• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق وزیر خارجہ پاکستان میاں خورشید محمود قصوری کی کتاب ’’ Neither a Hawk nor a Dove ‘‘ (نہ عقاب نہ فاختہ ) کی تقریب رونمائی اگلے روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی ۔ اس تقریب میں ممتاز بھارتی سیاست دان اور کالم نگار سدھ نیندرا کلکرنی (Sudheendra Kulkarni ) نے بھی شرکت کی ۔ کلکرنی جی کی پاکستان میں وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا کی دھمکیوں کے باوجود نئی دلی میں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کرائی ۔ وہ اس تقریب کے میزبان تھے اور تقریب میں آنے سے پہلے شیوسینا کے انتہا پسندوں نے ان کے منہ پر کالا رنگ مل دیا تھا اور چہرہ صاف کیے بغیر انہوں نے تقریب میں شرکت کی تھی ۔ کراچی کی تقریب بھی کلکرنی جی کی موجودگی کی وجہ سے یاد گار بن گئی تھی ۔ یہ تقریب میرے لیے اس وجہ سے یاد گار تھی کہ میں دو باتوں میں الجھا رہا ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ کراچی میں تقریب کی میزبان امینہ سید کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ، جو بھارت میں کلکرنی جی کے ساتھ پیش آیا لیکن ’’ منہ پر کالک ‘‘ کا جملہ ( Phrase ) استعارہ کے طور پر باربار استعمال ہوتارہااور تصور میںلوگوں کے چہرے کبھی اجلے نظر آتے تھے اور کبھی نہیں ۔ کلکرنی جی جب خطاب کرنے آئے تو تقریب کے شرکاء ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک تالیاں بجا کر ان کا بھرپور استقبال کیا ۔ بحیثیت صحافی میرےلیے یہ ایک آزمائش کا مرحلہ تھا ۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کلکرنی جی کے احترام میں کھڑا ہو جاؤں کیونکہ ایک طرف تو انہوں نے شیوسینا کی انتہا پسندی کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور دوسرا وہ پاک بھارت پر امن اور دوستانہ تعلقات کے داعی ہیں ۔ صحافتی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران صحافی کو اپنے جذبات اور نظریات کا ایسا اظہار نہیں کرنا چاہیے، جس سے اس کی غیر جانبداری متاثر ہو لیکن جب لوگ کافی دیر تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے تو مجھے محسوس ہوا کہ اگر میں نہ کھڑا ہوا تو میں ’’ روسیاہ ‘‘ ہو جاؤں گا ۔ لہذا بے اختیار مجھے بھی احتراماً کھڑا ہونا پڑا ۔ صحافتی اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ایک اور بھی مسئلہ تھا ۔ تقریب میں خفیہ اداروں کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے ۔ خدشہ یہ تھا کہ اس حرکت پر اداروں کی رپورٹ میں ہمارے چہرے پر سیاہی نہ مل دی جائے ۔ مگر تسلی اس بات کی تھی کہ تقریب کی صدارت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کر رہے تھے اور انہوں نے بھی کلکرنی جی کا بھرپور استقبال کیا ۔ اگرچہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا ہے لیکن ہمیں یقین تھا کہ ان کی وجہ سے ہماری حب الوطنی پر بھی کالا دھبہ نہیں لگے گا ۔ کلکرنی کے احترام میں وہ لوگ بھی کھڑے ہو گئے ، جنہوں نے ساری زندگی کراچی میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کبھی مزاحمت نہیں کی ۔ ان کے چہرے اجلے نظر نہیں آ رہے تھے ۔ آنکھیں موند کر مجھے اپنی نشست پر بیٹھنا پڑا ۔دوسری بات عقاب اور فاختہ کے حوالے سے ہے ۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے صدارتی خطاب میں ایک واقعہ سنایا کہ جب انہوں نے بحیثیت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں خورشید محمود قصوری کو اپنا وزیر خارجہ بنایا توانہوںنے قصوری صاحب سے پوچھا کہ ’’ بھارت کے معاملے میں آپ عقاب بنیں گے یا فاختہ ؟ ‘‘ اس پر سابق صدر کے بقول خورشید محمود قصوری نے جواب دیا کہ ’’ Neither a Hawk nor a Dove ‘‘ ( نہ فاختہ نہ عقاب ) اور یہی ان کی کتاب کا عنوان بھی ہے ۔ سابق صدر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات زیادہ بہترتھے اور دونوں ملک اپنے تمام باہمی تنازعات کے حل کے قریب پہنچ چکےتھے ۔ خورشید محمود قصوری کی کتاب میں بھی پاک بھارت تعلقات کا تاریخی تناظر میں جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے ، اس میں بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومتوں کے دوران پاک بھارت تعلقات زیادہ بہتر رہے ہیں اور خاص طورپر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تنازعات کو حل کرنےکےلیے ڈپلومیسی کا بیک ڈورچینل بہت زیادہ مضبوط تھا ۔ خورشید محمود قصوری نے اس کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا ۔ تقریب میں بھارت کے سینئر سیاست دان اور دانشور مانی شنکر آئر اور بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ امور سلمان حیدر نے بھی شرکت کی ۔پرویز مشرف سے پہلے مانی شنکر آئر کی تقریر بہت معنی خیز تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کو بلا تعطل اور بلا خلل مذاکرات کرنا چاہئیں کیونکہ مسائل جنگ سے نہیں مذاکرات سے حل ہوتے ہیں ۔ اس پر تقریب کے شرکاء نے زبردست تالیاں بجائیں ۔ ان تالیوں سے کچھ چہروں کی سیاہی پھر کم ہونے لگی تھی ۔ مانی شنکر آئرنےیہ بھی کہا کہ جب بھی مذاکرات ہوتےہیں تو کنٹرول لائن پرجنگ بندی کی خلاف ورزیاں شروع ہو جاتی ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ بھارت کو یہ مسئلہ نہیں بناناچاہیےکہ پاکستان کی سیاست پر فوج کی بالادستی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان زیادہ تر معاملات ان ادوار میں طے ہوئے ہیں ، جب پاکستان میں فوجی حکومتیں تھیں ۔ تنازعات کے حل میں رکاوٹ پاکستان میں فوج کی بالادستی نہیں ہے بلکہ رکاوٹیں کچھ اور ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اگرچہ اپنے خطاب میں بار بار یہ بات کہی کہ ان کے دور میں پاکستان کے بھارت سے تعلقات زیادہ بہتر تھے لیکن انہوں نے اس کے ساتھ یہ بات بھی کہی کہ کارگل کی لڑائی فوجی حکمت عملی سے نتائج حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے ۔ اس پر تقریب کے شرکاء نے زبردست تالیاں بجائیں ۔ یہ شرکاء پہلے اس بات پر بھی تالیاں بجا چکے تھے کہ ’’ مسائل جنگ سے نہیں ، مذاکرات سے حل ہوتے ہیں ۔ ‘‘ اس پران چہروں کا رنگ بھی تیزی سے تبدیل ہونے لگا ، جو ابھی تک اجلے نظر آ رہے تھے ۔ اب ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ان تقریروں اور لوگوں کے ردعمل پر تبصرہ کرنےکےلیے ہم عقاب بنیں یا فاختہ ؟ تو فوراً یہ احساس ہوا کہ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ ہم عقاب یا شاہین نہیں بلکہ فاختہ ہیں ۔
تازہ ترین