• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی وزیر ِاعظم ہیرولڈ ولسن نے کہا تھا… ’’سیاست میں ایک ہفتہ بھی طویل عرصہ ہوتا ہے۔‘‘کون جانتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے اگلے مرحلے میںکیا ہو، لیکن پہلے مرحلے میں پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی ناک آئوٹ ہوگئی۔ کیا فی الحال یہ ممکن ہے کہ پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان مبازرت کا تجزیہ صرف اس حوالے سے نہ کیا جائے کہ ایک حکومت میں تھی تو دوسری اس کیلئے چیلنج بن کر میدان میں آئی تھی؟ کیا ان دونوں جماعتوں میں بہت واضح فرق دکھائی دیتا ہے؟کیا پی ٹی آئی کو ابھی بھی مثالیت پسندی کی راہ پر چلنے اور2018 ء میں تبدیلی کی نقیب بن کر میدان میں آنے والی پارٹی مانا جائے جیسا کہ اس نے 2011ء میں خود کوپیش کیا تھا؟
2007 ء وہ دور تھا جب سیاست میں مثالیت پسندی کی گنجائش موجود تھی۔ اُس وقت ایک آمر کا مقابلہ کرناتھا، آئین کی پامالی کا راستہ روکنا تھا، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی آبیاری کرنی تھی۔ اُس وقت مرکز اور صوبے، سول اور ملٹری ، انتہا پسندی اور ترقی پسندی جیسی سماجی فالٹ لائنز موجود تھیں، اور وہ دور تھا جب مثالیت پسندی کی راہ دکھائی دیتی تھی کیونکہ آپ نے دو انتہائوںمیں سے ایک کا چنائو کرنا تھا۔ مشرف حکومت کی روشن خیالی کے باوجودسوات میں فضل اﷲ کی دہشت چھائی ہوئی تھی اورلال مسجد والے عوام کے اخلاقی چوکیدار بنے ہوئے تھے، تو اُس وقت انقلاب کی باتیں محض دکھاوا معلوم نہیں ہوتی تھیں اور پھر حبیب جالب بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے تھے۔ اُس وقت بہت سے لوگ سوچ رہے تھے کہ پاکستان میں وہ تبدیلی آرہی ہے جس کااُنہیں بہت دیر سے انتظار تھا۔
ابھرنے والی فالٹ لائنزپر کچھ ترقی کے آثار ہویدا بھی ہونے لگے، اور 2008ء میں جمہوریت لوٹ آئی۔ اس کے بعدمشرف کو گھر جاناپڑا۔ جج صاحبان کی بحالی نے ایک تاریخ رقم کردی، پی سی اواو ر نظریہ ٔ ضرورت کو قومی بیانیے سے دیس نکالا مل گیا۔ ملک میں عدلیہ، ایگزیکٹو اور قانون ساز فعال اور تواناہوتے گئے اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاقی اکائیوں کو طاقت اور اختیارات تفویض ہوتے دکھائی دئیے۔ اگرچہ انتہا پسندی اور ترقی پسندی کی فالٹ لائن پر2008 ء سے لیکر 2014ء تک کچھ بزدلی کا مظاہرہ کیا گیا، تاہم رفتہ رفتہ یہ سوچ راسخ ہونے لگی کہ فضل اﷲ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے پاکستان کی خود مختاری باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ سوات آپریشن کیا گیا، لیکن مذاکرات اور آپریشن کا کھیل ساتھ ساتھ چلتا رہا حالانکہ شواہد بتارہے تھے کہ بے دلی سے کیا جانے والا آپریشن، جس میں مذاکرات کی گنجائش بھی رکھی گئی ، کام نہیں دے گا۔ یہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے اور آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے سے پہلے کی بات ہے۔ اس خونچکاں واقعہ کے بعد فوج نے سیاسی بے عملی کو باور کرادیا کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف دوٹوک کارروائی کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی انتہا پسندی کی لہر پیچھے ہٹنے لگی، لیکن سول ملٹری اختیارات کے توازن کی فالٹ لائن گہری ہوگئی۔ تاہم ان دونوں معاملات پر ہماری مرکزی جماعتوں میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان سے بات چیت کا ایشو پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا۔ ہر کسی نے اس کی حمایت کرتے ہوئے ’’اپنے بھائیوں کے ساتھ امن‘‘ کے ساتھ رہنے کے گن گائے۔اسی طرح سول ملٹری عدم توازن کا معاملہ صرف سیاسی نہیں، اس میں تصورات کا فقدان کارفرما ہے۔ سول ملٹری اختیارات کی کشمکش میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار دکھائی دینے والے بہت ہیں، لیکن سول اتھارٹی کو فوقیت دلانے کیلئے درکار تصورات کا قحط اپنی جگہ پر موجود ہے۔ جہاں تک وکلا کی تحریک کا تعلق ہے (جو جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا بھی حصہ تھی)اس کیلئے فیصلہ کن حمایت شہروں کے درمیانے طبقے سے حاصل ہوئی کیونکہ اس طبقے کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے فوائد کا احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پاکستان کا مستقبل اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب جج صاحبان بحال ہوگئے تو جسٹس چوہدری کی توجہ این آراو، بدعنوانی، احتساب کے فقدان اور روایتی موروثی سیاست کی خرابیوں پر ہوگئی۔ اس پر عوام کے دل میں عدلیہ کی توقیر میں مزید اضافہ ہوا۔ اس دوران عمران خان تبدیلی کے نقیب بن کر میدان میں آئے۔
آمریت کی رخصتی، جمہوریت کی بحالی اور سپریم کورٹ کی غیر معمولی فعالیت نے سیاسی اشرافیہ کی مفاد پرستی کو بے نقاب کرنا شروع کردیا تو تبدیلی اور سیاسی گندصاف کرنے کے نعرے کوپذیرائی ملنے لگی۔بے چینی کا شکار لیکن تواناآواز رکھنے والے درمیانی طبقے ، جس نے پہلے جسٹس چوہدری صاحب سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں،کو عمران خاں کی صورت میں تبدیلی کے نعرے لگانے والا ایک مسیحا دکھائی دیا۔ اُن معروضی حالات میںعمران خان اور ان کا تبدیلی کا پیغام بالکل فٹ بیٹھتا تھا۔ 2011 ء کے اختتام تک پی ٹی آئی کیلئے عوامی حمایت کا طوفان، جسے سونامی کہا گیا، ابھرتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کے جلسے اور جلوس عجیب والہانہ پن لئے ہوئے تھے۔ ان میں شہروں کا خوشحال اور تعلیم یافتہ طبقہ دکھائی دیا۔ اس سے پہلے یہ طبقہ روایتی سیاست کو ایک گندا کھیل سمجھتے ہوئے اس سے دور رہتا تھا۔ پاکستان نے اس سے پہلے مختلف طبقوں اور تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو سیاسی جلسوں میں نہیں دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں تبدیلی کی عجیب چمک واضح دکھائی دیتی تھی۔ یہ حمایت بڑھتی گئی اور اس کے نتیجے میں 2013 ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی قومی سطح پر دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
اب چاہے التباساتی تصورات کا شاخسانہ ہو یااندازے کی غلطی، پی ٹی آئی قیادت نے اس کامیابی سے سرشار ہوتے ہوئے قائم ہونے والی حکومت کو دھاندلی زدہ قرار دے کر اپنا رخ احتجاجی سیاست کی طرف موڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سیاست میں مثبت قدروں کی پامالی دیکھی جانے لگی۔اس کا نقطہ ٔ عروج اسلام آباد میں دیا جانے والا طویل دھرنا تھا۔ اگرچہ دھرنے کی سیاست نے پی ٹی آئی کو پنجاب میں ایک طاقتور سیاسی حریف بنا دیا، لیکن اس کی وجہ سے اس کے بہت سے حامیوں کو مایوسی بھی ہوئی اور وہ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس کی دو بڑی وجوہ تھیں…پہلی یہ کہ اس کی وجہ سے عمران خان کا ایک ایسے رہنما کا تا ثر ابھر ا جو ہر قیمت پر فوراً اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں،چاہے اس کیلئے کیسے حربے کیوں نہ استعمال کرنا پڑیں۔ دوسری یہ کہ اس نے پی ٹی آئی کو ایک تعمیری قوت کی بجائے ایک تباہ کن قوت کے طور پر پیش کیا، اور اس نے سونامی بن کر تمام ریاستی اداروں پر سے عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنا شروع کردیا۔
2013 ء سے لیکر 2015ء تک، پی ٹی آئی کے اشتعال کی لہر تھمتی دکھائی نہ دی ، لیکن عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اگر کسی معجزانہ طریقے سے اس جماعت کو مرکز میں اقتدار مل بھی کیا تو یہ راتوں رات پاکستان کے مسائل کس طرح حل کرلے گی؟جس دوران اس کی خیبر پختونخوامیں حکومت ہے تو اس کا موازنہ پنجاب سے کر کے دیکھا جاسکتا ہے کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے۔ یقینا پی ٹی آئی کوئی مافوق الفطرت جماعت نہیں اور نہ ہی اس کی قیادت کے پاس معجزانہ صلاحیت ہے کہ وہ تمام مسائل کو بیک جنبش ِقلم حرف ِ غلط کی طرح مٹا کررکھ دے۔ اور یہ بات عوام بھی سمجھ گئے ہیں۔ چنانچہ 2015ء میں اسے تبدیلی کا نمائندہ نہیں سمجھا جارہا۔ پی ٹی آئی نے اپنی تحریک کا آغاز انصاف کی بحالی کیلئے کیا تھا، لیکن اس کے پاس ہمارے ناقص نظام ِ انصاف کو بہتر بنانے اور ماتحت عدلیہ کی حالت درست کرنا کاکوئی پروگرام نہیں ہے۔ کم از کم اس نے خیبرپختونخوامیں اس کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے پاس 28 ملین بچوں، جوا سکول نہیں جاتے، کو تعلیم دینے اور بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے کا کوئی پروگرام ہے؟کیا پی ٹی آئی آبادی میں خوفناک اضافے کو روکنے کا کوئی منصوبہ رکھتی ہے؟اس کی طرف سے پانی کے بحران پر کبھی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی ان اہم ترین مسائل کو عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھتی؟اگر نہیں تو کون سی تبدیلی لانے کیلئے زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھی؟
عمران خان کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ وہ خود کو تبدیلی کا داعی قرار دیتے ہوئے اونچے اخلاقی منبر پر بٹھا لیتے ہیں۔ وہ ہر کسی کی پگڑی اچھالیں ، لیکن کوئی ان کی طرف انگلی کا اشارہ تک نہ کرے۔ اب اگر خیبرپختونخوا کی حالت پنجاب سے بہتر نہیں ہے تو یہ فرق پی ٹی آئی کیلئے نقصان دہ ہے، اس کا پی ایم ایل (ن) یا دیگر روایتی جماعت کو کوئی نقصان نہیں ۔ ابھی بھی پی ٹی آئی آنے والے عام انتخابات، جو 2018ء میںہوںگے ،کیلئے کوئی حکمت ِعملی نہیں رکھتے ۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ اب پاکستانی سیاست میں مثالیت پسندی کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے، اب عملیت پسندی کا دور ہے۔اگر پاکستان کو حقیقت پسندی کی ضرورت ہے تو پی ٹی آئی2018ء میں کہاں کھڑی ہوگی؟
تازہ ترین