• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ اگر آپ یا آپ کا حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوا ہے تو ہماری طرف سے دلی مبارکباد قبول فرمائیں ۔ آپ جیسے نڈر، بے باک اور دیانتدار نمائندے کا انتخاب عوام میں سیاسی شعور کی اس پختگی کی علامت ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کی صلاحیت سے بہرہ مندہو چکے ہیں ۔ آپ کو منتخب کیا جانا جہاں اس بات کاثبوت ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری روایات مضبوط بنیادوں پر استوار ہو چکی ہیں ، وہاں دنیا پر یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ ہر دو صوبوں میں غیر جانبدار ، صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہوا ہے ۔یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے اور آج اسی کی باتیں کرتے ہیں۔
اگر ان انتخابات میں آپ یا آپ کا حمایت یافتہ امیدوار شکست سے دوچار ہوا ہے تو ہمیں آپ کے ساتھ ہونے والی دھاندلی پر دلی افسوس ہے ۔ دراصل ہمارے ملک میں ابھی جمہوری روایات اور رویے اتنے پختہ نہیں ہوئے کہ ہم مہذب قوموں کی طرح عوامی عدالت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر سکیں ۔ اس کے مقابلے میں یہاں ہر طرح کی ٹھگی ، دونمبری اور جھرلو روا ہے ، ورنہ اس سیٹ کے لئے آپ سے بہتر ،مضبوط اور عوامی امنگوں کا ترجمان امیدوار کوئی نہ تھا۔ دوسری طرف یہ افسوسناک شکست عوا م میں سیاسی شعور کی اس عدم پختگی کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ ابھی تک کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں ۔ آپ کی اس شکست میں منافقت نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ ووٹروں نے آپ کو لارے تو بہت دیئے مگر مہریں مخالف امیدوار کے نشان پر لگائیں ۔ تاہم یہ بھی اس جمہوریت کے حسن کی ایک قاتل ادا ہے کہ آپ شکست سے دوچار ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
ہم لوگ مزاجاً حسن پرست واقع ہوئے ہیں اور اوپر سے جمہوریت کے آفت جاں حسن کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہاہے ۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی …جمہوریت بحال ہوتے ہی ہمارے اندر کی شہنائی بج اٹھتی ہے ۔ پھر اس کوچہ مہ رخاں میں ہر کوئی مرز ایار بنا پھرتا ہے اور اس کافر حسن سے مستفید ہونے کے لئے کشتگانِ وفا اپنا سب کچھ دائو پر لگادیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اس زہد شکن حسن کے سامنے فرشتے بھی اپنی پاک دامنی کا بھرم برقرار نہیں رکھ پاتے اور بے اختیار یہ پکارتے ہوئے پاک سر زمین پر ووٹ ڈالنے پہنچ جاتے ہیں کہ
ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
جمہوریت کی زلف گرہ گیر کا جو بھی اسیر ہوا، اسے جیتے جی رہائی نصیب نہ ہو سکی ۔ خصوصاًایوب خان کی بنیادی جمہوریت ، قبلہ ضیاء الحق کی غیر جماعتی جمہوریت اور حاجی پرویز مشرف نے جمہوریت کو جو 33فیصد مزید حسن کا تڑکا لگا کر نافذ کیا ان پر تو یہ شعر صادق آتا ہے کہ
اس کے بے حجاب ہونے تک
ہم بھی شامل تھے ہوش والوں میں
یہ اس پھیکی اور غیر منافع بخش جمہوریت کا تذکرہ نہیں جو اغیار کے ہاں رائج ہے ۔ یہ ’’شعلہ آفریںحسن یار‘‘ کی باتیں ہیں ، ان پر چکرانے کی کوشش مت کریں ۔ یہ اس جمہوریت کا حسن ہی ہے کہ طاقت کی بجائے ہر مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ریاستی رٹ چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کا بھی مذاکرات کے ذریعے منت ترلا کر کے امن قائم کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔ ایک کالم میں اس بت کافر کے حسن کا مکمل احاطہ ممکن نہیں ،سوفقط اس کی چند ہوشربا ادائیں عرض کی جا رہی ہیں ۔یورو بانڈز کی آڑ میں اس تند خو حسینہ نے کیا گل کھلایا ؟ وزیر خزانہ نے امریکہ میں پانچ سو ملین ڈالرز کے لئے سرمایہ کاروں کے ساتھ جو معاہدہ کیا ، اس کے مطابق دس برس بعد پاکستان پانچ سو ملین ڈالرز پر چار سو دس ملین ڈالرز سود ادا کرے گا۔ ہے کوئی ایسا پتھر دل جو ایسی ادائوں پر فریفتہ نہ ہو؟ گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز 60فیصد تک منافع کما رہی ہیں ۔یہاں آئیسکو ، لیسکو ، فیسکو، پیپکو، گیپکواور پیسکو جیسی حسینائیں عریاں ڈانس کرتی ہیں ۔ نندی پور پاور پر وجیکٹا سکینڈل پرانا ہوکر منوں مٹی تلے دفن ہو گیا ۔ اب حسن یار کی نئی کارستانی دیکھئے کہ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا چوتھا نظر ثانی شدہ تخمینہ منظو رکر کے صارفین سے بجلی کے بلوں میں 274ارب روپے کی بجائے 444ارب روپے وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ نئی آڈٹ رپورٹ 2014-15ء میں انکشاف ہوا ہے کہ نادرا نے کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس فیس کی مد میں شہریوں سے غیر قانونی طور پر ساٹھ کروڑ روپے بٹور لئے ۔ آڈیٹر جنرل نے اسے خلاف قواعد قرار دیتے ہوئے فیس کی وصولی کے لئے باقاعدہ رولز بنانے کی سفارش کی ہے ۔ یہ حسنِ یار کی ادائے مہرباں ہے کہ ایسی غیر قانونی وصولیوں کو خلاف قواعد قرار دے کر باقاعدہ رولز بنانے کے بعد جمہوریت کے عشاق سے رقم ہتھیانے کی اجازت دی جاتی ہے ، ورنہ آمریت میں تو بغیر رولز بنائے ہی شہریوں سے رقوم بٹور لی جاتی ہیں ۔ خود ہم بھی جمہوریت کے اس تیرِ نظر کا شکار ہیں ۔ موٹروے پر ویسے تو دن دیہاڑے بھی چور اور ڈکیت دندناتے پھرتے ہیں لیکن ہمارے بخت پر خاص ستارہ یہ چمکا ہے کہ چکوال کے نزدیکی جنوبی اضلاع سے ڈکیت حضرات راتوں کو آ کر بلکسر انٹر چینج سے نکلتے ہیں اور ہمارے دیہات میں با آسانی ڈکیتی کی پانچ ،چھ وارداتیں کر کے پَو پھوٹنے سے قبل بخیریت اپنے گھروں کو واپس پہنچ جاتے ہیں ۔ چونکہ جمہوریت کا حسن اپنے ان عشاق ڈاکوئوں سے صرفِ نظر کرتا ہے بلکہ کئی بد خواہ تو کہتے ہیں کہ ان کی سرپرستی بھی کرتا ہے ۔لہذا ہمیں اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنا پڑتا ہے اور ہر گھر میں دو تین اسلحہ لائسنس ضرور ہوتے ہیں ۔ ہم اس حسن گردی کا یوں شکار ہیں کہ حکومت کی ہدایت پر گزشتہ چھ سات ماہ سے اپنے گھروں کے کئی پرانے اسلحہ لائسنس کمپیوٹرائزڈ کروانے کے لئے نادرا کے دفاتر میں دھکے کھارہے ہیں ۔ حالانکہ رقوم کب کی ہم سے بٹوری جا چکی ہیں ۔ اب ہم اور کیا کیا بتائیں ؟ آپ خود بھی تو روز ’’حسن یار‘‘ کے جلوے دیکھتے ہیں ، ابھی کل پرسوں ہی تو پٹرول مہنگا اور سی این جی بند ہوئی ہے ۔
حسن یار کے قصے طویل ہیں اور کالم کا دامن تنگ۔ ان فتنہ پردازیوں کے باوجود ہمیں تسلیم ہے کہ جمہوریت جتنی بھی لولی لنگڑی ہو ، اس کا حسن بہرحال چڑیل جیسی آمریت سے بہتر ہے ۔ تاہم ہمارے ہاں چونکہ حسن کے جلوے طیب طبیعتوں کو گراں گزرتے ہیں ۔ لہذا وہ ہر قسم کے حسن ہائے بشمول حسن جمہوریت کو مسلنے کے متمنی رہتے ہیں ، کیونکہ ان کا دال دلیا اسی ’’حسن کشی‘‘ کی بدولت چلتا ہے ۔ جمہوریت کی حسینہ ہمہ وقت ان کی شعلہ بار نگاہوں کی تپش سے کسمساتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ پارسائوں کی محنت رنگ لاتی ہے اور کوئی بھاری بھرکم بوٹ اس حسن کو مسل کر رکھ دیتا ہے ۔ جمہوریت جب بوٹوں کے بوجھ سے ’’آزاد‘‘ ہو کر نکلتی ہے تو اس کا حسن ایسا ہی ’’فتنہ پرداز‘‘ رہ جاتا ہے ، جیسا کہ ہم نے اس کالم میں عرض کیاہے ۔
نوٹ: یہ کالم ہم نے چراغ حسن حسرت کی ایک شہرئہ آفاق غزل سے متاثر ہوکر لکھا ہے ۔ جمہوریت کے تھپیڑوں سے فرصت ملے تو آپ بھی یو ٹیوب پر یہ لافانی غزل ضرور سنیے ،جسے غلام علی نے سروں کے موتیوں میں پرویا ہے کہ ؎
آئو حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی ،رخسار کی باتیں کریں
تازہ ترین