• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا امریکہ میں سیاسی اخلاقیات سے صرف نظر کیا جارہا ہے؟ امریکہ کے طول و عرض میں انتخابات کا شور شرابہ اب میڈیا کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا نظر آرہا ہے۔ ایک طرف منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک میڈیا سے ناراض نظر آتے ہیں کیونکہ میڈیا عوامی احتجاج کو غیر معمولی طور پر زیادہ دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام کی خاصی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر انتخابی نتائج پر غیر مطمئن نظر آتی ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ پاپولر ووٹ میں ہیلری کلنٹن کا پلہ بھاری نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
امریکہ میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر کے ایک ایسا جمہوری نظام رائج کیا گیا ہے جس میں عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ مگر عوام کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ جو سینیٹر اور کانگریس مین ہیں ان کے لئے اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے منتخب صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ان کے پورے خاندان کو حکومت میں شراکت کی آزادی ہو اور ان کی سیکورٹی کلیئرنس بھی ہونی چاہئے جبکہ اصولی اور قانونی طور پر صدر امریکہ کسی طرح کے کاروبار میں شامل نہیں ہوسکتے جبکہ نومنتخب صدر مکمل طور پر ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی نظام کو نظرانداز کر کے بتایا کہ وہ وہ ایک چالاک اور شاطر انسان ہیں۔ عوام کے ایک طبقے نے ان کو خوب پسند بھی کیا مگر عام عوام کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
رخصت ہونے والے امریکی صدر اوباما نے حسب روایت منتخب صدر کو وائٹ ہائوس بھی مدعو کیا۔ عموماً ایسے موقع پر منتخب صدر اپنے ساتھ میڈیا کو بھی وائٹ ہائوس لے کر جاتے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا جس کا اس وقت ہم بھی حصہ ہیں وائٹ ہائوس کے باہر اس انتظار میں رہے کہ نئے منتخب صدر سے ملاقات ہوسکے گی۔ مگر میڈیا کو اس عمل سے لاتعلق رکھا گیا ۔
نیویارک میں مین ہیٹن کے علاقہ میں ٹرمپ ٹاور ہے جہاں پر نومنتخب صدر کی نجی رہائش گاہ ہے۔ وہ علاقہ اب مکمل طور پر حساس اداروں کے کنٹرول میں ہے پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگا رکھے ہیں اور روزمرہ کی ٹریفک کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اگرچہ نیویارک شہر کی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ تنگی اور پریشانی نہ ہو۔ مگر نئے صدر کو سیکورٹی مہیا کرنا بھی ضروری ہے۔ آجکل نومنتخب صدر کی تربیت بھی ہورہی ہے اور ان کو امور سلطنت سے آگاہی کرائی جارہی ہے جبکہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کا پورا خاندان سرکار کا حصہ ہوگا اس معاملہ پر قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ اگر ان کے خاندان کے تمام لوگوں کی سیکورٹی کلیرنس ہوگئی تو وہ تمام سرکاری معاملات میں شامل ہو جائیں گے اور انتہائی حساس سرکاری معاملات تک ان کی رسائی ہوگی اور وہ اپنے کاروبار کے لئے سرکار کے لوگوں اور اصولوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرسکیں گے۔ اگرچہ ابھی حلف برداری کے لئے کچھ وقت ضرور ہے مگر ٹرمپ تمام معاملات کو جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ پر اعلیٰ انتظامیہ منقسم نظر آتی ہے مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔
امریکہ کے نئے صدر تقریباً 70 سال کے ہیں تاہم عمر رسیدہ نظر نہیں آتے۔ ان کی موجودہ (تیسری) بیگم جو عمر میں ان سے کافی چھوٹی اور نوجوان ہیں ان کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے۔ امریکی معاشرہ میں ٹرمپ فیملی ایک آزاد خیال خاندان ہے۔ ان کی بیٹی نے ان کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ حصہ لیا اور اس ہی وجہ سے گمان کیا جارہا ہے کہ وہ سرکاری حیثیت میں اپنے داماد کو اہم سرکاری حیثیت بھی دیں گے۔ ان کی کابینہ بھی ان کی طرح زیادہ عمر کے لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ اس وقت ان کی اپنی پارٹی میں ان کی کافی مخالفت ہے اور اسی وجہ سے ان کو خطرہ ہے کہ وہ جب قانون سازی کریں گے تو ان کی اپنی پارٹی ان کی مخالفت شروع نہ کردے۔وہ تارکین وطن کے بارے میں خوش کن رویہ نہیں رکھتے اور ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو ہر صورت میں امریکہ سے نکال دیں گے۔ اس سے اندازاً 30لاکھ غیر قانونی تارکین وطن متاثر ہوسکتے ہیں۔ اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس سے امریکی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔امریکہ میں رہنے والے تمام مسلمان ٹرمپ کو قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ ایک تو مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کے نظریات مخفی نہیں ہیں۔ پھر اسرائیل سے ان کا لگائو اور اندرون خانہ اس کی مدد ڈھکی چھپی نہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے غیر ملکی دورہ میں اسرائیل یا روس جائیں گے کیونکہ روسی بھی ان کی جیت پر کافی خوش نظر آتے ہیں۔ مگر امریکی معیشت دان ٹرمپ کے معاشی نظریات سے متفق نظر نہیں آتے اور ان کی جیت کے بعد اسٹاک مارکیٹ کا جو حال ہے وہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ایک اور مسئلہ جو امریکی انتظامیہ کو پریشان کررہا ہے وہ یہ کہ ٹرمپ کی ٹیم امریکی پالیسی کو مکمل تبدیل نہ کردے۔ اس وقت بھی کچھ خودمختار ادارے امریکی حکومت پر نظر رکھتے ہیں امریکی مرکزی بنک فیڈرل ریزرو ایک آزاد خودمختار ادارہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب ٹرمپ کے آنے کے بعد وہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکے گا یا اب سب کچھ ٹرمپ اپنی مرضی سے اور ایک کاروبار کےانداز میں چلانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ کی جیت نے ہاتھیوں اور گدھوں دونوں کو شدید مایوس کیا ہے اگرچہ ٹرمپ گدھوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ مگر وہ گدھا لگتا نہیں۔وہ امریکہ کو بدلنا چاہتا ہے وہ امریکی غیر ملکی سرمایہ کاری کو واپس لانا چاہتا ہے وہ اندرون ملک امریکیوں کو زیادہ روزگار دینا چاہتا ہے، وہ امیروں کے ٹیکس میں کمی چاہتا ہے مگر کیا یہ سب ممکن ہوسکے گا۔ اب فوج کے اخراجات میں کمی کی بات بھی ہوگی۔ کیا جنوری تک کوئی ایسا فارمولا بن سکتا ہے جو ٹرمپ کو محدود اختیارات والا صدر بنا سکے؟


.
تازہ ترین