• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پہلے کی بات ہے میرے دوست جاوید اقبال اعوان جو کچھ عرصہ پہلے ہی فیڈرل سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ دوسرے دوست جناب ساجد علی جو پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے چیئرمین تھے وہ بھی کچھ عرصہ پہلے ہی ریٹائر ہوئے ہیں ان دونوں کے ساتھ میری ملاقات ہوئی جس میں میرے دوست اور ادب شناس افضال احمد بھی شامل تھے۔ بہت ہی دلچسپ بحث رہی۔ ہم سب نے تاریخ، فلسفہ، ادب اور سماج پر کافی پرمغز گفتگو کی۔ ان میں ایک موضوع گڈگورننس کا بھی تھا۔ گفتگو زیادہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں تھی۔ میرا سوال تھا Good Governanceکا اردو ترجمہ کیا ہوسکتا ہے۔ اس پر علیحدہ بحث کی گنجائش تھی مگر آسانی کے لئے یہ سوچا گیا کہ گڈ گورننس کا مطلب اچھی طرز حکومت کے طور پر لینا چاہئے اور اس کی بنیادی ذمہ داری قانون کا مکمل نفاذ اور احترام اس کے بعد شہریوں کا مکمل تحفظ۔ سب دوست اس مطلب سے متفق تھے۔ اس ہی گفتگو اور بحث میں ملک میں رائج پینل کوڈ اور پولیس کے بنیادی نظام پر بات چیت ہوئی۔ پینل کوڈ اور نظام پولیس کو فرنگی سرکار نے لارڈ میکالے کی فکری سوچ کے بعد نافذ کروایا اور یہ قانون اور نظام اچھی بری حالت میں اب بھی رائج ہے۔ اس کا کوئی بھی متبادل نظام اب تک پاکستان میں کسی نے بھی نہیں بنایا۔ اب تک ملک پر فوج اور سیاست دان کافی حکومت کر چکے ہیں۔ مگر اچھی طرز حکومت کسی بھی دور میں نظر نہیں آئی۔ بس جمہوریت ، سوشلزم اور اسلامی نظام کا ڈھول بجایا جاتا رہا مگر سب اپنے اپنے مفادات کے ساتھ ملک میں اچھا برا نظام چلاتے رہے۔میاں نواز شریف کی حکومت کامیاب تو ہے کہ ان کے دور حکومت میں اسمبلی میں اپوزیشن بھی ان کے ساتھ ہے۔ وہ جمہور کی بجائے جمہوریت کو بچانے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی جمہوریت کا راگ الاپتی رہی ہے۔ اب جب فوج کی طرف سے حکومت کو یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ اچھی حکومت اور بہتر حکمرانی کی ضرورت ہے تو اسمبلی کے اندر جو ردعمل سامنے آیا وہ بہت ہی مایوس کن ہے۔ میاں نواز شریف کے حلیف بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے پختون محمود خاں اچکزئی نے فوج کے بیان پر جو ردعمل دیا ہے وہ میاں نواز شریف کی حیثیت کو متاثر کر رہا ہے۔ محمود خاں اچکزئی کا خاندان حکومتی مراعات کے حوالے سے بہت زور آور ہے۔ ان کے والد عبدالصمد خاں اچکزئی بلوچی گاندھی کی حیثیت سے مشہور تھے اور گاندھی کی تعلیمات کو اپنا منشور کہتے تھے اس زمانہ میں چار گاندھی مشہور تھے ایک تو بھارت کے مشہور زمانہ گاندھی جی جو عدم تشدد کا پرچار کرتے تھے۔ مگر ایک بھارتی گوڈسے نے ان کو قتل کردیا۔ پھر باچا خان جو سرحدی گاندھی کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے۔ شیخ عبداللہ کشمیری گاندھی مانے جاتے تھے۔ خیر یہ تو ماضی کے قصے اور تاریخ ہے محمود خاں اچکزئی کو کیا سوجھی جو فوج کے ادارےپر اسمبلی کے فلور پر تنقید شروع کردی اور اشرافیہ کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ ان کو شاید یاد نہیں رہا گزشتہ سال اس اسمبلی نے متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا اس کے 19،20 نکات تھے۔ جن میں سے بیشتر سول سرکار کے لئے تھے۔ جو نکات عسکری حلقوں کے لئے تھے ان پر ضرب عضب کے ذریعے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ مگر سول سرکار اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے پہلے جب پیپلز پارٹی کے آصف علی زر داری این آر او کی وجہ سے صدر پاکستان بنے تو آئے دن خبریں آتی تھیں کہ ان کی سرکار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ان کے زمانے میں دو وزیر اعظم برطرف ہوئے۔ فوج نے نہیں کئے، ان پر کرپشن کا الزام لگا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے نتیجے میں ان کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ان کے خلاف دیگر مقدمات کےابھی تک کوئی واضح فیصلے منظر عام پر نہیں آ سکے اور اس کی وجہ حکومتی ادارے جو جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے سیاسی حلیفوں کی مدد کر رہے ہیں ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی اداروں کی ملی بھگت سے نظر انداز ہو رہی ہے ۔ اب جب کرپشن اور بدانتظامی عروج پر ہے پھر جمہوریت کے لئے جنگ کی تیاری میں محمود خان اچکزئی اور دیگر اشرافیہ صف بندی کر رہے ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو عوامی مفاد کے لئے اسمبلی میں کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ ترقی کے منصوبےبھی سیاسی اشرافیہ کی پسند اور ناپسند کے ذریعے شروع کئے جاتے ہیں۔ غیر ملکوں کے ساتھ کاروباری معاہدے بھی اسمبلی میں نہیں آتے۔ حکمران من مانی کرتے ہیں پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کا معاملہ سب کے سامنےہے، چلیں دوبارہ انتخاب ہوا، فیصلہ ان کے حق میں ہوا تاہم وہ شخص جو متنازعہ ہوگیا کیا اس کو اسمبلی کا اسپیکر بنانا ضروری تھا۔ انہی ایام میں زاہد حامد کا نام بھی گونجا، ان کی سب سے زیادہ مخالفت حلیف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کی۔ ان کا نقطہ نظر تھا زاہد حامد سابق صدر مشرف کی کابینہ کے اہم رکن تھے۔ اس لئے وہ زاہد حامد کو ناپسند کرتے ہیں۔ پھر وہ سابق اسپیکر پر احسان بھی کرنا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ کے لوگ بھی سابق اسپیکر کو لانا چاہتے تھے۔ اب خود فیصلہ کریں کہ یہ سب کچھ کیا جمہوریت کا حسن ہے۔ اس سے اسپیکر کی غیرجانبداری پر بھی حرف آتا ہے۔ ہمارا جمہوری نظام کسی بھی طرح گڈ گورننس کے لئے مددگار نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق ضرب عضب نے دہشت گردی کے مقابلے میں کافی کامیابی حاصل کی مگر دیگرعوامل کے لئے سیاسی حکومت کو کام کرنا ہے وہ کام ہونے تودور کی بات ان کی منصوبہ بندی بھی نہ ہو سکی۔ مذہب کے نام پر تشدد اور دہشت بھی ملکی امن کو خراب کر رہا ہے۔ مسلک اور مدرسوں کے لئے جو حکمت عملی بنانی چاہیے تھے وہ نظرانداز ہوئی، اسمبلی میں جو حلیف ہیں وہ اس معاملے پر توجہ دینا نہیں چاہتے پھر سرکار کو آئے دن ان کی ضرورت جمہوریت کی گاڑی کو دھکا لگانے کے لئے پڑتی رہتی ہے۔ ایسے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی ملکی ادارہ آپ کو یاد دہانی کروائے کہ ہم نے اپنے حصہ کا کام کر دیا آپ اپنے کام پر توجہ دیں تو یکدم جمہوریت کے جن کی جان کو خطرہ ہو جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت کا جن نظام اور قانون کی بوتل سے نکل چکا ہے اور خود اس وقت ملک کے لئے ایک بڑا خطرہ بنتا نظر آ رہا ہے۔ سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی کرپشن اور بدانتظامی عام ہے۔ کرپشن اور بدانتظامی میں نوکر شاہی کا اہم کردار ہے۔ ملکی معیشت کا جو حال ہے اور اس کو سنوارنے کے لئے جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کا کردار بھی مشکوک ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے لینے ضروری ہیں تو کم از کم اسمبلی میں ان کا ذکر تو ہو، ممبران بحث کریں، تجاویز دیں، دیگر طریقوں کا سوچیں، ملکی اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی کی جائے۔ مگر قرضے کی سیاست ہماری جمہوریت کا ہدف ہے۔ اگر کرپشن اور بدانتظامی کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے مطابق عمل درآمد نہ کروایا گیا تو فوج نے جو کامیابی ضرب عضب کے ذریعے حاصل کی ہے وہ سب بے کار جاسکتی ہے۔ جمہوریت کی جنگ کا یہ تو مطلب نہیں کہ ملک کو قرضوں کی مدد سے دلوالیہ کردیا جائے، بدنظمی کو منشور مان لیا جائے، کرپشن کو اس لئے نظر انداز کردیا جائے کہ جمہوریت کی قیمت ادا کرنی ہے۔ الیکشن کمیشن کا جووتیرہ جمہوریت کے لئے رہا ہے وہ ہی جمہوری نظام کو مشکوک کر رہا ہے۔ سیاست دان اور اشرافیہ کے لئے جمہوریت ایک میک اپ ہے جس میں اپنی مرضی کا رنگ بھرنے کا وقت ختم ہو رہا ہے ۔
تازہ ترین