• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے نہیں معلوم کہ ملک بن رہا ہے کہ بگڑ رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال تخت ِ پنجاب کے شہر لاہور کاہو رہا ہے۔ تخت ِ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی نظر کرم لاہور کی ترقی پر ہے۔پرانا لاہور جو اندرون شہر کہلاتا ہے ، اس کا نقشہ بدلا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ادارے قدیم لاہور کو محفوظ رکھنے کیلئے امداد دیتے رہے ہیں یا قرض وہ بھی ملکی سلامتی کے تناظر میں قومی راز ہے۔ دوسری طرف اندرون شہر قدیم لاہور میں نئی تعمیرات کسی منصوبے، قاعدے اور قانون کے بغیر جاری ہیںاور وہ اتنی خطرناک ہیں کہ اگر زلزلے جیسی کیفیت ہوتی ہے تو نقصان کا اندازہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔ لاہور کا ترقیاتی منصوبوں والاادارہ ان معاملات سے لاتعلق نظر آتا ہے اور یہ سب کچھ مسلم لیگ کی سیاسی اشرافیہ کی منشا اور مرضی سے ہو رہاہے۔ پہلے تو وزیراعلیٰ صاحب بہادر نے نوکرشا ہی کے زرخیز دماغ کی مشاورت سے میٹروبس (عوام میں جنگلہ بس) کا منصوبہ کثیر سرمایہ سے مکمل کیا جس نے تخت لاہور کوعملی طور پر تقسیم کر دیا ہے۔ایسے منصوبوں سے نوکرشاہی اور سیاسی اشرافیہ بہت کماتی ہے ان کی وجہ سے عوام کی بہبود کے دیگر معاملات جیسے تعلیم، صحت کے منصوبے صرف ِنذر کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کا جومعیار ہے اوراسکولوں کی جو حیثیت ہے وہ علاقائی تناظر میںبہت ہی تشویشناک ہے مگر اس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے۔آبادی میں مسلسل اضافہ معیشت کیلئے مزید خطرہ ہے مگر جناب اسحاق ڈار کی الفت اور صحبت صرف اور صرف آئی ایم ایف (IMF)کیساتھ ہے۔ پاکستان خطرناک حد تک قرضوں کی معیشت کا بیمار ملک ہے۔ ایسے میں آئندہ کی منصوبہ بندی کے بارے میں اعلیٰ سرکاری اور سیاسی حلقے، عدم توازن اور سیاست کا شکار ہیں۔ منصوبہ بندی کے بے بس وزیر احسن اقبال ایک دفعہ تو وزیراعظم پاکستان کو اپنی حیثیت کا بتا چکے ہیں۔ شنید یہ ہے کہ ان سے وزیر دفاع و بجلی جناب خواجہ آصف اور وزیر پٹرولیم خاقان عباسی بہت ہی نالاں اور غیر مطمئن ہیں۔ شکایات تو وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بھی ہیں مگر وہ پارٹی کی سیاست سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دورہ امریکہ میں ان کا کردار کافی اہم رہا ہے پھر ان پراقربا پروری یاکرپشن کاالزام لگانایا شک کرنا مشکل ہے۔ مگر داخلی معاملات میں بدانتظامی کا علاج مشکل نظر آتا ہے۔ ان کی وزارت بہت اہم اداروں کی نگرا نی بھی کرتی ہے۔اسی طرح ان اداروں کی کارکردگی بھی ملک کے دیگر اداروںکی طرح تسلی بخش نہیں ہے۔ ملکی احتساب کے ادارے عرصہ دراز سے اشرافیہ اور سیاست دانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔ ثبوت ہونے کےباوجود دفتری ضابطے ایسے ہیں کہ احتساب کرنا اور کسی اہم شخص کوسزادلوانا ممکن نظر نہیںآتا۔ الزام عدالتوں پر لگا دیاجاتا ہے کہ وہ مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں جبکہ ثبوت کے سلسلے میں جوڑ توڑ صاف نظر آتا ہے۔مگر ایک وزیرداخلہ کیلئے سابقہ دوستوں پر کرم فرمانا بھی تو جمہوریت کیلئے ضروری ہے اور یہی جمہوریت کاحسن ہے۔ کسی کو نہ پکڑو اور سب کوساتھ ملانےکیلئے ایسا کرنا جنرل مشرف کے این آر او کے مطابق پالیسی کاحصہ ہے۔اب ملک بھر کی سیاست نئی کروٹ لیتی نظر آ رہی ہے۔ تحریک انصاف اپنی سیاسی جنگ میں تھکتی نظرآ رہی ہے۔ کپتان نجی زندگی کے بھنور میں ڈوبتااوربے بس ہوتا نظر آرہا ہے۔اس کے نجی معاملے کو جس طریقے سے میڈیا پر دکھایا جارہا ہے وہ کافی قابل تشویش ہے۔ ایک طرف ان کی پارٹی تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کپتان کےساتھ مخلص لوگوں کی کمی نہیں مگر کوئی بھی کپتان کو حوصلہ اور امنگ دینے کو تیار نہیں۔ اس طرح کے معاملات تمام دنیا میں ہوتے ہیں اوران کی قیمت ادا کرکے کاروبار ِ زندگی جاری رہتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کا دستور ہی نرالا ہے۔ ہم اپنے کسی دستور کو اہمیت اور حیثیت نہیں دیتے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ تحریک انصاف سے خائف نہیں مگرکپتان سے ضرور خائف ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اس معاملے کو استعمال کرکے کپتان کوزچ کیاجاسکتا ہے۔ کپتان کو ملکی سیاست سے باہر کرنا ان سب کی بقا کیلئے بہت ہی ضروری ہے۔ کپتان کو اس مشکل وقت میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اگر لوگ اس کو آزمانا چاہتے ہیں تو اس کو مایوس بالکل نہیں ہونا چاہئے مگراس کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ یہ سب کچھ خواص کیلئے جمہوریت کاحسن اور کپتان کیلئے جمہوریت کا انتقام ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو لوگوں کو سہولت دینے کی بجائے ان کی عزت ِ نفس کو آزماتی ہے۔ پورے ملک میں سیاسی صورتحال مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ بنیادی جمہورتوں کے حوالے سے جو انتخابات حالیہ دنوں میں ہوئے ان کے بارے میں فریقین کے علاوہ دیگر ادارے بھی کافی سوال اٹھا رہے ہیں۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کے بعد ہمارے سیاسی ماحول میں کوئی مثبت پیش رفت ہوگی؟ اس کا جواب مشکل نہیں کوئی مثبت تبدیلی کے آثار نہیں نظر آتے۔ میاں نوازشریف کی سرکار کو ڈھائی سال ہونے کو ہیں۔ وہ اپنی آدھی مدت مکمل کرچکے ہیں۔ مگر ملک بھر میں سیاسی اور معاشی صورت حال مکمل طور پر مخدوش ہے۔ ایک طرف کاروباری طبقہ حکومت کے ٹیکس کی وصولی کے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتا دوسری طرف سیاسی اشرافیہ ہے جو ملکی معیشت میں حصہ دار تو ہے مگراس کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کی معیشت قرضوں کے علاج سے مزید خراب ہو رہی ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات ملک سے باہر جا کر کرنا ایک علیحدہ پریشانی ہے آئی ایم ایف کے لوگ ہمارے اعداد و شمار پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے کثیر ذخائر میں کافی بڑا حصہ تو آئی ایم ایف کے قرضوں کا ہے۔ پھر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے عدم توازن میںاضافہ کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق ڈالر کو کنٹرول اب نجی ادارے کر رہے ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر کی کمی سے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ انتخابات جیتنے کے بعد جو وعدے اور دعوے کئے تھے ان پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے ان کیلئے منصوبہ بندی کا فقدان سیاسی اور سماجی انتشار میں اضافہ کاباعث بن رہا ہے۔ ہمارے ملک کے ارد گرد میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان پر ملک کے اندر حکومتی سطح پر کوئی ردعمل نظر نہیں آرہا ہے۔ بھارت میں جمہوریت کے بعد جوکچھ ہو رہا ہے اس پر وہاں پر لوگ ردعمل تو دے رہے ہیں مگر پاکستانی حکومت کا ردعمل مناسب نہیں ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ حالت ِ جنگ کی سی کیفیت رکھنی ہے۔ اس کو اپنے روایتی ہتھیاروں پر بہت ناز ہے۔ اس کے جواب میں ہمارے پاس جذبہ کے بعد جوہری میزائل ہیں۔ اس بات کا اندازہ ہمارے دوستوں اور مہربانوں کو بھی ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ نے کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے عوام کو کوئی بھی سہولت مل سکے۔ عوام بیک وقت مہنگائی، دہشت گردی، کرپشن اور اشرافیہ کے کردار سے پریشان ہیں۔ اب نیب جیسے اداروں کے قوانین میں تبدیلی کی خبر بھی آ رہی ہے۔ وہ تبدیلی کس تناظر میں کی جارہی ہے؟ و ہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر حکومت بالکل خاموش ہے۔ نیب کے قوانین کے نتیجہ میں اب تک جو کچھ ہوا اس سے تو کرپشن کم از کم ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اب یہ ضروری ہے کہ نیب ملزموں کی نشاندہی کے علاوہ ان کیخلاف ثبوتوں کےساتھ سزا دلوانے کا کام شروع کرے۔ ہمارے ہاں سزا اور جزا کا نظام طبقاتی طور پر تقسیم ہو گیا ہے۔ سزا صرف عوام کو مل رہی ہے جزا کیلئے سیاست اور اشرافیہ نمایاں ہیں۔اب تک تو جمہوریت نے اس ملک کو کچھ نہیں دیا اس کو مضبوط کرنے والے لوگ عوام کے حقوق نظرانداز کرکے ملک کو دیوالیہ کرنےجارہے ہیں ایسے میں کون کیا کرسکتا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین