• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کے باشندے اپنے وطن سے یکساں محبت کرتے اور اس کے یکساں وفادار ہوتے ہیں۔ یہ مادہ قدرت نے جانوروں، چرند ، پرند میں بھی ٹھیک ٹھیک استوار کررکھا ہےکہ وہ مالک و راکب سےوفا کرتے ہیں۔اب جب ہم اپنے ملک پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں ، تو ہر سو یہ نقشہ بہ وجوہ آویزاں ہے کہ ایک تعداد تو زیادہ محب وطن ہے اور دوسری تعداد ان کی نسبت کم محبِ وطن ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ کسی کسوٹی پر قیام پاکستان تا امروز نہ تو یہ پرکھا جاسکا ہے اور نہ ہی کسی آوزان کے تحت معلوم کیا جاسکا ہے کہ کون زیادہ محب وطن ہے اور کون کم… لیکن پھر بھی ہر طرف غلغلہ بس یہی ہے کہ ’’وہ سب سے زیادہ محب وطن ہے‘‘ دوسرے معنوں میں یہ اس امر کا اعلان بھی ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کا یہ معاملہ ہمارے ہاں قدرت کے مروجہ انضباط کے برعکس اور فطرت کے سلاسل و قیود سے آزاد ہے۔ وطن عزیز کا تقریباً ہر شعبہ اس دوڑ میں سبقت کا خواہاں ہے لیکن ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا اس سمت میں صف اول میں ہے۔ چونکہ ذہن سازی کا اختیار مسجد و منبر سے بھی زیادہ میڈیا نے سمیٹ رکھا ہے اس لئے لا محالہ پوری قوم، یا اس کے قابل ذکر کے اذہان وہی سوچ اپناتے ہیں جو سماعت و بصارت کے توسط سے ان تک پہنچتے ہیں ، ہمارے ہاں چونکہ جذبوں سے زیادہ تجربات غالب رہتے ہیں اس لئے مغرب یا دیگر جدید دنیا کے برعکس ہم ایسی سوچ کو عقل و خرد کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے فوری طورپر عقل و خرد کو اس کے زیر تسلط و تابع لے آتے ہیں۔اس تناظر میں ایک مثال سامنے رکھتے ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں پاکستانی کروڑوں عوام و خواص کو ہیلری کلنٹن کی کامیابی کا اس قدر یقین تھا جیسا کہ انہیں یقین ہے کہ سورج مشرق سے ہی نکلے گا۔ یہ یقین محکم کس نے ان عوام کے اذہان و قلوب میں راسخ کیا۔ یہ ہمارے میڈیا، قیادت و سیادت ہی کی فن کارانہ چابکدستی کا کمال تھا۔ چونکہ ہماری خواہش تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہار جائے اور ہمارے ’ہار‘ ہیلری کلنٹن کی’ گردن‘ کے ہار بن جائیں اس لئے ہمارا سارا زور اس بات پر تھا کہ ہیلری آوے ہی آوے۔ خواہشات کے ایسے بحرِ ظلمات میں ہمارے چشمانِ ناز یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہتی ہیں کہ حقائق کیا ہیں! یہ اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ہم حقائق پر خواہشات کی طلائی ملمع سازی کی فاسد و جامد روایات کے امین ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ میں جو بھی صدر آیا ہے،خواہ وہ ڈیموکریٹ ہو یاری پبلکن، وہ ہم سے زیادہ اپنے ملک و عوام کا وفادار ہوتا ہے ۔ لیکن چونکہ ہم ہمیشہ اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر کی دنیا کے معاملات کو اپنے معاملات سمجھتے ہیں، بسا اوقات ان معاملات میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے کبھی ایک کبھی دوسرے ملک کی دوستی کا واویلا مچاتے ہیں، یوں بنابریں ہماری نظر اپنے ملک و ملت سے زیادہ دوسروں کے ملک و ملت پر ہوتی ہے، اپنے معاملات سے ہم غافل اور دیگر کے معاملات کے حوالے سے ہم چوکنا ہیں۔ اس خاطر ہم حقائق سے قطع نظر اپنے لوگوں کے سامنے ایسی تصویر کشی کرتے ہیں جو ہماری خواہش یا خوف کے مطابق ہوتے ہیں۔ اب ہماری خواہش یہ تھی کہ ہیلری کلنٹن آئے۔ بھئی کیوں آئے؟ اس لئے کہ ہم نے خواب دیکھ رکھا تھا کہ ہیلری صاحبہ مملکت خداد اد پاکستان کی خاطر وہ بارِگراں اپنے نرم و نازک کندھوں پر اٹھا کر خراماں خراماں رواں ہوں گی جو ہم اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ۔یہی کچھ پچھلے انتخابات کے وقت کیا گیا۔ ہم نے باراک اوباما کو ایسا راسخ العقیدہ مسلمان بنا ڈالا کہ جسے بس ’اُمہ‘ کی فکر ہی دامن گیر ہو۔ یہ نہ سوچا کہ وہ مملکت خداداد پاکستان کا نہیں امریکہ کا صدر بنے گا۔ تاریخ یہی ہے کہ ایک امریکہ پر کیا موقوف، دنیا کے تمام مہذب ممالک میں سربراہان مملکت بلا امتیاز سیاسی، جماعتی ، مذہبی و لسانی امتیاز کے محض انیس بیس کے فرق سے وہی پالیسیاں بروئے کار لاتے ہیں جو ان کے مملکتی مفاد میں ہوتی ہیں، یوں سوال یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کی بجائے اگر ہیلری کلنٹن آتیں تو کیا وہ مسئلہ کشمیر سمیت ہمارے وہ تمام مسائل حل کروا دیتیں جن کے باعث ہم پریشان بلکہ ہلکان ہیں؟ کیا مسلمان امریکی صدر نے جو کچھ کیا ہم یہی چاہتے تھے؟
شاید یہ بات بری لگی لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ،کہ ہمیں چونکہ اپنے آپ پر اعتبار نہیں ہے اور ہم عمل سے فرار کے کسی جواز کی تلاش میں ہوتے ہیں، اس لئے ہمیشہ ایک ایسے دیوتا کا مجسمہ ایستادہ کردیتے ہیں جو بس ہمارے سارے معاملات ہماری ہی مرضی کے مطابق سدھارے.... دنیا عمل کے میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم ابھی تک خواب، خیال اور خواہشات کی دنیا سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ اب چونکہ پاکستانی تجزیہ کاروں کے تمام دعوے ہوا میں دھول بن کر پاکستانیوں کو برانگیختہ خیال کئے ہوئے ہیں تو یہ بقراط کہتےہیں کہ یہ نزلہ، زکام گلے کی خراش موسم کی تبدیلی کا شاخسانہ ہے سبحان اللہ! احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا تھا،
خدا کے لب پہ ہنسی ہے خدائی جھوم رہی ہے
تمہاری بات چلی ہے مری حسین خطائو
کہتےہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی ’نیا‘ ڈبودی، جھوٹ سفید جھوٹ۔ بین الاقوامی سطح پر میڈیا یوں یکطرفہ نہ تھا۔ وہ پاکستانی مبصرین کی طرح خواہشات پر مبنی خوش فہمیوں کا کاروبار نہیں کرتے ۔ ہم میں سے کتنے اصحاب نے وہ تمام بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ملاحظہ فرمائے ہیں جو ان انتخابات پر پروگرام دیتے تھے! ایک فیصد نے بھی نہیں۔ لیکن آج پورا پاکستان بیرونی میڈیا دیکھے بغیر کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ نے تو پوری دنیا کو احمق بنادیا۔جس میڈیا نے یہ یقین راسخ کرایا تھا کہ ہماری ہیلری، تمہاری ہیلری، مادام ہیلری، مادام ہیلری... وہی یہ ڈھول پیٹ رہا ہے کہ دیکھئے دنیا بھر کے تجزیہ نگار ماموں بنادئیے گئے! تاکہ اس کی آڑ میں اپنے ناقص بلکہ پلانٹڈ تجزیوں کا سارا ملبہ بیرونی میڈیا کے سر تھوپا جاسکے! عرض یہ ہے کہ میڈیکل سائنس کا دو ٹوک نظریہ یہ ہے کہ مریض کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مریض علاج کی خاطر تیار نہ ہوجائے خواہ آپریشن ہی واحد علاج قرار پائے! بلاشبہ ہم زندہ قوم ہیں، ہمیں تلخ حقائق کا سامنا کرنا چاہئے۔دشمن کی میلی آنکھ اُس وقت ہماری طرف اٹھنے کی جرات نہیں کر پائے گی جب ہم اپنے ملک و عوام کی دولت کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھیں گے! یہ ایک ملین ڈالرکا سوال ہے کہ ہم میں سے آج کتنے ایسے محب وطن ہیں جنہیں ناجائز دولت ملے، اور وہ اس سے یہ سوچ کر اجتناب کرے کہ نہیں یہ پوری ‘’اُمہ‘ کی امانت ہے۔ کیا آج ہم میں سے اکثر اس جستجو و ہیجان میں مبتلا نہیں کہ باقیوں نے تو ملک کو لوٹ کر کھالیا ہے، ہائے ہائے ہم رہ گئے ہیں۔ چونکہ ہم اپنے ملک کے لئے آپ دیمک ہیں، اس لئے بیرونی دنیا ہم پر اعتبار نہیں کرتی، یہاں تک کہ سارک ممالک بھی پاکستان نہیں آتے، اقوام متحدہ کے اجلاس میں دنیا بھر کے نتھو خیرو کی بات تو ہوتی ہے، کشمیر کا ذکر نہیں کیا جاتا،وجہ کیا ہے ؟
کوئی پرساں نہیں اپنا الہٰی شہرِ خوباں میں
بھری بستی میں کوئی تو ہمارا مدعا سمجھے



.
تازہ ترین