• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورا واقعہ سنا کر اشتراوصاف نے عینک اتاری ،دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں اور پھر رُندھی ہوئی آوا ز میں بولے ’’ جب انسان جانور بن جائے تو پھر ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں جانور بڑھتے اورانسان گھٹتے جا رہے ہیں ‘‘ یہ کہہ کر وہ بات کرتے کرتے رُکے ،عینک پہن کر گھڑی سے وقت دیکھا اور پھر خدا حافظ کہتے ہوئے اگلی میٹنگ کیلئے کمرے سے نکل گئے۔گزشتہ 20سالوں سے جیلوں اور قیدیوں کی بہتری کیلئے کام کرتے نامور قانون دان اشتراوصاف سے یہ واقعہ سن کر بلا شبہ بہت شرمندگی اور دکھ ہوا مگر جہاں تک ان کی یہ بات کہ ’’ہمارے ہاں جانور بڑھتے اور انسا ن گھٹتے جار ہے ہیں ‘‘ توجس دیس میں جانوروں کے مزے اور انسانوں کی مشکلیں بڑھتی ہی جارہی ہوں ،وہاں کون پاگل ہوگا جو پھر بھی انسان ہی رہے بلکہ اب تو 68سالوں سے راج کرتے 600خاندانوں اور انکے تابعدار کروڑوں افراد کے آپس کے تال میل نے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ طبقہ اشرافیہ کوتو چھوڑیں اب تو اس طبقے کے جانور بھی انسانوں سے بہتر ۔ اگر یقین نہیں آرہا تو اشتراوصاف کاسنا یا ہوا واقعہ کچھ دیر بعد سہی پہلے چند نمونے ملاحظہ ہوں اپنے ملک کے شاہی جانوروں اور عام انسانوںکے ، مزا نہ آئے تو پیسے واپس ۔27اکتوبر 1958کی رات جب آرمی چیف ایوب خان کی فوجی ٹیم ایوانِ صدر کے ڈرائنگ روم میں صدرا سکندر مرزا سے زبردستی استعفے پر دستخط کروا رہی ہوتی ہے تو عین انہی لمحوں آنے والی بیگم ناہید مرزا جرنیلوں میں گھِرے اپنے بے بس خاوند کو دیکھتے ہی صورتحال بھانپتے ہوئے چیخ مار کر کہتی ہیں ’’ہائے میری بلِّیوں کا کیا بنے گا ‘‘ مطلب ملک باقاعدہ پہلے مارشل لاء اور قوم پہلے ڈکٹیٹر کے حوالے لیکن بیگم صاحبہ کو فکر اپنی بلِّیوں کی۔
ایک طرف سردار نامی وہ گھوڑا جسے صدر ایوب کو امریکی صدر کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کو تحفے میں دینا تھا،اسے 4ڈاکٹر روزانہ چیک کریں اور 10خدمتگار اسکے نخرے اٹھائیں لیکن دوسری طرف اسی گھوڑے کا ایک خدمتگار لیاقت علی وقت پڑنے پر اپنی حاملہ بیوی کیلئے ڈاکٹر لا سکا اور نہ ہی اسے اسپتا ل لے جاسکا لہٰذا اسکی بیوی محلے کی 2عورتوں کے ہاتھوں گھر پرزچگی کے دوران مر گئی، ایک طرف رائونڈ کے محل میں ایک جنگلی بلاِّ جب شاہی موروں کو زخمی کرتا ہے تو نہ صرف 21پولیس اہلکار وں کوشو کاز نوٹس ملے بلکہ جرم ثابت ہونے پر 3اہلکار معطل ہوں اور پھر چند دنوں میں ہی ملزم اشتہاری بِلّے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا ، یہی نہیں اسی ہاؤس پر جب سیکورٹی اہلکاروں عابد اورسیف اللہ نے شاہی باغ سے چوری چھپے امرود توڑکر کھائے تو کیمرے کی آنکھ نے ان کی چوری پکڑی اور اگلے ہی دن انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ،لیکن دوسر ی طرف خضدار سے 10کلو میٹر کی دوری پر سٹرک کے کنارے اپنے جسم سے خود ہی کیڑے نکالتا بابا نصیب اس لئے پاگل ہوا کہ جب اس نے اپنے سردارکے گھر نوکریاں کرتے اپنے پوتوں کوا سکول داخل کروایا تو اس جرم پر سردار نے پہلے 6ہفتے تک اسکے خاندان کو قید کئے رکھا پھر معافی مانگنے کی بجائے تھانے جانے پر بابا نصیب کے خاندان کو وہاں پہنچا دیا گیا کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا،اسی طرح شیخوپورہ کا وہ اصغر مصلّی جو اس لئے پاگل خانے جا پہنچا کہ اس نے زیادہ تنخواہ ملنے پر جب ایک چوہدری کو چھوڑ کر دوسرے چوہدری کے ہاں نوکری کی تو اُ چیّ نک والے چوہدری نے اصغر مصلّی کی بیوی کوبرہنہ کر کے اپنی بھینسوں کے ساتھ باندھ دیا۔
یہاں یہ یادر ہے کہ بابا نصیب اور اصغر مصلّی انصاف کو ترستے ترستے مر گئے مگر انہیں انصاف نہ مِلا اور ملتا بھی کیسے کیونکہ وہ انسان تھے شاہی مور نہیں اور پھر ایک طرف جہاں بلاول بھٹو کی بلِّیوں اور طوطوں ، عمران خان اور مشرف کے کتوں ، زرداری صاحب کے گھوڑے،بکریو ں ،اونٹنیوں اور موجودہ حکمرانوں کی بھینسوں سمیت لاتعداد پالتو جانوروں کے ما حول ائیر کنڈیشنڈ، ان کا رہن سہن شاہانہ، ان کے کھانے ،ٹہلانے اور نہانے کا وقت مقر ر ، یہ ذرا سا سست پڑیں تو ڈاکٹروں کا پینل بیٹھ جائے اورانکی خالص دیسی اور ڈبہ بند ولایتی خوراکیں جبکہ دوسری طرف سرکاری اسپتالوں میں درد کی ایک ایک گولی کیلئے رُلتی مخلوق دیکھ لیں یا تھرپارکر،عمر کوٹ اور سانگھڑ کے ان بچوں پر نظر مار لیں کہ جو کم خوراک اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر 100میں سے 50 اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی مرجائیں ،پھرکیٹی بند ر کا وہ گوٹھ جس کی مسلسل تیسری نسل اس لئے ننگے پاؤں کہ انہیں علم ہی نہیں کہ جوتا بھی لباس کا حصہ ہوتا ہے اور گھارو کا وہ گاؤں کہ جس کے 90 فیصد لوگوں کی 90فیصد بینائی اس لئے چلی گئی کہ یہ خچروں اور گدھوں کا وہ گوبر ( لِد) جلا کر کھانا پکائیں کہ جس کا دھواں اتنا زہریلا کہ بالآخر انسان کو نابینا پن کے دروازے تک لے آئے ۔یہاں لاہور کی وہ ریشماں بھی یاد رہے کہ جو دو ہفتے قبل سارا دن ایک بیڈ کی آس میں اسپتا ل کی سیڑھیوں پر بیٹھی رہی اور پھر وہیں بچہ پیدا کر کے گھر چلی گئی ۔
گو کہ شاہی جانوروں اور عام انسانوں کے لاتعداد قصے اور بھی مگر مجھے یقین ہے کہ آپکی دماغ کشائی کیلئے یہ چند نمونے ہی کافی ہوں گے لہٰذا اب اشتراوصاف کا وہ واقعہ اس یاد دہانی کے ساتھ کہ خانقاہ کے بازار میں جب ایک یہودی نے مسلمان عورت کا نقاب کھینچا تو اس یہودی کے قتل کے بعد بھی مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کیخلاف اعلانِ جنگ کردیالیکن آج مسلمانوں نے اپنی کلّمہ گو بہنوں ،بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہوا تھا یہ اشتراوصاف کی زبانی سنیے ’’ یہ 1997کی بات ہے میں وزیراعظم نواز شریف کا انسانی حقوق کا مشیر تھا، ایک روز ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا معائنہ کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک ایسی بیرک پر پڑی کہ جس کے روشندان ،کھڑکیاں حتیٰ کہ سلاخوں والا دروازہ بھی ٹین کی چادر سے بند کیا ہوا تھا ، میںنے جیل حکام سے پوچھا ’’ کیا یہ بیرک خالی ہے‘‘ جواب مِلا’’ نہیں اس میں بھی قیدی ہیں ‘‘،میں نے حیران ہو کر کہا ’’تو پھر یہ اس طرح بند کیوں‘‘جواب دیا گیا ’’ اس لئے کہ اس بیرک میں خطرناک قید ی ہیں‘‘،میں نے کہا ’’کون سے خطرناک قیدی…… ذرا مجھے اس بیرک کا رجسٹر تو لا کر دکھائیں ‘‘، جیل حکام آئیں بائیں شائیں کرنے لگے تو میں نے سختی سے کہا کہ’’ رجسٹر بھی لاؤاورمیرے سامنے ابھی دروازے سے ٹین کی چادر بھی ہٹاؤ ‘‘ خیر نہ رجسٹر تھا اور نہ لایا گیا البتہ کافی حیل وحجت کے بعد جب جیل حکام نے دروازے سے ٹین کی چادر ہٹائی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 50قیدیوں کی گنجائش والی اس بیرک میں 100سے زیادہ خواتین ننگے فرش پر انتہائی خستہ حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ یوں جڑ کر بیٹھی تھیں کہ جیسے انہیں آپس میں گوند سے چپکا دیا گیا ہو چونکہ میں سب سے آگے تھا لہٰذا ٹین کی چادر ہٹتے ہی ایک قید ی عورت جسے سانس لینے میں بھی دشواری ہور ہی تھی اٹک اٹک کر بولی ’’صاحب میں جوان بھی ہوں اور خوبصورت بھی ،آج مجھے لے جاؤ‘‘، ایک اور قیدی خاتون پنجابی میں بولی ’’ وے باؤ چھڈ اینوں ،مینوں لے چل ، پھر تیسری آواز آئی’’ صاحب جو کہو گے کروں گی مگر خد ا کیلئے مجھے اس جہنم سے نکالو ‘‘ اور پھر چند لمحوں میں ہی پوری بیرک میں شور مچ گیا، ہر عورت چیخ چیخ کر کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی ۔
اشتر اوصاف بتاتے ہیںکہ پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ ہو کیا رہا ہے لیکن پھر جیل حکام کے جھوٹ ، بیرک کو اس طرح بند کر کے عورتوں کو حبس اور گھٹن میں رکھنا اور دروازے سے ٹین کی چادرہٹتے ہی خواتین کا ردِعمل مطلب جب پوری کہانی سمجھ آئی تو اگلے ہی لمحے ایسے لگا کہ جیسے میرے جسم سے کسی نے جان نکال لی ہواور اس سے پہلے کہ میں گرجاتا میں بیرک کی سلاخوں کا سہارا لیکر وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اسکے بعد کب آنسوبہے ،کب ہچکیاں شروع ہوئیں اور میں کب تک زمین پربیٹھ کر روتا رہامجھے کچھ یاد نہیں۔ پورا واقعہ سنا کر اشتراوصاف نے عینک اتاری ،دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں اورپھر رُندھی ہوئی آواز میں بولے’’جب انسان جانور بن جائے تو پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں جانور بڑھتے اور انسان گھٹتے جا رہے ہیں‘‘لیکن دوستو! بات پھر وہی کہ جس دیس میں جانوروں کے مزے اور انسانوں کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہوں وہاںکون پاگل ہوگا جو پھر بھی انسان ہی رہے۔
تازہ ترین