروں کا کرب دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے ایک ایسے ہی پوائنٹ پر ایک گاڑی آ کر رکی، ڈگی کھلی اور ایک شخص نے مزدوروں میں دال روٹی تقسیم کی۔ اور پھر جیب سے سو کے نوٹوں کی گڈی نکال کر ایک ایک نوٹ بھی ان کی ہتھیلی پر رکھنا شروع کر دیا۔ صوابی کے نوجوان پختون کو نوٹ تھمانا چاہا، تو اس کے ردعمل نے راہ چلتوں کے قدم روک لئے ۔ شدتِ جذبات سے بھرائی آواز میں وہ پوری قوت سے چلایا ’’مجھے تمہاری اس سخاوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں مزدور ہوں، بھکاری نہیں۔ روٹی بھی صرف اس لئے لے لی کہ مزید فاقے کی سکت نہیں تھی۔‘‘ پھر پولی تھین میں لپٹا ایک کاغذ دکھا کر کہنے لگا، پشاور یونیورسٹی کا دس برس پرانا گریجویٹ ہوں۔ نوکری نہیں ملی تھی اور اب مزدوری کے دروازے بھی بند ہو گئے۔ پھر اٹھا اور ایک طرف کو چل دیا۔
ہمارے حکمرانوں کو آقا و مولیٰ ؐ کا ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ والا فرمان تو یاد ہو گا کہ سرکار دو جہاںؐ نے ایک شخص کے غیر معمولی طور پر سخت اور کھردرے ہاتھ اس لئے چوم لئے تھے کہ وہ رزق کی خاطر پتھر توڑتا تھا۔ یہ محنت کش، یہ مزدور، یہ کسان اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ ان پر رزق کے دروازے بند نہیں ہونا چاہئیں۔ ان کیلئے وطن عزیز میں سب کچھ ہے، مگر افسوس کہ مقتدر حلقوں کی اپنی بھوک ہی نہیں مٹتی، ایسے میں وہ کسی اور پر کیا دھیان دیں گے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ اس پوتر دھرتی کے 95% وسائل 5% نام نہاد اشرافیہ کے قبضے میں ہیں، جبکہ 95% غریب غربا کو محض 5% پر ٹرخا دیا گیا ہے۔ خدانخواستہ قلت ہوتی تو اور بات تھی، یہاں تو سب کچھ ہوتے ہوئے ظلم و تعدی کی انتہا کر دی گئی ہے۔ یہاں بلیک منی کے انبار ہیں۔ اربوں ڈالر کا دھن باہر کے بنکوں میں پڑا ہے۔ جتنی امپورٹ ہے اتنی ہی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ جس قدر ٹیکس مل رہا ہے اس سے چار گنا چوری ہو رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں اور ان میں بھی زیادہ تعداد ملازمین سرکار کی ہے۔ ریٹیل، پراپرٹی، زراعت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ جو دیتے بھی ہیں، وہ بھی گویا قوم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ 5/10 ہزار روپے سالانہ کا دان کرنے والوں کا اپنا لائف اسٹائل عرب شیوخ کو شرماتا ہے۔ ان کے جہاز، لگژری گاڑیوں کے فلیٹ، دنیا بھر میں پھیلے بزنس اور جائیدادیں عام آدمی کو حواس باختہ کر دیتی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران چار ارب ڈالر کی پراپرٹی پاکستانیوں نے صرف دبئی میں خریدی ہے۔ مٹھی بھر یہ لوگ باقاعدہ منصوبے کے تحت وطن عزیز کے وسائل کو تیزی سےنگلتے جا رہے ہیں۔ ملک کے ہر بڑے شہر میں ایکڑوں کے گھر ان کے لئے چھوٹے پڑ گئے ہیں اور سیکڑوں / ہزاروں ایکڑ کے حساب سے زرعی زمینوں پر فارم ہائوسز کے نام پر قبضے جمائے جا رہے ہیں۔ اربوں روپے کی جائیدادیں تحفے میں دی جا رہی ہیں۔ کاغذوں میں نام کسی اور کا ہے اور حقیقی مالک کوئی اور ہے۔ تعمیراتی صنعت کے نام پر جو ایک بھونچال سا برپا ہے اور وطن عزیز کو دبئ، پیرس اور سنگاپور بنانے کی جو باتیں ہو رہی ہیں، اس سے فیضیاب ہونے والے بھی یہی مخصوص لوگ ہیں۔ عام آدمی شہر تو کجا کسی ویرانے میں بھی دو مرلے کے گھر کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ان فائیو اسٹار لٹیروں کی جائیدادیں، کاروبار اور اولادیں ملک سے باہر ہیں۔ پاکستان سے ان کا رشتہ محض حکمران کا ہے۔ سو وہ یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ جس دن انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی بادشاہتیں انجام کو پہنچ رہی ہیں، تو وہ اس سر زمین پر ایک دن بھی نہیں رکیں گے۔ خالی ہاتھ بھی جانا پڑا تو چلے جائیں گے کیونکہ باہر کے اثاثے ان کی سو نسلوں کیلئے بھی بہت کافی ہیں۔ یہ ماشا اللہ دیندار لوگ ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی غلامی کے دعویدار بھی۔ کیا انہیں تبوک کا معرکہ یاد نہیں؟ جو آقا و مولیٰ ؐ کی حیات مستعار کا آخری معرکہ تھا۔ ایک بڑی مہم، جسے کامیاب بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل کی ضرورت تھی۔ چنانچہ دربار رسالتؐ سے اپیل ہوئی کہ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالے۔ لوگ دیوانہ وار گھروں کی جانب لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کے صحن میں مال و اسباب کا ڈھیر لگ گیا۔ جو بھی آتا، آپؐ دریافت فرماتے، کیوں بھئی کس قدر لائے ہو؟ کسی نے چوتھائی کہا تو کسی نے تہائی اور کسی نے نصف۔ جب صدیق اکبرؓ کو لدے پھندے آتے دیکھا تو جناب رسالت مآبؐ نے یہی سوال ان سے بھی کیا۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، جو کچھ گھر میں تھا سب سمیٹ لایا ہوں۔ فرمایا: گھر والوں کیلئے بھی کچھ چھوڑا؟ عرض کیا نہیں میرے آقا، ان کیلئے اللہ اور اس کا رسولؐ ہی کافی ہے۔ حضور سرور کونینؐ کی محبت کا دم بھرنے والو اور صحابہ کرام کی غلامی کے دعویدارو! ہم آپ سے سارا نہیں مانگتے، آدھا بھی نہیں، شاید تہائی بھی نہیں۔ خود ہی منصف بن جائو اور جو کچھ اس بد نصیب ملک و ملت کا لوٹا ہے، اللہ کو حاضر ناظر جان کر صرف وہی لوٹا دو، ہم کیا ہماری نسلیں بھی آپ کی ممنون ہوں گی۔ تبوک کے وقت اگر ریاست مدینہ خطرے میں تھی، تو آج اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر لی گئی یہ مملکت بھی ڈانواں ڈول ہے۔ قائداعظم کے پاکستان پر حکمرانی کرنے والو! کیا آپ کو یاد نہیں کہ انہوں نے اپنی کروڑوں / اربوں کی جائیداد فیملی اور فلاحی مقاصد کیلئے عطیہ کر دی تھی اور ان کے دست راست نوابزادہ لیاقت علی خان نے انڈیا میں چھوڑے اثاثوں کا کلیم تک داخل نہیں کرایا تھا۔
بعض حلقے کہہ رہے ہیں کہ ملک ان گورن ایبل ہو گیا۔ جناب وزیراعظم بھی فرما چکے کہ وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں رہی۔ ناقابل حکمرانی والا خطرہ تو الحمد للہ ٹل گیا۔ ہماری سپاہ نے سیاست کی راہ کے بہت سے کانٹے چن لئے۔ مگر یہ حادثہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے کیونکہ قابضین Haves اور محرومین Have nots کی تقسیم بہت گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہوئی تو معاملہ ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے۔ اب تک تو لوگ ہر ظلم و زیادتی کو قسمت کا لکھا جان کر صبر شکر کرتے رہے۔ مگر اب انہیں احساس ہو چکا ہے کہ یہ سب توا نہیں زندگی کی دوڑ سے باہر رکھنے کی سازش ہے۔ اب ان میں یہ پوچھنے کی ہمت پیدا ہو چکی ہے کہ ہمارے شب و روز فٹ پاتھ پر، یا آدھ مرلے کی کھولی میں بیت رہے ہیں، تو ہزاروں کنالوں کے فارم ہائوسز تمہارے استعمال میں کیوں ہیں؟ ہمیں ایک کٹیا بھی بمشکل میسر ہے، تو تمہارے دنیا بھر میں پھیلے محلات کہاں سے آ گئے؟ ہم دِق، دمے، فالج اور ہیپاٹائٹس میں بھی مبتلا ہوں تو کوئی پوچھنے والا نہیں، تو تم کھانسی کے علاج کیلئے لندن کیوں بھاگے جاتے ہو؟ میرے بچے کے اسکول میں مویشی بندھے ہیں اور استاد ندارد، تو تمہاری اولادوں کیلئے ایک سے ایک بڑھیا ادارہ اور باہر کی جامعات کیوں؟ میرا بیٹا اچھی بھلی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد بھی سڑک چھاپ ہے، تو تمہارا میٹرک فیل بھانجا، بھتیجا ایک بڑے قومی ادارے کا سربراہ کیونکر بن جاتا ہے؟ غرض اب لوگ سوال اٹھانے لگے ہیں کیونکہ ان کی آنکھوں سے پٹی اتر رہی ہے اور ذہنوں پہ لگے جالے صاف ہو رہے ہیں۔ وہ تو اہل دانش سے بھی استفسار کر رہے ہیں کہ سچ تو ایک اور فقط ایک ہوتا ہے، ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر اور لاریب۔ تم آج تک اپنا اپنا سچ بیان کر کے علمی بددیانتی کے مرتب کیوں ہوتے رہے؟ میں نے تو آپ کی جانب کلیئریٹی کیلئے دیکھا تھا۔ آپ مجھے کیوں کنفیوژ کرتے آئے ہو؟
تازہ ترین