• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Dry Weather Climate Change And Pakistan

پاکستان میں خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی سدباب کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی جیسے اسموگ کے حوالے سے ہم خواب غفلت میں پڑے تھے اور آخر کار اس نے ہمارے دروازے پہ دستک دے ہی ڈالی ۔ جنوبی ایشیا کے سا تھ ساتھ خشک سالی کی تقریباً تمام دنیا میں لہر آئی ہے جیسے اردن‘ عراق‘ ایران‘ افریقہ‘ ایتھوپیا وغیرہ۔پاکستان میں بھی یہ مسئلہ سنگین ہو گیا ہے۔ چند سال پہلے امریکی جیوگرافیکل جنرل میں ایک مضمون چھپا تھا کہ دنیا میں صحرا بڑھ رہے ہیں کیونکہ زمین پر پانی کی سطح بہت گہری ہو رہی ہے اور بارشیں بھی کم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ موسم میں تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں۔ خشک سالی کی حقیقت سب کو معلوم ہے کیونکہ چند سال پہلے اقوام متحدہ نے اس حوالے سے سربراہ کانفرنس منعقد کی تھی جس میں پوری دنیا کو بتایا گیا تھا کہ دنیا میں اناج کم ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف موسم میں زبردست تبدیلی ہے‘ آپ پاکستان کی مثال لے لیں موسم سرما پانچ ماہ پر مشتمل تھا (15 اکتوبر تا 15 مارچ) لیکن اب موسم گرما طویل تر ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ دو تین دن گرمی ہوتی ہے تو بادل آ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے صورتحال کسی قدر غیر معمولی ہو گئی ہے۔ بارش نہیں ہوئی ورنہ عام طور پر گرمی کی عین شدت میں اچانک بادل آ جانے سے خنکی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ہ صوبہ بلوچستان ہے‘ اس کے بعد سندھ کی کا نمبر آتا ہے۔ پنجاب میں چولستان کا علاقہ بھی متاثر ہے۔ ان علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر بہت کم ہو چکے ہیں جبکہ لوگوں نے بہت زیادہ ٹیوب ویل لگانا شروع کر دیئے۔ اس سے پانی باہر نکلا اور فصلوں کو ملا اور فصل بھی بڑی اچھی ہوئی کیونکہ پانی زیادہ استعمال ہوا لیکن پانی زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی قلت ہو گئی۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے کاریز خشک ہو گئے اور زیرزمین پانی ٹیوب ویلوں سے اُٹھا لیا۔ ایوب خان کے دور میں جب سندھ طاس کا معاہدہ ہوا اس وقت لوگ کہتے تھے کہ یہ معاہدہ غلط ہوا ہے لیکن آج ہمیں اسی معاہدے کا فائدہ ہو رہا ہے کہ کم از کم ہمیں تین دریاؤں کا پانی تو مل رہا ہے۔ پانی تومقبوضہ کشمیر سے آ رہا ہے‘ وہاں سے بھارت بجلی پیدا کر رہا ہے ڈیم بنا رہا ہے‘ معاہدے کے مطابق بھارت بجلی تو لے سکتا ہے لیکن پانی نہیں لے سکتا۔راوی‘ ستلج اور بیاس تو ہیں ہی بھارت کے لیکن چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی استعمال نہیں کر سکتا۔ مگر بھارت چناب پر بھی ڈیم بنا کر بجلی لے رہا ہے لیکن پانی پورا چھوڑ دیتا ہے مگر کیا کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کی صورت میں پانی روک دے اور بھارت سے اگر جنگ ہوئی تو پانی پر ہو گی ۔حال ہی میں مودی سرکار نے دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ آنے والے وقت میں وہ دریائے سندھ کا پانی تقسیم کر سکے گا لیکن وہ تو دشمن ہے‘ بات یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے دو ڈیم ہیں‘ ان دونوں کی استعداد اٹھارہ ملین ایکڑ فٹ پانی ہے۔تین اعشاریہ چار ملین ایکڑ فٹ سلہٹ سے بھر گیا ہے۔ سمجھیں چند سالوں میں منگلا ڈیم ختم ہو جائے گا جس کی استعداد چھ ملین ایکڑ فٹ ہے‘ صرف ہمارے پاس تربیلا رہ جائے گا۔ تربیلا کا سٹرکچر صحیح نہیں ہے‘ اس میں اضافہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی زیادہ پانی جمع کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بہہ جائے گا مگر منگلا ڈیم کی توسیع کی جا سکتی ہے۔ تجویز ہے کہ اسے چالیس فٹ بلند کر دیا جائے، اس سے 75 فیصد پانی زیادہ آ جائے گا۔ حکومت کو فوری اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ہمارا قصور یہ ہے کہ جو پانی ہمارے پاس ہے اس کو بھی ذخیرہ نہیں کر رہے۔ ہمیں چاہئے تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اختیار کرکے اس پانی کو بچا لیتے لیکن ہم نے اس قسم کی کوئی حکمت عملی بروقت اختیارنہیں کی۔ اسرائیل نے گروپ سسٹم کے تحت پائپ لگا دیا جہاں کاٹن کا پودا اس کے بالکل نزدیک جا کر پانی کھول دیتے ہیں اور مناسب مقدار ملنے کے بعد پانی بند کردیتے ہیں۔ ہم بھی اس قسم کی جدید ٹیکنالوجی اختیار کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت پانی تھا‘ یہ ہماری غلطی ہے ہمیں بہت پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ ہم نے چشمہ کینال نکالی اور بلوچستان نصیر آباد کو سیراب کیا‘ اسی طرح ہمارے پاس پانی ہوتا تو ہم اپ لفٹ کرکے کہیں بھی پہنچا سکتے تھے۔ چھوٹے ڈیموں کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر ہم یہ ڈیم بنا لیں تو بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور پانی بھی جمع ہو جائے گا۔ بلوچستان میں خاص طور پر چھوٹے ڈیم بے حد ضروری ہیں۔ ان کو چیک ڈیمز کہتے ہیں۔ نہروں پر بھی ڈیم بنانے چاہئیں‘ یہ بے حد ضروری ہیں۔ لاہور میں پانی کی سطح پہلے ستر فٹ تھی‘ اب شاید 2500 تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے راوی کا سارا پانی جذب ہوتا تھا، اب بھارت نے روک لیا ہے۔ اس وجہ سے زیرزمین پانی کم ہو رہا ہے‘ اب اس کا یہ حل کرنا چاہئے کہ راوی میں گہرائی میں ٹیوب ویل لگا دیئے جائیں اور یہ آسان طریقہ ہے‘ ان ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی ذخیرہ کریں۔

تازہ ترین