• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے ایک جھلک اپنے گزرے کل کی !
یہ تب کی بات ہے کہ جب یوسف رضا گیلانی حکومت اور زرداری صاحب صدارت سنبھال چکے تھے ،گرمیوں کا موسم ، رات 10بجے کا وقت اور ہوٹلنگ کنگ صدر الدین ہاشوانی کا گھر ۔ پیپلز پارٹی کے وہ وزیرجن کا سیاسی قد بی بی کے مرتے ہی عالم چنا سے بھی لمبا ہوچکا تھا وہ ایک بار پھر بن بلائے ہاشوانی صاحب کے گھر آگئے ۔ گزشتہ 5دنوں میں یہ ان کا تیسرا پھیرا تھا اور ان پھیروں کا مقصد تھا صدرالدین ہاشوانی کو اپنے ساتھ بزنس کیلئے راضی کرنا ۔ پچھلی دونوں دفعہ کئی آفرز دے کر بھی ناکام لوٹنے والے وزیرموصوف رسمی علیک سلیک کے بعد تازہ جوس کا کہہ کر نائٹ سوٹ میں قہوہ پیتے ہاشوانی صاحب کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہی مطلب پر آگئے ’’ صاحب سخت ناراض ہیں ، اُنہوں نے کہا ہے کہ ہاشوانی کو سمجھاؤ کہ اونٹوں والی ضد چھوڑدے،ہماری بات نہ مان کر پچھتائے گااور ہاشوانی کو بتاؤ کہ ہم اسے تیل کے 2 وہ کنوئیں دے رہے ہیں جن کا اوجی ڈی سی ایل نے سروے سمیت سب بنیادی کام کر لیا،یعنی Proven Reservesبس جا کر تیل نکالنا ہے اور کام چھوٹا سا مگر منافع آدھا آدھا‘‘۔ وزیر صاحب کی بات مکمل ہوئی تو ہاشوانی صاحب بولے ’’ اگر میں کاروباری بن کر سوچوں تو آپکی سب آفرز ایسیں کہ کوئی بے وقوف ہی Rejectکرسکے لیکن چونکہ میں جانتا ہوں کہ ان آفرز کو قبول کرنے کا مطلب اپنے ملک سے بے ایمانی اور یہ میں نہیں کر سکتا‘‘جونہی ہاشوانی صاحب بات کرتے کرتے رُکے تو ایک ہی سانس میں جوس کا گلاس پی کر اب ہونٹوں پر ٹشو پھیرتے وزیر صاحب ہاشوانی صاحب کے قریب ہو کررازدارانہ لہجے میں بولے ’’بھائی جان کچھ کما لیں، چھوڑیں ملک شُلک کو ، پتا نہیں اس نے رہنا بھی ہے یا نہیں ‘‘ پلیز اس سے آگے ایک لفظ بھی نہ کہنا ،انتہائی غصے میں بات کاٹ کر ہاشوانی صاحب نے ہڑبڑاتے وزیر صاحب کو ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کا کہہ کر اپنی بات جاری رکھی ’’آپ کا تو پتا نہیں مگر میرا ملک ہمیشہ سلامت رہے گا ،اپنے صاحب کو بتادیں کہ مجھے اونٹ بننا منظور ہے مگر چور نہیں ‘‘۔ اِدھر یہ میٹنگ ختم ہوئی اور اُدھر صدرالدین ہاشوانی کو اس انکار پر سزا ملنا شروع ہوگئی اور اگلے پانچ سال تک ملتی رہی ۔
اب ایک نظر اپنے آج کے رکھوالوں پر !
میاں نواز شریف کا دوسرا پچھلاحکومت ، اپنے ملک کے ایک بڑے بزنس مین کے بیٹے کو ایک شام واشنگٹن میں جب پتا چلا کہ بل گیٹس 35ملین ڈالر کی لاگت سے ’’مائیکرو سافٹ یونیورسٹی ایڈوانس ٹیکنالوجی لیب پروگرام‘‘ پاکستان میں لانچ کرنا چاہتے ہیں مگر انڈین لابی یہ منصوبہ بھارت لے جارہی ہے تو اس نوجوان کے دل میں وطن کی محبت جاگی ، یہ کسی نہ کسی طرح مائیکرو سافٹ کے ایشیاء کے ہیڈ سے ملا اور جب مائیکرو سافٹ کے ایشین ٹیم لیڈر نے کہا کہ ’’ پاکستان میں چونکہ نقل اور جعل سازی عام ہے اور کوئی مؤثر قانون بھی نہیں لہذا اگر حکومتِ پاکستان تحریری ضمانت دیدے کہ Piracyکے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی تو ہم یہ یونیورسٹی پروگرام پاکستان میں لانچ کرسکتے ہیں‘‘ ۔ حکومت ِپاکستان سے ایک ماہ میں تحریری ضمانت دلوانے کاوعدہ کرکے اِس نوجوان نے اگلے ہی دن وطن واپس پہنچ کر جب حکومتی دروازے کھٹکھٹانے شروع کئے تو پتا چلا کہ وزیراعظم کے پاس وقت نہیں، وزیروں کو فرصت نہیں اور بیوروکریسی کو دلچسپی نہیں ، خیر ہفتہ بھر کے دھکوں کے بعد یہ وفاقی وزیر ہمایوں اختر سے ملا اور سب سن کر ہمایوں اختر نے کہا ’’احسن اقبال سے ملو یہ پروجیکٹ ان کی وزارت سے متعلق ہے‘‘ ،پھر 5دنوں کی خواری کے بعد جب اسکی ملاقات دوسرے وزیر صاحب سے ہوئی تو پوری کہانی سن کر انہوں نے فرمایا ’’ اگر بل گیٹس مجھے خط لکھے تو پھر یہ گارنٹی دی جاسکتی ہے،یہ لاجواب جواب سن کر یہ نوجوان پھٹ پڑا ’’سر کیا مطلب بل گیٹس آپکو خط لکھے ، آپکو اندازہ ہے کہ آپکے صرف ایک خط سے ملک میں انقلاب آسکتا ہے ‘‘ مگر یہ کہہ کر میٹنگ برخاست کر دی گئی کہ’’ ہمیں سکھانے کی بجائے وہ کرو جو کہا گیا ہے ‘‘ ۔ اس بےعزتی پروگرام کے بعد بھی اس نوجوان کی وطن پرستی نہ مری، اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور پھر 10بارہ دنوں کی کوششوں اور سفارشوں کے بعد اسے جب وہ خط ملا کہ جس میں ایک ڈائریکٹر صاحب نے بل گیٹس کو حکم دیاہواتھا کہ جونہی یہ خط ملے، حاضر ہوجائیں تاکہ آپکی درخواست پر ہمدردانہ غور فرمایا جائے تو آخرکار نوجوان کی ہمت بھی جواب دے گئی یہ خط آج بھی اس نوجوان کے پاس ہے اور آج بھی یہ کہانی سنا کر وہ کہتا ہے کہ وہ خط جسے پڑھ کر مجھے شرم آگئی اگر یہ بل گیٹس کو مل جاتا تو وہ پاکستان کے بارے میں کیا سوچتا ،یہی نوجوان بتاتا ہے کہ ادھرہمارا تو یہ حال تھالیکن دوسری طرف انڈین لابی نے مسلسل لابنگ کے بعد جب سمجھا کہ لوہا گرم ہے تو اپنے وزیراعظم سے بل گیٹس کو ٹیلی فون کروادیا ، بھارتی وزیراعظم نے بل گیٹس کو نہ صرف ہر قسم کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا بلکہ انہیں انڈیا آکر یہ پروگرام خود لانچ کرنے کی دعوت دی اور پھر دو ماہ بعد بل گیٹس نے بھارت جا کر نہ صرف یہ پروگرام لانچ کردیا بلکہ سافٹ ویئر کی تعلیم کیلئے ہر سال 100ملین دینے کا وعدہ بھی کیا ۔بل گیٹس بھارت آیا ،بھارتیوں کے دن پھرے اور آج 10سال بعد نہ صرف ساڑھے 3 لاکھ بھارتی نوجوان امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے، نہ صرف ہندوستان کے ایک شہر بنگلور کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ 80ہزار کروڑ کی بلکہ گوگل استعمال کرنے والوں میں امریکہ سے آگے بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 277ملین افراد ۔
اب ایک نظر ان پر کہ جنہیں ہم اپنا مستقبل سونپنا چاہتے ہیں ۔
وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو افغانستان کے دورے کی دعوت ملی اور دونوں حکومتوں میں طے پایا کہ وفد 7رکنی ہو گا ۔پہلے پروگرام بنا بائی روڈ جانے کا، پھر طے ہوا کہ عام فلائٹ سے جایاجائے ، لیکن آخری لمحوں میں جب فیصلہ ہوا ہیلی کاپٹر پر جانے کاتو سواریاں زیادہ ہونے پر دوسرا اور پھر تیسرا ہیلی کاپٹر منگوالیا گیا اور یوں 7کی بجائے 40رکنی وفد نے کابل ائیرپورٹ پر لینڈ کیا اور لینڈ کرتے ہی انہیں پتا چلا کہ ہیلی کاپٹر عملے کے تو ویزے ہی نہیں لگے ہوئے ، اب ائیر پورٹ پر منت سماجت شروع ہوئی اور گھنٹہ بھر کی منتوں سماجتوں کے بعد ویزے لگے تو ہوٹل پہنچ کر معلوم ہوا کہ افغان حکومت نے تو صرف 7لوگوں کی رہائش کا انتظام کیا ہوا ہے، اب باقی 3درجن لوگوں کی ایڈجسٹمنٹ کیلئے کیا جتن اور کیا پاپڑ بیلے گئے یہ چھوڑیں ،اصل رُولا تو اُس وقت پڑا جب ایک طرف یہ خبر ملی کہ کسی میٹنگ میں بھی 7سے زیادہ افراد شریک نہیں ہو سکتے جبکہ دوسری طرف ہر کوئی ہر میٹنگ میں جانے کا خواہشمند ،لہذا پہلے افغان حکومت سے درخواستیں کی گئیں پھر وفد کی منتیں سماجتیں ہوئیں لیکن جب بات نہ بنی تو پرویز خٹک نے یہ انمول آئیڈیا پیش کیا کہ ’’چونکہ 5چھ میٹنگز ہیں لہذا پہلی میٹنگ میں وہ 6لوگ میرے ساتھ جائیں جو عمر میں سب سے بڑے ہوں پھر اسی ’’عمری ترتیب‘‘ سے اگلی میٹنگ میں اگلے6لوگ اور یوں ہر ایک کو شرکت کا موقع مل جائے گا‘‘ ۔ خیر کسی نہ کسی طرح یہ وقت گزرا تو واپس روانہ ہوتے ہوئے صورتحال تب آؤٹ آف کنٹرول ہوئی جب افغان حکومت نے 7لوگوں کے اخراجات کے علاوہ اضافی ایک دھیلا بھی دینے سے انکار کردیا ، اب اس سے پہلے کہ معاملہ بگڑجاتا پاکستانی سفارتخانے نے ضمانت دی ، ہوٹل انتظامیہ مانی اور یوں کسی معاہدے یا مشترکہ اعلامیے کے بغیر سرکاری خرچ پر آؤٹنگ کیلئے گیا یہ وفد جگ ہنسائی کروا کر واپس پشاور پہنچا۔
یہ سب پڑھ کر اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے نصیب میں ہی یہ سب کیوں یا باقی دنیا میں ایسا کیوں نہیں ہوتا تو قبلہ اس کا جواب یہ ہے کہ باقی دنیا میں یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہاں کا نظام ایسا کہ عمروعیار بھی نہ بچ پائے اور وہاں کا عوامی محاسبہ ایسا کہ اِدھر کسی نے چول ماری ،اُدھر وہ مقامِ عبرت ہوا جبکہ اپنے ہاں یہ اس لئے ہو کہ اپنا نظام ایسا کہ سرِعام چوریاں اور پھر سینہ زوریاں اور عوام کا حال یہ کہ کمزور یادداشتیں اور شخصیت پرست بصارتیں،بھلا کبھی کسی ملک میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ کسی بلاول کے پاسپورٹ یا ووٹ کیلئے علاقے میں کرفیو لگ جائے یا با اثر ملزمان اپنی لینڈ کروزروں پر پیشیاں بھگتیں اور ان کیلئے جیلیں گھر سے بھی زیادہ آرام دہ ہوں ،کیا کہیں ایسا ممکن ہے کہ کوئی قوم اپنے ڈاکٹر عبدالقدیر کے درجنوں امیدواروں کو اتنے ووٹ بھی نہ دے جتنے اکیلے اُس ’’اکوّ ملک‘‘کو ملیں کہ جس پر قتل ، ڈکیتی اور چوری کے درجنوں مقدمات لیکن کیاجلنا اور کیاکڑھنا کیونکہ اسی نظام اور اسی عوام نے بلدیاتی انتخابات میں پھر سے بتا دیا کہ آگے بھی یہاں لوگ جیتیں گے اور نظریئے ہاریں گے اور اسی نظام اور اسی عوام نے انہی انتخابات کے ذریعے یہ بھی سمجھا دیا کہ نہ صرف گزرا کل انہیں قبول، گزرتا آج انہیں منظور بلکہ اسی طرح کا کل بھی چاہئے۔
تازہ ترین