• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب سے 24؍برس قبل پاکستان میں شروع کیا جانے والا نج کاری کا پروگرام متنازع، غیرشفاف، کرپشن و اقرباء پروری کا بڑا ذریعہ اور مجموعی طور پر ناکام اور گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے۔ 1991ء سے 2013ء کے 22؍برسوں میں 169حکومتی اداروں کی فروخت سے حکومت کو 476.5؍ارب روپے کی رقوم ملیں جن کا 76فیصد یعنی 361.4؍ارب روپے 4بینکوں اور پی ٹی سی ایل کی نج کاری سے حاصل ہوئے۔ یہ ادارے نج کاری سے قبل اپنا منافع بڑھا رہے تھے۔ چنانچہ ان کو فروخت کرنے کا کوئی جواز تھا ہی نہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول مثلاً حبیب بینک نے 2000ء میں 1074؍ملین روپے، 2001ء میں 2224؍ملین روپے اور 2002ء میں 4088؍ملین روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھایا تھا یعنی نج کاری سے پہلے بینک کے منافع کی شرح تقریباً 100فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی جبکہ یہ بینک آج کے مقابلے میں کھاتے داروں کو کہیں زیادہ بہتر شرح سے منافع دے رہا تھا۔ 4بڑے بینکوں کی نج کاری کے بعد بینکاری کے شعبے کی پالیسیوں سے معیشت پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ان کی ایک جھلک ہم نے اپنے 10؍ستمبر 2015ء کے کالم میں دکھائی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ نقصان میں چلنے والے حکومتی شعبے کے اداروں سے قومی خزانے کو 400؍ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے چنانچہ ان اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور کچھ کی نج کاری کی جائے گی۔ منشور میں اس بات کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکا جائے گا۔ اگر منشور کے مطابق یہ اصلاحی اقدامات اٹھا ئے جاتے تو موجودہ مالی سال میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف تین ہزار ارب روپے کے بجائے آٹھ ہزار ارب روپے ہوتا۔ اس اضافی رقم کے ایک حصے سے پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے جیسے اہم اداروں کی تنظیم نو کی جاسکتی تھی چنانچہ اول الذکر دونوں اداروں کی نج کاری کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت نے ٹیکسوں کے ضمن میں اپنے منشور کو نظرانداز کرکے قومی اثاثوں بشمول نجی شعبے کو منتقل کئے ہوئے اداروں کے وہ حکومتی حصص بھی غیرملکیوں کو فروخت کرنے کی حکمت عملی وضع کرلی جو حکومت کو پرکشش منافع دے رہے تھے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے 19؍اگست 2013ء کو آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کو لکھے گئے خط میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت متعدد اداروں کی نج کاری کرنے کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی ایک حالیہ میٹنگ میں منظوری حاصل کرلی گئی ہے اور وزیر اعظم سمیت چاروں صوبوں کی قیادت اس فیصلے سے متفق ہے۔ حالیہ میٹنگ کے الفاظ اس لئے لکھے گئے تھے کہ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ پاکستان کو 6.64؍ارب ڈالر کے قرضوں کی شرائط جون 2013ء میں اقتدار میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں منظور کریں۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ حالیہ میٹنگ میں مشترکہ مفادات کونسل نے نج کاری کے اس پروگرام کی منظوری دی ہی نہیں تھی چنانچہ آئی ایم ایف کو دی گئی یہ یقین دہانی حقیقت پر مبنی نہیں تھی۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس غلط بیانی پر عملاً خاموش ہیں اور قومی سلامتی اور قومی مفادات سے متصادم نج کاری کے پروگرام کی رسماً مخالفت کررہی ہیں کیونکہ اگر نج کاری نہ ہوتو صوبوں کو بھی زرعی اور جائیداد سیکٹر پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنا پڑے گا جس کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں پی آئی اے کی نج کاری کرنے کے بجائے اسے خطے کا ممتاز منافع بخش ادارہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اب اس کی نج کاری کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رہنما نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ پی آئی اے کو منافع میں لایا جاسکتا ہے مگر خدشہ ہے کہ اگر 2018ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی برسر اقتدار آگئی تو وہ پھر اس ادارے کو تباہ کردے گی چنانچہ پی آئی اے کی نج کاری ضروری ہے۔ یہ سوچ ناقابل قبول ہے۔ قومی اثاثوں کو غیرملکیوں کے ہاتھ فروخت کرنے سے آنے والے برسوں میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑے گا کیونکہ ان کا منافع سال بہ سال بیرونی کرنسی میں باہر منتقل ہوتا رہے گا۔ ایک اور خدشہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی پہلی جوہری طاقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دشمن بشمول ہندو اور یہودی جو مغربی ممالک کی شہریت رکھتے ہیں آگے چل کر ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ان اداروں کو ان غیرملکی خریداروں سے خرید سکتے ہیں جن کے ہاتھ ہم نے اپنے اثاثے (علاوہ بینکوں کے) گزشتہ 13؍برسوں میں فروخت کئے ہیں یا اب کررہے ہیں۔
قومی اثاثوں کی فروخت سے گزشتہ 24برسوں میں تقریباً 625؍ارب ملنے کے باوجود پاکستان کے قرضوں کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ملک ان قرضوں کو اپنے وسائل سے ادا کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہا۔ امریکہ کو آنے والے چند برسوں میں بھی افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کی مدد کی ضرورت رہے گی۔ اس کے بعد مغربی طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ ہمدردانہ نہیں رہے گا چنانچہ نہ صرف بیرونی قرضوں و امداد میں کمی ہوگی… بلکہ پاکستان آنے والی ترسیلات میں بھی کمی کرائی جاسکتی ہے۔ پاکستان اس جھٹکے کو سنبھال نہیں سکے گا۔ اب سے چند برس قبل پیپلزپارٹی کے دور میں پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ہمیں (اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہوکر) نیٹو کے سامان کی راہداری کھولنے کی جلدی ہے تاکہ پیسے ملنے شروع ہوں۔ ہمیں یونان کے حالیہ بحران سے بھی سبق سیکھنا چاہئے جس میں نجاتی پیکیج دینے کے لئے یونان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے 55؍ارب ڈالر کے اثاثے بشمول بینکوں کے اثاثوں کو الگ رکھے جن پر حکومت یونان کا کوئی اختیار نہیں تاکہ یہ اثاثے فروخت کرکے ان رقوم کا ایک حصہ یونان کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جاسکے۔
اگرپاکستان بجٹ خسارے کو کم یا پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو عارضی طور پر بڑھانے کے لئے 30مزید قومی اداروں کی نج کاری کے پروگرام پر عمل درآمد کردیتا ہے تو پھر بڑی حد تک صرف وہ اثاثے حکومت کے پاس باقی رہ جائیں گے جو قومی سلامتی و مفادات کے تحفظ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ دانشمندانہ حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ نج کاری کا عمل معطل کرکے عوام پر غیرضروری بوجھ ڈالے بغیر ٹیکسوں کی وصولی بڑھائی جائے اور ان اضافی وسائل کے ایک حصے سے پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کی ری اسٹرکچرنگ کرکے ان کے معاملات درست کئے جائیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کو روس یا چین کو مینجمنٹ کنٹریکٹ پر دینے کے لئے گفت و شنید کی جائے۔ اب اگر ہم اگلے ڈھائی برسوں میں بڑے پیمانے پر قومی اثاثوں کی نج کاری کردیتے ہیں تو آگے چل کر مغربی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے نجاتی پیکج دینے کے عوض پاکستان کے جوہری پروگرام اور ان اہم قومی اداروں کی نج کاری کرنے کی شرائط عائد کریں گے جنہیں ہم قومی سلامتی اور مفادات کے تقاضوں کے تحت حکومت کے کنٹرول میں رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو جوہری طاقت بنانے والے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ضمن میں بیرونی دبائو پر جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بروقت اور حقیقت پسندانہ ہے۔
تازہ ترین