• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔ قومی انتخابات میں آپ نے سب سے زیادہ نشستیں لیں اور حکومت بنانے کے حقدار ٹھہرے۔ یہ بھی درست ہے کہ صوبائی انتخابات میں پنجاب کا معرکہ آپ نے مارا اور سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ آپ کے نام ہوا۔یہ بھی غلط نہیں ہے کہ قریباََ ہر ضمنی انتخاب آپ نے جیتا اور دوسرے صوبوں میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی میدان آپ کے ہاتھ رہا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ آپ کی حکومت دھرنے جیسے کٹھن مرحلے سے پاک اور پوتر ہو کر نکل آئی۔ فوج کے ساتھ بھی معاملات درست چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی قومی پارٹی کی حیثیت کھو چکی ہے۔ تحریک انصاف اپنے مسائل میں گھری ہے۔ اب نہ کوئی مضبوط اپوزیشن ہے نہ کوئی برابر کی مقابل حریف جماعت ۔ نہ کوئی مارشل لاء کا خوف ہے نہ بیرونی سازش کا امکان ۔نہ صوبائی حکومتوں کا ڈر ہے نہ مقامی حکومتوں سے کوئی اندیشہ ۔ اب آپ کو حکم دینے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔اب آپ کے فیصلے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ مان لیا ، مان لیا۔ اب آپ مطلق العنان ہیں ، فیصلہ کن ہیں ، حاکم ہیں۔سوچنا صرف اس بات پر ہے کہ یہ جو برتری آپ کا نصیب ہے اس میں آپ کا کمال کتنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اب واحد امید آپ رہ گئے ہیں ۔ کیا لوگ آپ کے طرز حکمرانی سے اس قدر خوش ہیں کہ انہیں آپ کے سوا کچھ نہیں نظر آتا۔کیا آپ کی امور سلطنت میں مہارت اتنی بے مثال ہے کہ اس ملک کے عوام کی امید آپ رہ گئے ہیں؟ کیا آپ کے وزیر اتنے باتدبیر ہیں کہ ان سا دانشمند ، فہیم اور زیرک کوئی اور عوام کو دکھائی نہیں دیتا۔ کیا کرپشن ، اقربا پروری ، رشوت ستانی آپ کے دور میں ختم ہو گئی ہے؟ کیا آپ کے اقتدار کے خوف سے پولیس کے جوان فرشتہ بن گئے ہیں؟ کیا غربت کی داستانیں مٹ گئی ہیں؟ کیا ظلم اب اس دھرتی پر نہیں ہوتا؟
لوگ اب بھی تلاش میں ہیں، منتظر ہیں ۔ راہ دیکھ رہے ہیں ۔اس مسیحا کی جو انکے دکھ درد بانٹ لے۔ جو حق کی بات کرے ۔ انصاف کو پیش نظر رکھے۔عدل کو اسلوب بنائے۔ غربتوں کو مٹائے۔ جس کے ظہور سے زندگی آسان ہو جائے۔ایسا دور ہو جہاں انسان پر حیات دشوار نہ ہو جائے۔ موت عذاب نہ ہو جائے۔ بدقسمتی اس ملک کے عوام کی یہ رہی ہے کہ سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو مٹی کر دیتے ہیں۔ ہر حکمران سے بھلائی کی امید لگاتے ہیں بھلائی نہیں ملتی۔ بھٹو ہوں یا بے نظیر ۔ آپ کی ذات ہو یازرداری کا دور اقتدار ۔ نگران حکومت ہو یا کوئی آمر ۔عمران خان ہو یا دینی جماعتیں۔ پیاسے لوگوںکوزندگی میں سکون کی ایک بوندنہیں ملتی۔ حالات ہیں کہ پہلے سے کٹھن ہوتے جاتے ہیں۔ ناانصافی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ ظلم ہے کہ رکتا نہیں ہے۔ فلاح ہے جو ملتی نہیں ہے۔بتانے کی بات صرف اتنی ہے کہ لوگوں نے آپ کو مقام عطا کیا ۔ برتر بنا دیا لیکن یہ نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشوں اور امیدوں کی انتہا ہیں۔ اگرایسا ہوتا تو تحریک انصاف قومی انتخابات میں لاکھوں ووٹ کیسے لیتی؟ اگر آپ ہی واحد تمنا ہوتے تو لاہور کے ضمنی انتخاب میں اتنا سخت مقابلہ کیسے ہوتا۔ اگر آپ ہی کی چاہت دلوں میں بس رہی تھی تو بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوار اس بڑی تعداد میںکامیاب نہ ہوتے۔ اگر آپ ہی حرف آخر ہوتے تو دھرنے کے وقت لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع نہیں ہوتے۔ اگر قومی لیڈر کے منصب پر آپ ہی فائزہوتے تو آپ کے خلاف لگنے والے نعروں میں اتنی قوت نہ ہوتی ۔ سچ تو یہ اس تمام برتری کے باوجود موجودہ حکمران لوگوں کا پہلا انتخاب نہیں ، لوگوں کی مجبوری ہیں ۔ مصلحت ہیں۔ ابن الوقتی ہیں۔ اب بھی لوگ تلاش میں ہیں ان سے بہتر کی، ان سے برتر کی۔مسئلہ یہ ہے ابھی یہ حکمران اس لئے ہیں کہ لوگوں کو فی الحال ان سےبہتر کوئی میسر نہیں ۔ جیسے ہی ایسا فرد یا جماعت سامنے آئی تو یہی لوگ جو آج مطیع بنے ہوئے ہیں ، بیعت کر کے بیٹھے ہیں ۔ یہ سب لوگ کھڑے ہو جائیں گے۔ طوفان بن جائیں گے۔ خس وخاشاک کی طرح سب کو بہا لے جائیں گے۔
مطلق العنان ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اردگرد کی چیزیں ہیچ نظرآنا شروع ہو جاتی ہیں ۔لوگ کمتر اور انکے مسائل کمین دکھائی دینے لگتے ہیں۔ سامنے کا منظر دھندلا جاتا ہے۔ نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بات سچ نہ ہوتی تو آج لوڈ شیڈنگ کے عفریت سے عوام کو نکالنے کی کوئی تو کوشش کی جاتی۔ نندی پور پروجیکٹ ہائی اکٹین سے نہ چلایا جاتا۔ کوئی تو بند بنتا کسی ڈیم کا افتتاح ہوتا۔ اگر آپ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے تو ساری دنیا میں پٹرول کی قیمت اتنی کم ہونے کے بعد ہمارے ہاں پھر قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ اگر برتری کا خمار نہ ہوتا تو بجلی کی قیمت اس حد تک نہ بڑھتی۔ اگر عظمت کا فتور اس طرح سر چڑھ کر نہ بولتا تو پنجاب میں پولیس اس طرح دن دیہاڑے ظلم نہ ڈھا رہی ہوتی۔ اگر عظمت کابخار اترتا تو اشیائے صرف کی گرانی کی طرف توجہ ہوتی۔ اگر فاتح کی نظر سے عوام کو نہ دیکھتے تو پتہ چلتا کہ بے روزگاری کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ نوجوان کس قدر مجبور ہو چکے ہیں۔صحت عامہ کے مسائل آپ کے اقتدار کومنہ چڑا رہے ہیں ۔ تعلیم کی زبوں حالی آپ پر مسکر ا رہی ہے۔ ٹریفک کا نظام آپ کا منہ چڑا رہا ہے۔اس ملک کے عوام کی غربت آپ کے عہد کا تمسخر اڑا رہی ہے۔ تھانوں میں ذلیل ہونے والے لوگ آپ کے دور حکومت پر طعنہ زن ہیں۔ اسپتالوں میں بنا دوا کے مرنے والے آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ مگر آپ مگن ہیں اپنی برتری کے زعم میں ۔ اپنےاقتدار کے ترنگ میں۔ جب کوئی مخالف نہیں ہوتا ، جب سب حریف شکست کھا بیٹھتے ہیں۔ جب مقابل کوئی نہیں رہتا تو تاریخ گواہ ہے کہ پھر رخنے اپنے گھر کی دیوار میں پڑتے ہیں۔ وزارت بجلی و پانی کے اختلافات اور بلدیاتی انتخابات میں فیصل آباد کا حال حکمرانوںکو یہ سمجھانے کے لئے بہت کافی ہے۔
بس اتنی عرض یاد رکھیئے کہ لوگ منتظر ہیں ۔ انتظار کر رہے ہیں اس شخص کا ، اس لیڈر کا، اس جماعت کا، اس نئی قوت کا ،جس کا ابھی ظہور نہیں ہوا۔ جیسے ہی لوگوں کو اپنا مسیحا مل گیا تو لوگ ایک لمحے میںبتا دیں گے کہ آپ انکا پہلا انتخاب نہیں۔ صرف آپ ہی چمکتے ہوئے آفتاب نہیں۔
تازہ ترین