• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس دوران پاکستان دو داخلی مسائل میں الجھا ہوا ہے ، اسے دو طرفہ بیرونی دبائوکا بھی سامنا ہے، اور یہ صورت ِحال اس کے استحکام کے لئے خطرناک ہے۔ پہلے داخلی مسئلے کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے ہے ، جواطمینان بخش نہیں ہیں۔ وزیر ِاعظم آرمی چیف کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دیتے نظر نہیں آتے۔ سویلین قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان انڈیا، افغانستان ، کابل مخالف طالبان اور بھارت مخالف جہادیوں کے حوالے سے اتفاق موجود نہیں ۔ مزید یہ کہ جمہوری حکومت کا ایک طبقہ رینجرز کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں سیاست دانوں کی بدعنوانی پر ہاتھ ڈالنے کے لئے اختیارات دینے کے حق میں نہیں۔ دوسرا داخلی مسئلہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں اور حکمران جماعت کے درمیان محاذآرائی کا تسلسل ہے۔ اپوزیشن کسی بھی طریقے سے نواز شریف صاحب کو نہ صرف عہدے بلکہ ہمیشہ کے لئے سیاسی منظر نامے سے ہٹانا چاہتی ہے کیونکہ پی ایم ایل (ن) کے پاس اور کوئی اتنا مقبول لیڈر نہیں ، چنانچہ وہ اگلا الیکشن ہار سکتی ہے ۔ تاثر ہے ان دونوں ایشوز نے میڈیا،عدلیہ، گلیوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کسی نہ کسی طور رسہ کشی میں شامل کرکے استحکام کو برہم کردیا ہے۔
بیرونی دبائو انڈیااور افغانستان کی طرف سے ہے ۔ کشمیر میں علیحدگی کی تحریک کے حالیہ دنوں زور پکڑنے کے بعد بھارت کی حکمران جماعت، بی جے پی نے وادی میں ڈھائے جانے والے ستم ،انسانی حقوق کی سنگین پامالی اورشہریوں سے وحشیانہ سلوک سے توجہ ہٹانے کے لئے لائن آف کنٹرول اور عالمی بارڈر کوگرم کردیا ہے ۔ پاک بھارت کشمکش سے زیادہ شاید ہی کوئی چیز عوام کی توجہ حاصل کرتی ہو۔ اس کے ہوتے ہوئے دیگر تمام ایشوز دب جاتے ہیں۔ پہلے تو بھارت نے پاکستان کے خلاف ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دعویٰ کیا ، جو بے بنیاد نکلا۔ اس کے بعد سرحد پر پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اُن کا اپنا نقصان کہیں زیادہ ہوا ہے ۔ اس وقت مود ی کو بڑے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کے اقدام پر عوام میں پائے جانے والے اشتعال کا سامنا ہے ۔ اس اقدام نے بھارت میں ایک بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ چنانچہ مودی سے کچھ بعید نہیں کہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے سرحد یا لائن آف کنٹرول پر تازہ چھیڑ خانی کر بیٹھے ۔
پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے ۔ افغان حکومت اُن پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں جو پاکستانی سرحد کے پاس افغان سرزمین پر موجود ہیں اور وہ پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی حکومت اُن افغان طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار نہیں جو پاکستانی علاقے میں موجودہیں اور وہ افغان سرزمین پر کارروائی کرتے ہیں۔ طالبان کی اندرونی صفوں میں ہونے والی کشمکش کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہوجاتا ہے کیونکہ سخت گیر موقف رکھنے والے گروہ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے رہتے ہیں۔ کچھ انتہائی شدت پسند طالبان کی صفوں سے نکل کر داعش کا روپ دھار چکے ہیں، اور داعش اسلام آباد اور کابل، دونوں کے خلاف ہے ۔داعش نے فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ بھی روابط قائم کرلئے ہیں کیونکہ ان کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ ان میں سے کچھ گروہ مبینہ طور پر بلوچستان کے کچھ حصوں کو اپنے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان میں کارروائی کرتے ہیں۔ افغان طالبان بھی پاکستان سے ناراض ہیں کیونکہ سی آئی اے نے طالبان رہنما ، ملا منصور کو پاکستانی علاقے میں ہلاک کیا تھا۔ ملامنصور کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ کابل کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کررہا تھا۔ ان تمام مسائل کے گرداب میں ایک فیکٹراہم ہے ، اور یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ہی ملک کے نیشنل سیکورٹی ڈاکٹرائن کو تشکیل دیتی اور کنٹرول کرتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور سویلین قیادت کے درمیان تنائو کاتاثر ابھرتا ہے کیونکہ سویلین حکومت اپنی مرضی سے خارجہ پالیسی چلانا چاہتی ہے ۔ اس کی امریکہ، چین ، انڈیا اور افغانستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اور عوام کی منتخب کردہ حکومت ہونے کے ناتے وہ انہیں آگے بڑھانا چاہتی ہے ۔ تاہم تاثر ہے کہ یہاں نیشنل سیکورٹی کا بیانیہ راہ میں حائل ہوجاتا ہے ۔ یہ ڈاکٹرائن بھارت کو دشمن اور کشمیر کے پاکستانی خواہشات کے مطابق حل کو خارجہ پالیسی کا اہم ترین سنگ میل قرار دیتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جہادی گروہوں کو استعمال کرنے کا الزام باہر کی دنیا کی طرف سے لگتا ہے ۔ اس دوران یہ موقف بھی سامنے آتا ہے کہ ’’دوست افغانستان ‘‘ وہی ہے جو بھارت کا دشمن ہو۔ چنانچہ کابل میں بھارت کو زچ کرنے کے لئے طالبان کو اثاثہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اس پالیسی کا پاکستان کو بے حد نقصان ہوا ہے ۔
اس وقت تاثر ہے کہ سول سوسائٹی، میڈیا، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں کم از کم سویلین حکومت کی بالا دستی کے ایشو پر متحد ہیں اور چاہتی ہیں کہ فوج بطور ادارہ سویلین حکومت کے کنٹرول میں ہو۔ نواز شریف، جو پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک مقبول رہنما ہیں، سیاسی بالا دستی کے لئے پرعزم ہیں، چنانچہ سویلینز اور فوج کے درمیان تنائو کا تاثر خارج ازامکان نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماضی میں کابل اور کشمیر میں غیر ریاستی عناصر کو فعال کرنا پاکستان کو بہت مہنگا پڑا ہے ۔ اس کی وجہ سے ملک میں بے پناہ قتل وغارت ہوئی ہے ۔ افغان طالبان ، پاکستان طالبان اور فرقہ وارانہ انتہا پسندوں نے مل کر پاکستان ، کابل اور انڈیا کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ستم یہ ہے کہ پاکستان ان کا ہدف ہونے کے باوجود اپنے مخالفوں کی جانب سے ’’دہشت گردی کا علاقائی مرکز‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ عالمی برادری کی طرف سے پڑنے والے دبائو کی وجہ سے فوج اور سویلینز کے درمیان تنائو مزید بڑھتا ہے ۔ دیگر مسائل اپنی جگہ پر، لیکن پاکستان کو فوج اور سویلینز کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین