• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کالم کی اشاعت تک دوست برادراسلامی ملک جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس تشریف لے جا چکے ہونگے۔ انکے اس دورے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ہے لیکن سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی نگاہ میں ہے اور ایک بہت ہی اہم اسلامی ملک کے صدر نے پاکستان کا دورہ کر کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس بڑھک کو ہوا میں تحلیل کر دیا ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے گا۔طیب ایردوان نے جہاں مختلف اقتصادی، تجارتی اور دفاعی شعبوں میںباہمی تعاون کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے،وہاں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی نہایت موثر خطاب کیا۔ ترک صدر نے انتہائی واضح اور دو ٹوک انداز میںکشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام پر ظلم و ستم سے یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔طیب ایردوان نے دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسکی ذمہ داری مغرب کے سر ڈالی جو داعش جیسی تنظیموں کی بالواسطہ سر پرستی کر رہا ہے۔ طیب ایردوان نے کئی مرتبہ علامہ اقبال کا بھی حوالہ دیااور انکی شاعری کی اس فکر کا تذکرہ کیا کہ اگر قوموں کے درمیان اعمال اور افعال کی یکسانیت نہ ہو تو افکار کی یکسانیت کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہ منظر کروڑوں پاکستانیوں کے لئے بڑا ہی خوش آئند تھا کہ پارلیمنٹ کا ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مسلح افواج کے سربراہ اوردیگر عمائدین گیلریوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تین صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بھی تشریف فرما تھے۔ترک صدر ہال میں آئے تو تمام اراکین نے کئی منٹ تک کھڑے ہو کر ڈیسک بجائے اور حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی تمیز کے بغیر معزز مہمان کا والہانہ خیر مقدم کیا۔
پاکستان اور ترکی کی دوستی کی جڑیں انیسویں صدی کے اوائل تک پھیلی ہوئی ہیں۔جب بر صغیر کے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کی حمایت میں ایک زبردست تحریک برپا کی تھی ۔تحریک خلافت کا ولولہ خیز باب برصغیر کے مسلمانوں کی ترک عوام کیساتھ یکجہتی کی لازوال تاریخ ہے۔ یہ تاریخ ترکوں کے تعلیمی نصاب کا مستقل حصہ ہے اورترکی کی نئی نسل ہند کے مسلمانو ں کے کردار سے بخوبی آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ پاکستان سے جانے والے ہر فرد کو اپنے خاندان کا فرد خیال کرتی ہے۔ صدیوں پر محیط دوستی اور خیر سگالی کا یہ رشتہ قیام پاکستان کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو گیااور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طیب ایردوان کی جماعت کے بر سراقتدار آنے سے ان تعلقات میں کہیں زیادہ گرم جوشی پیدا ہوگئی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے بعد ترکی ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے ۔ خیر سگالی، دوستی اور قربت کا یہ رشتہ، دونوں ممالک کے مابین تعاون کے مختلف شعبوں میں ڈھل رہا ہے ۔اس پہلو سے جمہوریہ ترکی کے صدر کا تازہ ترین دورہ یقینا پاکستان کیلئے انتہائی خوش آئند تھا۔ اور جو بد خواہ پاکستان کے تنہا ہونے کی باتیں کر رہے تھے انہیں یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔
طیب ایردوان کے دورے کا ایک اور پہلو جو ہمارے میڈیا میں زیر بحث ہے وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف کی غیر حاضری ہے ۔پہلے تو تحریک انصاف نے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہیں جائے گی جس سے ترک صدر خطاب کریں گے۔ پاکستانی عوام کیلئے یہ اعلان زیادہ دل خوش کن نہیں تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود کی سربراہی میں ایک وفدترک سفیر سے ملاقات کر کے اپنی پوریشن واضح کرےگا اور یہ درخواست بھی کرے گا کہ طیب ایردوان عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کے ایک وفد کو ملاقات کا موقع دیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ ترک سفیر سے کیا بات چیت ہوئی ۔تاہم خود شاہ محمود نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ ترک سفیر نے انہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کیلئے کہا ہے ۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ تحریک انصاف اپنا فیصلہ بدل لے گی۔ مگر پارٹی اجلاس کے بعد خان صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ترک سفیر نے ان سے اجلاس میں شرکت کی "درخواست "کی ہے،لیکن حتمی فیصلہ یہی سنایا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس اعلان کے بعد بھی کچھ لوگوں کو توقع تھی کہ خان صاحب اجلاس میں آجائیں گے اور تاریخ میں ایسی نظیر نہیں بنائیں گے جو آنے والے کئی سالوں تک نا پسندیدہ مثال کے طور پر موجود رہے گی۔ لیکن عملا یہی ہوا کہ تحریک انصاف نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی مشترکہ اجلاس میں تشریف نہ لائے۔ جبکہ وفاق کی تینوں اکائیوں کے سربراہان موجود تھے۔ گمان یہ تھا کہ پارٹی کے بائیکاٹ کے باوجود وفاقی اکائی کے سربراہ ہونے کے ناطے پرویز خٹک اپنی سرکاری حیثیت میں ضرور شریک ہوں گے۔ لیکن یہ بھی نہ ہوا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ پورا پاکستا ن جانتا ہے کہ عمران خان کا تعلق حزب اختلاف کی ایک بڑی جماعت سے ہے اور وہ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم کیخلاف مقدمے کے مدعی بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری ممالک میں اس طرح کی صورتحال زیادہ انہونی نہیں۔خان صاحب کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے موقف کے اظہار کیلئے کوئی بھی قانونی طریقہ کار اختیار کریں، کسی بھی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔انکے اس حق کو بھی نہیں چھینا جا سکتا کہ وہ حکومت اور وزیر اعظم کیخلاف اپنے جذبات یا احساسات کا اظہار کریں۔ مگر ایک بڑے رہنما ہونے کے ناطے ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکومت اور ریاست میں تمیز کریں۔اور حکومت سے مخالفت کو ریاست کے مفادات پر ضرب لگانے تک نہ لے جائیں۔ اسی طرز عمل کا مظاہرہ تحریک انصاف نے کشمیری عوام سے یکجہتی کیلئے بلائے گئے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں کیا بھی تھا۔ جس پر بھارتی میڈیا کئی دن تک بگلیں بجاتا رہا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ آنے سے اجلاس کی اہمیت پر تو کوئی فرق نہیں پڑا َ۔ لیکن تحریک انصاف کی پالیسیوں اور خود سربراہ جماعت کی بصیرت پر ضرور سوال اٹھے گا۔


.
تازہ ترین