• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تمام تجزئیے، اندازے اور ایگزٹ پول غلط ثابت ہوگئے، جمہوریت کے چیمپئن امریکہ میں پہلی خاتون صدر بننے کا خواب چکناچور ہوگیا، اپنی غیرمحتاط زبان درازی سمیت ملکی اور غیرملکی امور پر ناقابل یقین حد تک خطرناک عزائم کا اظہار کرنے والے غیرسیاسی شخصیت وارب پتی سفید فام بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ الیکٹرول کالج میں (290 ووٹ)اکثریت کی بنیاد پرامریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہوگئے،سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن دس لاکھ زائد ووٹ (popular votes)لےکر بھی ہارگئیں، یوں اقتدار امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فارم صدر سے نئی تاریخ رقم کرنے کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئےسفیدفام Native American کے گھر کی باندی بن گیا۔
راقم نے الیکٹرول کالج کےتیسرےنمبرپرسب سےزائد( 38ووٹس )کی حامل ریاست ٹیکساس میں اکتوبرکےاواخر سے شروع ہونے والی ارلی ووٹنگ سے لے کر 8 نومبر کے انتخابی معرکےکو مختلف شہروں میں جاکر cover کیا ، زمینی حقائق اور عوام کی رائے جاننے کی کوشش کی، بعض جگہوں پر عوام کی بڑی رائے بالخصوص خواتین ووٹرز نے خاتون صدارتی امیدوار مس ہلیری کو ووٹ دینے کےعزم کا اظہار کیا تو ایسے افراد بشمول پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی جو ڈونلڈٹرمپ کو ووٹ دینے نکلےتھے، تاہم ہرصورت کامیابی کےدعوئوں کی آڑ میں فتح کی پارٹی منانے کی تیاری کرنے والے ڈیموکریٹس کی شام غم میں ڈھل گئی،نتائج نے سب کو چکرا کررکھ دیا، سب کےلبوں پر ایک ہی سوال کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟بعض اس قدر دلبرداشتہ تھے کہ پاکستانی انتخابات میں ہارنے پر دھاندلی کے الزامات لگانے جیسے رویے کا شکار ہوگئےتو کئی نے ٹرمپ کی جیت کے پیچھے کسی خفیہ ہاتھ کی تلاش شروع کردی، اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ٹرمپ کو صدر نہ ماننے کا اعلان کرکے احتجاج کےجمہوری حق کو استعمال کرنےسڑکوں پر آچکے ہیں اور رزلٹ کے بعد مرکزی شاہروں پر "دھرنے" بھی دے رہے ہیں ،لیکن اب پچھتائے کیاہوت۔۔!کچھ بدل نہیں سکتا جمہوری عمل مکمل اورٹرمپ صدربن چکے تاہم یہ کیونکرہوا؟ کا ملین ڈالر سوال جواب کی تلاش میں ہے،شش وپنج میں مبتلا امریکی جاننےکےلیےبےقرار ہیں کہ امریکی میڈیا نے انتخابی عمل سے قبل ہی ہیلری کے واضح اکثریت سےصدر بن جانےکا ڈھنڈورا کیوں پیٹا؟ کیا امریکی سیاسی پنڈت اور اپنی سیاسی سفارتی چالوں سےدنیا بھر کےملکوں کی پالیسیوں پربالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے والوں کو ذرا بھی انتخابی نتائج کا ادراک نہیں تھا یا وہ جان بوجھ کر اس کو مخفی یا نظرانداز کر رہےتھے؟ کیا سچ مچ ویسا ہی ہوا جس کی توقع تو دور کی بات "بھنک "تک نہ تھی؟میراخیال اور یقین ہےکہ ان سب سوالوں کا جواب ہے" جی نہیں "۔۔! میں ایسا کیوں کہہ رہاہوں اس کے لیےآنکھیں اور دماغ کھول دینے والے حقائق کی تفصیل آپ کے سامنے رکھ دیتاہوں ، امریکہ کی 30 سے 32 کروڑ آبادی میں مقامی سفید فام ( گوروں ) کی اکثریت ہے جو تقریبا 65 سے 70 فی صد ہیں سارا دن پولنگ اسٹیشنز کے دوروں اور عوامی آراء جاننےکےبعداندازہ ہوا کہ سفید اور سیاہ فام آباد کاروں ( جن میں افریقن، میکسیکن،ایشیائی،مشرق وسطی اوریورپی اور دیگرملکوں کےباشندےشامل ہیں ) میں ایک واضح لکیر کھینچی جا چکی ہے اور نفرت پرمبنی اسی تحریک نےطےکردیاکہ یہ ملک صرف سفید فام کا ہے،یہ بھی فیصلہ کرلیاگیاکہ پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام باشندےکو بخشے جانے والا اقتدار اب واپس لیناہے۔
سفید فام ہونے کے باوجود اکثریتی سفید فام ووٹرز( 70 فی صد)کونظرانداز اور صرف 30 سے 35 فی صد اقلیتی ووٹرز پرفتح کا انحصار اوران کےدل جیتنے کی حکمت عملی سمیت وہ علاقے جو پہلے سے ڈیموکریٹس کےاکثریتی تھے ،وہاں جانا بھی مناسب نہ سمجھنے کی over confident سوچ نےانہیں اپنےحلقوں میں بھی شکست کا منہ دکھایا،ادھرسی آئی اے کے ڈائریکٹر کےانتخابات کےدن سےمحض ایک ہفتہ پہلےای میلز کی تحقیقات کے شوشے کے اثرات اپنی جگہ اوباما کی ناکام پالیسیوں اور وعدہ خلافیوں کابوجھ بھی ہیلری کی نیا ڈبونے میں معاون ثابت ہوئے اور زیادہ تر سیاہ فام ووٹ ڈالنےنکلےہی نہیں،کہاجاتاہے کہ ٹرمپ نےاپنی "زبان درازی" سے جہاں یہاں بسنےوالی اقلیتوں کوجگایاوہیں 70 فی صد مدہوش سفیدفام امریکیوں( red neck) کو "جاگ پنجابی جاگ" کی طرز پر ہوش کاجھٹکالگایا۔تیزی سے اپنی محنت وذہانت کی بنیاد پر امریکہ کی ترقی کے حصہ دارسیاہ فام یا آبادکار اقلیتوں کے متوقع تسلط سےہوشیارکیااور "امریکہ ہمارا ہے" کا نعرہ لگایا۔ یہ ناپسندیدہ حقیقت بھی سوہان روح ہےکہ امریکہ میں حالیہ برسوں کے دوران مسلسل دہشت گردی کے واقعات اور اس میں مسلمانوں کے ملوث ہونے نےبھی صورت حال کے بدلنےمیں مدد دی۔
قارئین انتخابی عمل کےدوران میرا مشاہدہ رہا کہ ٹرمپ کی دھمکیوں سےخوف زدہ اقلیت "اچھی بھلی"تعدادمیں نکلی تو تاہم سفید فام کی خاموش اکثریت نے ارلی ووٹنگ کے مرحلے کے دوران ہی بھاری تعدادمیں ٹرمپ کو ووٹ دےکراپنا کام دکھادیاتھاجبکہ بیلٹ باکس کاshocking مگرفیصلہ کن نتیجہ آٹھ نومبر کی شام ٹرمپ کی فتح کی صورت نکلا۔
قارئین ،ٹرمپ اب نومنتخب صدر ہیں وہ دوران مہم اپنےاعلانات کا پھر اعادہ کررہےہیں کہ 20 سے 30لاکھ تارکین کوفوری واپس بھجوائیں گے، میکسیکو کی سرحد دیوار بھی بنے گی اور اوباما کی صحت پالیسی کوبھی ختم کریں گے، ان کاپاکستان کےایٹمی پروگرام سےمتعلق بھارت سےمدد وتعاون کاعندیہ بھی کسی بڑے خطرےکی علامت ہے، کیا تبدیلی کےنام پر کچھ مختلف کرکے امریکہ کو عظیم بنانے کےعزم سےسرشار ٹرمپ کچھ خاص کرنے پر مجبور ہوں گے؟امریکہ کےاندر اور باہر سب انگشت بدنداں ہیں کہ آئندہ چار برسوں میں کیامختلف اور بدلتاہواُدیکھیں گے؟کچھ دل جلے امریکی یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کو بدل کر رکھ دینےوالے 11 ستمبر2001کےسانحہ عظیم کے بعد اب الیون نائن کاسیاسی دھماکہ ہوچکاہے اب انتظار ہے اس کےہولناک اثرات کا۔۔۔
امریکہ اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھےجانے والے رپبلکن پارٹی کےسینئر رہنما و امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹر ارجمندہاشمی کہتےہیںکوئی مانے یا نہ مانے ٹرمپ 20 جنوری 2017 کو بطور صدرحلف اٹھائیں گےاور جوکچھ کہا وہ کرکےدکھائیں گے، اپنےووٹرزکومطمئن کرناان کی ذمہ داری ہےجبکہ پاکستان سےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں " Do more" کا مطالبہ "بھرپور" اندازمیں کرسکتے ہیں۔
قارئین،امریکی اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہےاورمیری دانست میں امریکی کانگریس و سینیٹ میں اکثریت کے باوجود ٹرمپ اپنی کہی ہوئی تمام باتوں ، دعوئوں اور اعلانات پرعمل کرنے میں آزاد نہیں ہوں گے تاہم انہیں اپنی اور ریپبلکن پارٹی کی لاج کی خاطر بعض مشکل ایکشنز پرمجبور ہوناپڑےگا۔



.
تازہ ترین