• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند ماہ کے دوران سعودی عرب ، روس ، امریکہ ، قطر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے عالم اسلام اور دیگر مذاہب کے اہم مفکرین سے تبادلہ خیالات اور مختلف کانفرنسوں میں شرکت کے بعد سامنے آنے والی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں روز و شب ہونے والے اضافے کے اصل اسباب پر غور و فکر کے بعد ان اسباب کو دور کرنے اور نوجوان نسل کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بچانے کی طرف توجہ دی جائے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص بعض عالمی قوتیں اور مسلم ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات کو جس شدت سے محسوس کر رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں اور گزشتہ چند سالوں کے دوران انتہا پسندی اور دہشت گردی میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے اور صرف مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک اور امریکہ سے بھی مسلم اور نو مسلم نوجوان مرد اور عورتوں نے انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر کے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے وہ ماضی میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔گزشتہ ہفتے امریکہ میں ہونے والے ایک امن کنونشن میں شرکت کا موقع ملا تو اس احساس میں مزید اضافہ ہوا کہ نہ صرف مسلم نوجوانوں کی طرف سے شدت کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے بلکہ مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرف سے بھی مسلمانوں کے خلاف روز و شب انتہاپسندی اورتشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بلاشبہ یہ بات اطمینان طلب ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی امام ماجد اور پاسٹر باب رابرٹ جیسی معتبر ترین شخصیات اس تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف بھر پور کوششوں میں مصروف ہیں اور عوامی سطح پر اس تعصب کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں کہ کوئی بھی مذہب تشدد اور انتہاپسندی کا درس نہیں دیتا ۔ تشدد اور انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرنے والوں کے اپنے عزائم اور احساسات ہوتے ہیں جن کو تبدیل کرنے کےلئے ایک مربوط اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اسباب کی طرف دیکھیں تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ گزشتہ 35 سالوں کے دوران عالم اسلام کے اہم ترین ممالک کسی نہ کسی طور پر حالت جنگ میں ہیں اور گزشتہ15 سالوں کے دوران لیبیا سے پاکستان تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے نام پر جس جنگ کاآغاز ہوا ہے اس سے سب سے زیادہ متاثر مسلم ممالک اور مسلم نوجوان ہوئے ہیں جبکہ اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا ہے،اس سے قبل بھی عالم اسلام کے مسائل جو کہ فلسطین سے لے کر کشمیر تک پھیلے ہوئے ہیں کے حل کرنے میں عالمی دنیا ناکام نظر آتی ہے۔
9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ ، یورپی ممالک اور عالم اسلام کے بعض ممالک نے جس طرح مسلم نوجوانوں کو ہدف بنایا اور اسلامی شعائر پر بعض ممالک میں جوسخت گیر رویہ اپنایا گیا اس سے مسلم امہ کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوا اور ان محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے تشدد کے ذریعے معاملات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی جس سے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ عالمی مفکرین اور دانشوروں کا خیال تھا کہ افغانستان سے القاعدہ، عراق سے صدام حسین اور لیبیا سے معمر قذافی کی حکومتوں کے خاتمے کے بعددنیا میں انتہا پسندی اور تشدد کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن آج ان مفکرین کی اس سوچ اور فکر کو نہ صرف بری طرح شکست ہوئی ہے بلکہ دنیا ایک ایسی سمت چل پڑی ہے جہاں امن کے لئے روز و شب خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔آج 9/11کے واقعہ کے 15 سال بعد افغانستان کے طالبان اسی انداز میں جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں جس طرح انہوں نے 9/11کے بعد شروع کی تھی۔ امریکہ اور یورپی ممالک اور خود افغان حکومت ان سے مذاکرات کے لئے بیتاب نظر آتی ہے لیکن وہ اپنی شرائط پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔حالیہ دورہ امریکہ کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم نے امریکی قیادت پرواضح کردیا ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے تابع نہیں ہیں ، پاکستان نے بہت جدوجہد کے بعد افغان طالبان کومذاکرات کی میز پر بٹھایا تھا لیکن افغانستان کے خفیہ اداروں میں موجود بعض عناصر نے ملا عمر کی موت کی خبر کو ظاہر کر کے ان مذاکرات کو سبوتاژ کردیا اور اب دوبارہ افغان طالبان کا مذاکرات کی میز پر آنا آسان نظر نہیں آتا۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کا مختلف حصوں میں تقسیم ہوجانا اور افریقہ سے لے کر افغانستان تک اس کی تنظیم کا اپنے مرکز سے کٹ کر مقامی سطح پر با اختیار ہو جانا اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ اب دنیا میں کوئی ایسی قیادت موجود نہیں کہ جس کے ایک حکم پر معاملات میں بہتری آسکے ۔ القاعدہ کی مقامی سطح پر خود مختاری کے بعد عراق اور شام میں داعش کی صورت میں مسلم نوجوانوں کو ایک ایسی تنظیم کا میسر آنا کہ جو نہ صرف شدت پسند نظریات کی حامل ہے بلکہ وسائل کے معاملے میں بھی اس کو کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم نوجوانوں کے لئے محرومیوں اور ناانصافیوں کی اس فضا میں وہ ایک امید کی کرن بن گئی ہے اس کی بنیادی وجہ مسلم قیادت ہے جن میں علماء ، مفکرین ، دانشور ، حکمران، سیاست دان سب شامل ہیں جن کا مسلمانوں کے معاملات سے اور ان کی محرومیوں سے لا تعلق ہونا اور سنجیدگی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی نہ کرنا ہے ۔ جس طرح داعش کے رویئے اور عمل میں شدت دیکھی جا رہی ہے اسی طرح کی شدت بعض یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی دیگر مذاہب کے نوجوانوں میں دیکھی جارہی ہے اور اس کا حل جہاں مختلف مذاہب کے درمیان قرآن کے دیئے ہوئے ضابطہ ’’تمہارے لئے تمہارا دین ، ہمارے لئے ہمارا دین‘‘ کے مطابق مکالمے کا راستہ ہموار کرنا ہے، وہاں پر عملی طور پر بھی ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوں ، ان کی محرومیاں دور ہوں اور مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کی ذہنی اور فکری رہنمائی کے لئے مفکرین ، علماء ، دانشور اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم حکمراں صرف اپنے مفادات کو ہی مقدم نہ جانیں بلکہ عالم اسلام کے مفادات اور احساسات کی طرف توجہ دیں۔ اگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو تقویت دینے والے ان اسباب کی طرف توجہ دی جائے اور ان کا حل تلاش کیا جائے گا تو ممکن ہےکہ امن کا راستہ اور امن کی منزل کا حصول ہوجائے اس طرح بین المذاہب مکالمے کی راہ بھی ہموار ہو سکے گی، اگر ان اسباب اور ان کے حل کی طرف توجہ دینے کی بجائے حقائق سے آنکھیں چرائی گئیں تو پھر مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے اور پھر ممکن ہے مسلم امہ اور عالمی دنیا کی کوششوں کے باوجود مسائل کا حل نہ نکل سکے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی مزید پروان چڑھے ایسے حالات سے قبل مسلم امہ کی محرومیوں کو دور کرنے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دی جانی چاہئے ۔ کشمیر ، فلسطین ، شام ، عراق ، یمن ، لیبیا کے معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ عالمی قیادت کو غور کرنا چاہئے اور مسلم اور غیر مسلم علماء ، مفکرین اور دانشوروں کو نوجوانوں کی درست سمت اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انہیں انتہاپسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے۔
تازہ ترین