• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات سے بلدیاتی انتخابات تک…زیبِ داستاں..........ڈاکٹرلبنیٰ ظہیر

SMS: #LZC (space) message & send to 8001
گزشتہ ہفتے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ اس مرحلے میں پنجاب کے 12 جبکہ سندھ کے 8 اضلاع میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انتخابی نتائج سے قطع نظر ، پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں یہ ایک اچھی اور بڑی پیش رفت ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام میں مقامی حکومتیں بہت اہم تصور ہوتی ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور جاپان سمیت بہت سے ملکوں میںمقامی حکومتیں اور نمائندے بڑے با اختیار ہوتے ہیں اور اپنے شہر، قصبے اورمقامی آبادی کے مسائل حل کرنے میں بڑا فعال اورمتحرک کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا قیام ایک آئینی تقاضاہے۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 141 پابندی عائد کرتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ یعنی جس طرح قومی اور صوبائی سطح کے عام انتخابات آئینی اور جمہوری مشق کا حصہ ہیں اسی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور مقامی حکومتوں کا قیام بھی ایک آئینی اور جمہوری ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاں کی آمرانہ یا نیم جمہوری حکومتیں تو اپنے اقتدار کو سیاسی اور جمہوری چہرہ دینے کی غرض سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرتی رہیں۔ تاہم جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہیں۔ اسکی وجہ عام طور پر یہ بیان کی جاتی ہے کہ منتخب نمائندے اور حکومتیں اپنے اختیارات کی تقسیم نہیں چاہتے ۔ حالیہ انتخابات ایک جمہوری دور حکومت میں منعقد ہوئے ہیں تاہم اسکا اصل کریڈٹ عدالت عظمیٰ کو جاتا ہے جس نے حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 141 پر عمل درآمد کا حکم جاری کیا ۔
تاخیر سے ہی سہی، مگر ان انتخابات کا ہونا جمہوری عمل کی ایک بڑی کامیابی ہے اور مئی 2013 کے عام انتخابات سے شروع ہونے والا سفراکتوبر 2015 کے بلدیاتی انتخابات تک آن پہنچا ہے۔ اس سفر نے کئی مرحلے طے کیے ہیں اور اگر ان تمام مرحلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھیں تو کہانی مکمل ہوجاتی ہے۔ جس کا عنوان یہ ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ۔وہ انتخابات عوام کے حقیقی مینڈیٹ کی ترجمانی کرتے تھے اور بعد کے پے در پے مرحلوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ عوام کی سوچ عمومی طور پر آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں آج سے تقریبا ڈھائی سال پہلے کھڑی تھی۔ ان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کئی سوالات حل ہو جانے چا ہئیں اور کئی سوالات اٹھنے بھی چاہئیں۔ اگرچہ سندھ اور پنجاب میں یہ پہلے مرحلے کے انتخابات ہیں۔جن کے دو مراحل ابھی باقی ہیں۔ پنجاب کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ایک تہائی صوبے کے انتخابات ہوئے ہیںجبکہ دو تہائیمزید باقی ہیں۔لیکن جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں وہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے لئے انتہائی حوصلہ افزاء ہیں۔ ان انتخابات کو حکومتی پالیسیوں کی تائید بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ(ن) کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ سب سے بڑا سوال تحریک انصاف کے لئے اٹھ کھڑا ہو ا ہے کہ پنجاب میں اس کے لئے کوئی جگہ باقی رہتی ہے کہ نہیں۔ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب کے پہلے انتخابی مرحلے میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹ سے دگنا زیادہ ہیں۔ یہی شرح 2013 کے عام انتخابات میں بھی تھی۔ جہاں تک سیٹوں کا تعلق ہے، مسلم لیگ (ن) نے 44 فیصد نشستیںجیت لی ہیں۔جبکہ تحریک انصاف صرف 10 فیصد نشستیں جیت سکی ہے۔ سب سے اہم نتیجہ لاہور کا رہا جہاں پی ٹی آئی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ حالانکہ دعویٰ یہ تھا کہ تخت لاہور مسلم لیگ (ن) کے ہا تھوں سے نکل گیا ہے۔ تاہم نتیجہ یہ سامنے آیا کہ تخت لاہور پر مسلم لیگ (ن) کی گرفت پہلے سے کہیںزیادہ مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) 229جبکہ پی ٹی آئی صرف 12نشستیں حاصل کر پائی۔
اب آئیے ذرا دیگرمرحلوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ بڑے بڑے جلسوں، بڑے بڑے دعوئوں اور بڑے بڑے نعروں کے باوجود تحریک انصاف 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے صرف دو درجن نشستیں جیت سکی۔ ان انتخابات کے بعد اب تک 30 سے زیادہ ضمنی انتخابات ہو چکے ہیں۔ان ضمنی انتخابات کی کہانی بھی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کوئی بڑا معرکہ نہیں مار سکی۔ بلکہ خود عمرن خان میانوالی اور پشاور کی جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار گئے۔ تیسر ا اہم مرحلہ خا ن صاحب کے دھرنوں کے بعد عدالتی کمیشن کا قیام تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور د و دیگر سینئرججوں پر مشتمل اس کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ تحریک انصاف کوئی ایک بھی ٹھوس ثبوت نہ لا سکی۔ فیصلہ یہ سامنے آیا کہ 2013 کے انتخابات میں ایسی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی جو نتائج کو بدل دیتی۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یہ انتخابات عوامی مینڈیٹ کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات سے پہلے حلقہ NA-122کا معرکہ ہوا جس میں خان صاحب کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ ایاز صادق 50 ہزار جعلی ووٹ لے کر جیتے تھے۔ اسی دوران سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ سامنے آگیا جسکی زیادہ تشہیر نہیں ہو سکی۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس کونسل کے سربراہ ہیں اور اسے ایک لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا عدالتی فورم کہا جا سکتا ہے۔ جو سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا مواخذہ بھی کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے اس کونسل کے سامنے درخواست دی ہوئی تھی کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے پی ٹی آئی کی یہ درخواست مسترد کر دی یعنی ایک دفعہ پھر یہ بات سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ اب اس سارے سلسلے کیساتھ تازہ بلدیاتی انتخابات کو جوڑ دیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی مسلسل نہ صرف خود مغالطے میں رہی بلکہ عوام کو بھی مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرتی رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف عام انتخابات سے بلدیاتی انتخابات تک کے اس سفر کا جائزہ لے اورصورتحال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کرے ۔ اسے چاہیے کہ دھاندلی کا نعرہ ترک کرے اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دے۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دو مراحل ابھی باقی ہیں اور 24 اضلاع میں انتخابات ہونے ہیں۔ اگرچہ ووٹرز کے رجحانات سامنے آگئے ہیں۔ پھر بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان انتخابات سے کون کیا سبق لیتا ہے اور 2018کے انتخابات کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے اس کا اندازہ جلد ہو جائے گا۔ لیکن ایک بات نہایت خوش آئند ہے کہ جمہوری عمل آگے بڑھا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ عمل محض رسمی نہ رہے بلکہ اختیارات حقیقی طور پر نچلی سطح پر آئیں اور عوام کو اپنے مسائل اپنے مقامی نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کا موقع ملے۔
تازہ ترین