• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Donald Trump Will Lead The Us In The Right Direction Dr Arjumand
راجہ زاہد اختر خانزادہ،آصف علی بھٹی...رپبلکن پارٹی کے رہنما پاکستانی نژاد مسلمان امریکی اور پیرس شہر ٹیکساس کے میئر ڈاکٹر ارجمند ہاشمی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اس لیے کی کہ ان کو پرائمری انتخابات میں ہی ری پبلکن پارٹی کا مینڈیٹ حاصل ہوگیا تھا اور انتخاب جیتنے کے بعد یہ بات ثابت بھی ہوئی ۔

ڈیلس میں اپنی رہائش گاہ پر پاکستان کے صحافی اور مقامی صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ارجمندہاشمی کا کہناتھا کہ وہ ٹرمپ کی تمام پالیسوں سے مکمل اتفاق نہیں رکھتے تاہم ان کی اکثریتی پالیسیاں امریکا کو ایک عظیم ملک بنانے کی طرف لے کر جائیں گی ۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں 2سے3ملین غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق ٹرمپ نے جو بیان دیا ہے وہ اس کے حق میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ سب لوگ قانونی طور پر اس ملک میں آئے ،اس ملک کا قانون توڑ کر یہاں داخل نہیں ہوئے جبکہ ان لوگوں نے اگر غیر قانونی کام کیاہے تو ان کو کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے، اس طرح کے اقدامات سے غیر قانونی لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور قانون کا بول بالا ہو گا، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا اعلان بھی کیا تھا اور اگر وہ حلف اٹھانے کے بعد ایسا کچھ کرنے جا رہے ہیں تو اس میں اچھمبے کی کوئی بات نہیں۔

ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے کہا کہ ملک کی سیکورٹی سب سے اہم ہے جس کے لیے لیڈر شپ کو کڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، میں پہلے امریکن ہوں اس لیے میں پہلے امریکی سیکیورٹی کو ترجیح دوں گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کی ترید کی کہ وہ امریکی اسٹبلشمنٹ کا حصہ ہیں ،انہوں نے کہا کہ وہ صرف پیرس شہر کے میئر ہیں اور اپنے علاقہ کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا ڈو مور کا جو مطالبہ کرتا رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کو ڈکٹیشن دیتا ہے لیکن اگر آپ ڈکٹیشن لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی خود مختاری کو کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔اس طرح اگر آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور دوسروں کے بھروسے پر نہ چلیں تو پھر آپ ایک خود مختار ملک بن جائیں گے اور آپ ایسے کسی مطالبے کر رد بھی کرسکتے ہیں۔انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر ہوں گے اور جب تک وہ حلف نہیں اٹھا لیتے اس وقت تک یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ وہ پاکستان کی اس ضمن میں کیا مدد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکاکے جمہوری نظام میں ایک آدمی کے زور پر پورا ملک نہیں چلتا اور نہ ہی پالیساں ایک شخص کے کہنے پر بنائی جاتی ہیں بلکہ جو اس میں تجربہ رکھتے ہیں وہ مشاورت دیتے ہیں جبکہ یہاں کانگریس بھی موجود ہےجوکہ اس بات کو منظور یا نامنظور کرتی ہے،پھر ان کے اوپر سینٹ بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں صدر کو اتنی خود مختیاری نہیں ہوتی کہ وہ آج جو سوچے کل اس پر عملدرآمد کروا دے اس کے لیے یہاں سسٹم موجود ہے اور انہیں امید ہے کہ سسٹم ہی کام کرئے گا اور صدر ٹرمپ کی رہنمائی میں چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی اور مجھے امید ہے کہ پاکستان کیلئے بھی چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی، ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں جنگ کے خلاف ہیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کاکہناتھا کہ پاکستان کی سیاست اور اسٹبمشمنٹ کے حوالے سے میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، میں یہاں پر امریکامیں عرصہ دراز سے مقیم ہوں اس لیے صرف امریکا کی سیاست پر سیرحاصل گفتگو کر سکتا ہوں،تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان میں ضروری ہے کہ وہاں پر احتساب ہو اور جو لوگ پسند کرتے ہیں وہ نظام نافذ کیا جائے جس میں سب کا احتساب ہو اور جو اس طرح نہیں کرتا وہ دوبارہ منتخب نہ ہوسکے ۔پاکستان میں سیاسی استحکام وہاں کے عوام کو خود لے کر آنا ہوگا ،حکومت اپنے فیصلوں پر کار بند نہیں ہوگی اس وقت تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا آغاز نہیں ہو سکتا ۔
تازہ ترین