• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے ۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر پاکستان میں بلا وجہ بحث کا آغاز ہو گیا ہے ۔ وزیر اعظم کی طرف سے پاکستان کو لبرل ملک بنانے کی بات پر کچھ حلقے حیرت زدہ ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت ہے اور اس کے قائد میاں محمد نواز شریف کو یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ کچھ حلقے ایسے بھی ہیں ، جو پاکستان کو ایک تھیوکریٹک ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان حلقوں کے خیال میں پاکستان کو لبرل بنانے کی بات قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات اور نظریہ پاکستان کے منافی ہے ۔یہ حلقے لبرل ازم (Liberalism) کو نظریہ پاکستان کی ضد قرار دے رہے ہیں ۔ یہ عالمانہ اپروچ نہیں ہے کیونکہ لبرل ازم کا نظریہ پاکستان سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ لبرل ازم ایک عمرانی (Sociological) فلسفہ ہے ۔ اس اصطلاح کے رائج ہونے سے پہلے بھی انسانی معاشرے اس فلسفے پر عمل پیرا تھے اور اسے پر امن بقائے باہمی کیلئے لازمی تصور کرتے تھے ۔ لبرل ازم ایک رویہ ہے ۔ یہ رواداری ، برداشت ، فراخ دلی ، روشن خیالی ، محبت اور پیار کا رویہ ہے ۔ یہ دہشت گردی ، انتہا پسندی ، تشدد ، آمریت ، تنگ نظری ، امتیاز ، نا انصافی ، لوٹ مار ، تعصب اور نفرت کے خلاف ایک سوچ ہے ۔ کوئی ریاست ، قوم یا گروہ لبرل ازم کے بغیر پر امن طور پر پنپ نہیں سکتے ۔ جمہوریت اپنی روح اور اپنے جوہر میں لبرل ازم ہی ہوتی ہے اور جب ہم قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس کا مقصد جمہوری اور لبرل پاکستان ہی ہے ۔ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کو جمہوری بنانے کے ساتھ ساتھ لبرل بنانا کیوں ضروری قرار دیا ؟ کیونکہ انہوں نے بحیثیت سیاست دان اپنے پورے سیاسی کیریئر میں پہلے کبھی لبرل ازم کی بات نہیں کی ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ قائم ہونے کے بعد جو ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ رائج ہوا ، وہ تاریخ میں صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائیگا ۔ کہا یہ جاتا تھا کہ دنیا میں انتہا پسندی کی لہر اٹھ رہی ہے حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے ۔ انتہا پسندی کی لہر عوام کی طرف سے نہیں اٹھی تھی بلکہ سامراجی طاقتوں کی شعوری منصوبہ بندی کے تحت مصنوعی طور پر انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ذریعے نیا عالمی ضابطہ اور سامراجی ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پوری دنیا کو عموماً اور اسلامی دنیا کو خصوصاً دہشت گردی اور انتہا پسندی کا نشانہ بنایا گیا ۔اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ گروہ اور طبقات انتہا پسند بھی ہوتے ہیں اور دہشت گرد بھی ۔ تاریخ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ان گنت واقعات بھی رونما ہوئے ہیں لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جس بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ہوئی ، اس کا معلوم انسانی تاریخ میں پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا ۔ اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حقیقی اسباب بھی موجود نہیں ہیں ۔ اس صورتحال نے خاص طور پر اسلامی ملکوں کے معاشروں کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں اور اب ریاستوں اور قوموں کی بقاء کے سوالات پیدا ہو چکے ہیں ۔ تاریخ کے اس بدترین تجربے کے بعد لبرل ازم اب بائیں یا دائیں بازو کا سیاسی فلسفہ نہیں رہا ۔ یہ قوموں اور ملکوںکی بقاء کیلئے ایک طاقتور سوچ کے طور پر اجاگر ہو رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے لبرل ازم کی بات کی ہے ۔
پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے ، یہ سارے علاقے وادی سندھ کا حصہ ہیں ۔دنیامیں وادی سندھ کی تاریخ کو امن ، رواداری ، برداشت اور پیار و محبت جیسی اعلیٰ صفات کا ادراک حاصل کرنے کیلئے پڑھا جاتا ہے ۔ اس دھرتی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں انتہا پسندی پنپ ہی نہیں سکتی ۔ تشدد اور عدم رواداری کیلئے یہ سرزمین موزوں نہیں ہے ۔ یہاں ہر عہد میں لبرل سوسائٹی رہی ہے ۔یہ دھرتی داتا گنج بخش، لال شہباز قلندر اور شاہ لطیف بھٹائی کی دھرتی ہے۔ اسی سرزمین پر صوفی ازم اور فلسفہ تصوف پروان چڑھے ۔ پاکستان میں کبھی بھی کوئی انتہا پسند سیاسی ، مذہبی یا قوم پرست جماعت عوام میں وسیع تر مقبولیت حاصل نہیں کر سکی ہے ۔ پاکستان کے عوام نے کبھی بھی کسی مذہبی ، فرقہ ورانہ یا لسانی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی لیکن 20 ویں صدی کے آخر اور 21 ویں صدی کے آغاز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی پر استوار ہونے والے ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ نے سب سے زیادہ نشانہ صوفیوں کی اسی دھرتی کو بنایا ۔
پاکستان کے ارد گرد بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے حالات بہت خراب ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست نے نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا چہرہ داغ دار کر دیا ہے بلکہ ہندوستان کی شناخت بدلنے کی کوشش کی ۔ ہندوستان آج تک ایک سیکولر اور لبرل ریاست رہا ہے ۔ ہندوستان برداشت والا معاشرہ تھا اور یہی اس کی خوبصورتی تھی ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہندوستان کی سول سوسائٹی دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف سینہ سپر ہو گئی ہے ۔ ہندوستان میں انتہا پسندی اور تشدد کیخلاف ایک مضبوط آواز اٹھی ہے ۔ وہاں ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں ، وکلاء ، طلبہ ، فنکاروں ، کسانوں ، مزدوروں ، خواتین اور اقلیتوں نے یک آواز ہو کر انتہا پسندی کو مسترد کر دیا ہے ۔ انتہا پسندی کیخلاف آواز اٹھانے پر ہندوستان کے 76سالہ ادیب ایم ایم کالبورگی ( M. M. Kalburgi ) نے اپنی جان قربان کی ہے ۔ ان سے پہلے نریندرا دبھولکر اور گووند پنسارے سمیت کئی ممتاز شخصیات نے اپنی جانیں قربان کی ہیں ۔ یہی لوگ ہندوستان کی پہچان ہیں ۔ مودی ہندوستان کی پہچان نہیں ہے ۔ ہندوستان کے لوگ انتہا پسندی کیخلاف سڑکوں پر ہیں ۔ بہار کے حالیہ انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کو اس کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے شرم ناک شکست ہوئی ہے ۔ یہ لبرل ازم کی فتح ہے ۔ یہ صوفی ازم کی فتح ہے ۔ اب اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ دنیا بدل رہی ہے ۔اب انسانی معاشرے کا حقیقی جوہر لبرل ازم پوری شدت کیساتھ اجاگر ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے حقیقت کا ادراک کر لیا ہے ۔ انہوں نے لودھراں اور سیالکوٹ میں اپنے خطاب میں یہ بات مزید واضح کر دی ہے اور کہا ہے کہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں کو معاف نہیں کیا جائیگا ۔
مذہب کے نام پر گلے کاٹنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔ وزیر اعظم نے یہ بھی ادراک کر لیا ہے کہ اب لبرل ازم کی سیاست ہی چلے گی ۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کا سیاسی اثر ورسوخ جیسے جیسے کم ہو رہا ہے ، ویسے ویسے لبرل ازم کی سیاست کا خلاء پیدا ہو رہا ہے ۔ پی پی پی اصل میں آج بھی لبرل ہے اور لبرل سیاست کی سب سے بڑی اجتماعی شناخت ہے۔ اسکے جیالے، ہمدرد اور Followers آج بھی سب سے بڑی قوت ہیں۔ اس وقت تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یہ خلاء پر نہیں کر سکتی ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے لبرل سیاسی قوتیں پیچھے ہٹتی گئیں ۔ اس کے باوجود یہ خلاء ’’ نان لبرل ‘‘ سیاسی قوتیں پر نہیں کر سکی ہیں حالانکہ ان کیلئے میدان خالی تھا ۔ یہ خلاء بالآخر لبرل فورسز کو ہی پر کرنا ہے ۔اس کا ادراک PPP کو ہونا چاہئے اور یہ خلاء کوئی مانے یا نہ مانے PPP ہی آئندہ پورا کرے گی۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو نہ صرف اپنا پورا سیاسی ڈھانچہ تبدیل کرنا ہو گا بلکہ سیاسی رہنماؤںکو اپنے رویئے بھی تبدیل کرنا ہونگے ۔وراثتی سیاست اور دولت کے بل بوتے پر سیاست سے سیاسی جماعتیں اپنے جوہر میں لبرل اور جمہوری نہیں بن سکتیں ۔ ان تمام خباثتوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی ۔ پارلیمنٹ میں محنت کشوں اور مظلوم و پسے ہوئے طبقات اور گروہوں کے حقیقی نمائندوں کو لانا ہو گا ۔ سیاست میں میرٹ اور دیانت داری کو رائج کرنا ہو گا ۔ جمہوریت اور لبرل ازم صرف ملکوں اور قوموں کی بقاء کیلئے ضروری نہیں بلکہ خود سیاسی جماعتوں کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے ۔
تازہ ترین