• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، بعض ملکوں میں اس کی رفتار اتنی تیز رہی کہ وہاں اس کو روکنے کے اقدامات کرنے پڑے جیسے چین، بھارت اور پاکستان۔ چین نے ایک بچّہ فی خاندان والا نسخہ آزمایا۔ یہ اتنا کامیاب رہا کہ اب اس کو اس پالیسی سے دست بردار ہونا پڑ رہا ہے۔ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کا تجربہ کیا گیا اور یہ بڑی حد تک کامیاب رہا، دوسرے وہاں خواتین پیدائش سے پہلے ٹیسٹ کرواتی ہیں اور لڑکی کی صورت میں اسقاط کروا لیتی ہیں اور اکثر اناڑی دائیوں کے ہتھے چڑھ جانے پر لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں اربوں روپیہ اور لاکھوں افراد کو استعمال کر کے اس طریقے میں سو فیصد کامیابی نہیں ہوئی البتہ درجنوں این جی اوز نے اس بہانے خوب ڈالر کمائے۔
بات پرانی ہے جب ایک ماہر معاشیات رابرٹ مالتھن نے دنیا کو بتایا کہ آبادی میں اضافے کی شرح غذائی وسائل کی شرح کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتی ہے، اس پر اعتراض کیا گیا کہ سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت غذائی وسائل کی شرح کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصے یہ بات دبی رہی مگر پھر معلوم ہوا کہ نظریہ درست ہے۔ ہماری آبادی اس کا واضح ثبوت پیش کر رہی ہے۔ 1951ءمیں ہماری آبادی 33.74ملین تھی جو 1972میں یعنی 21سال میں 65.31ملین ہو گئی اور 1998ء میں 132.35ملین ہو گئی۔ اگراب 2016میں مردم شماری ہو گی تو ہماری آبادی کم از کم 195.50ملین کے آس پاس ہو گی یعنی 18سال میں 63.50ملین کا اضافہ، سرکاری طور پر اضافے کی جو شرحیں بتائی گئی ہیں ان کے مطابق 2007ءمیں شرح 1.88فیصد، 08میں 2.10، 09میں 2.08اور پھر کم ہوتے ہوتے 012میں 2فیصد پر آ گئی مگر دوسری جانب مجموعی آبادی بڑھتی رہی جو 2012میں 180.71ملین ہو گئی۔ اگر مارچ 2016میں مردم شماری ہو جاتی ہے تو ملک کی مجموعی آبادی 185اور 195ملین کے درمیان ہو سکتی ہے جس میں 52فیصد مرد اور 48فیصد خواتین ہوں گی۔ 98میں شہری آبادی کی تعداد 43ملین تھی، دیہات میں اس سے دگنی یعنی 89ملین سکونت پذیر تھی۔مردم شماری کا عمل چٹکی بجاتے ہی مکمل نہیں ہو جاتا۔ میں نے اپنے قدیم ادارے پاکستان ادارے شماریات جو مردم شماری کرانے کا ذمہ دار ہو گا سے دریافت کیا کہ کیا مردم شماری مارچ 2016ءمیں ہو جائے گی؟ تو جواب ملا کہ اب تک فنڈز نہیں ملے اور نہ کوئی واضح ہدایات حاصل ہوئی ہیں۔اگلی مردم شماری جب ہو گی اس کے اپنے خدوخال ہوں گے جو پچھلی مردم شماریوں سے مختلف ہوں گے۔ مثلاً:
-1 شہری آبادی میں دیہی آبادی کے مقابلے میں آبادی کی رفتار تیز ہو گی اور تناسب حیرت انگیز طور پر بڑھ جائے گا۔ سندھ میں شہری آبادی دیہی آبادی سے تجاوز کر جائے گی۔
-2قصبات اور چھوٹے شہروں کے مقابلے میں بڑے شہروں خصوصاً کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ (واضح ہو کہ برطانوی دور میں صوبۂ سندھ کے یہی کمشنر ڈویژن تھے) ملتان، فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ۔1998 -3میں ملک میں دس لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے شہر صرف پانچ تھے، کراچی اور لاہور ان میں شامل نہ تھے۔ اب 20کے قریب ہوں گے۔
-4 شہروں کا انفراسٹرکچر (پانی کی فراہمی، صفائی، ٹرانسپورٹ، اسپتال، اسکول، کالج) بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہیں گے۔
-5 فی الوقت ساڑھے 6کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسّر نہیں، ان کی اکثریت ان تالابوں، جوہڑوں، ندی، نالوں سے پانی پیتی اور استعمال کرتی ہے جن سے جانور بھی پانی پیتے ہیں۔6۔یہی وہ آبادی ہے جن کو ذاتی بیت الخلا کی سہولت حاصل نہیں۔7۔ ملک میں مسور اور چنے کی دال، بناسپتی گھی اور دودھ کی قلّت ہے۔ گوشت کے خرچ کا اوسط بہت معمولی ہے اسلئے گدھے کتّے، بلّی اور مردہ جانوروں کے گوشت کی فروخت بڑھ رہی ہے۔8۔غریب انسانوں کو علاج معالجے کی سہولت حاصل نہیں۔ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی تعداد کم ہے۔ خصوصی ماہرین کی فیس ایک متوسط آمدنی پانے والا فرد ادا نہیں کر سکتا۔ آبادی کے اضافے سے ان کی مانگ اور فیس اور بڑھ جائیگی۔ 9۔صحت کے عالمی معیار کے بلند ہونے اور نئی نئی ادویات کی ترویج کی بدولت پاکستانی شہریوں کی عمر کا اوسط 2011ءمیں 66سال تھا۔ لہٰذا سرکاری ملازمت کی عمر 60سے بڑھا کر 65سال کر دی جائے۔ اس طرح حکومت کو پنشن فنڈ میں بچت ہو گی۔ دوسری جانب 60سال سے زائد عمر والوں کا تناسب بڑھ جائے گا۔ 2016ءکی مردم شماری میں ان کی تعداد کا اوسط 11یا 12فیصد ہو جائے گا۔ حکومت کو ان لوگوں کی رہائش، علاج معالجے، تفریح اور ٹرانسپورٹ کے معاملات میں ایسی ہی رعاتیں دینا ہوں گی جو برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا میں مروّج ہیں۔ ان ملکوں میں ہمارے 60سالہ بزرگ ان رعایتوں سے مستفید ہو کر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔10۔شہروں کی آبادی میں اضافے سے نئی کچّی آبادیاں وجود میں آئیں گی اور امن و امان کی صورتحال بگڑنے اور جرائم کی شرح میں اضافے کا بھی اندیشہ ہے۔ صوبائی حکومتوں کو اس معاملے میں چاق و چوبند ہونا ہو گا۔
ہم عالمی یوم آبادی ایک آدھ سیمینار سے نبٹا دیتے ہیں جس میں گھسے پٹے موضوعات پر اظہار خیال ہوتا ہے، آبادی کے آنے والے سیلاب پر قابو پانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی شدید ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پریشانی نہ ہو۔
تازہ ترین