• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ورلڈ بینک نے گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہوٹل میں SZABIST کے ساتھ 2016ء میں پاکستانی معیشت پر ایک جائزہ پیش کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تھے جبکہ تقریب میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، لیفٹیننٹ جنرل (ر) تنویر نقوی، زیبسٹ کی چانسلر ڈاکٹر عذرا پیجوہو، قائم مقام صدر شہناز وزیرعلی، ممتاز معیشت دانوں، پالیسی میکرز، بینکرز، چارٹرڈ اکائونٹینٹ، مختلف یونیورسٹیوں کے چانسلرز اور ورلڈ بینک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ تقریب میں ورلڈ بینک کی رپورٹ مرتب کرنے والے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ایلانگو پچامیتھو، معاشی تجزیہ نگار بلانکو آرمس، کمیونی کیشن اسپیشلسٹ مریم سارا الطاف، مشیر امیلیا جونسن اور ٹاسک ٹیم لیڈر محمد وحید بھی موجود تھے۔
میں اپنے گزشتہ کالم میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹن لیگارڈ کی پاکستان کی معیشت پر جائزہ رپورٹ پر تجزیاتی کالم لکھ چکا ہوں تاہم پاکستان میں ان دنوں ملکی معیشت کے حوالے سے عالمی اداروں کی رپورٹوں کا چرچا ہے۔ امریکی ادارے ’’بلومبرگ‘‘ اور برطانوی ماہر معیشت چارلی رابرٹسن کی رپورٹس سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں جس میں کراچی میں تعمیراتی شعبے کی حیرت انگیز ترقی پیش کرتے ہوئے پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت اور ایمرجنگ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کیلئے ایک اہم ملک قرار دیا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی بہتر کارکردگی کا حوالہ دیا گیا ہے جو گزشتہ ایک سال میں 33 فیصد اضافے سے 43000 انڈیکس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کے باعث اس کا شمار دنیا کی 10 بہترین اسٹاک مارکیٹوں میں کیا جانے لگا ہے۔ دوسری رپورٹ امریکی تھنک ٹینک ’’ہیری ٹیج فائونڈیشن‘‘ نے جاری کی ہے جس میں پاکستان کی معیشت کے حقیقی مسائل کو نمایاں کیا گیا ہے۔ فاؤنڈیشن کے سینئر محقق جیمز روبرٹس اور پاکستانی اسکالر ہما ستار نے 6 ماہ کی مشترکہ تحقیق کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں بیڈ گورننس، کرپشن، لاقانونیت، اصلاحات پر غیر مؤثر عملدرآمد، ملکی قرضوں میں ناقابل برداشت اضافے اور انحصار کو پاکستانی معیشت کی خرابیوں کا منفی پہلو قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1980ء کی دہائی سے پاکستان کا غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے جس کے باعث قرضوں اور مارک اپ کی ادائیگی میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 30 اگست 2016ء تک حکومت کے اسٹیٹ بینک سے لئے گئے مقامی قرضے 14 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور پاکستان کے مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز کرگئے ہیں جو قرضوں کی حد کے قانون کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 337 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے کے گزشتہ 3 سالوں میں مالی نقصانات 705 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو ایک تشویشناک امر ہے۔
حال ہی میں عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کو سراہتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں غربت آدھی رہ گئی اور جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوا ہے لیکن سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کے مطابق ہمیں غربت میں کمی اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے 7 سے 8 فیصد سالانہ جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی۔ تقریب میں پاکستان میں عالمی بینک کے نمائندے ایلانگو پچامیتھو نے بتایا کہ پاکستان میں معاشی ترقی بلندترین سطح پر پہنچ چکی ہے، غربت کی سطح میں غیرمعمولی کمی ہوئی ہے جبکہ ملکی اقتصادی شرح نمو 4.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہے۔ حکومت نے رواں سال 5.7 فیصد کا ہدف مقررکیاہے لیکن عالمی بینک کے مطابق 2018ء میں پاکستان کی شرح نمو5.4فیصد ہونے کی توقع ہے جبکہ اس عرصے میں بھارت کی معیشت 8.1 فیصد، بنگلہ دیش کی 6.3 فیصد اور سری لنکا کی معیشت میں 6.5 فیصد ترقی متوقع ہے۔ رپورٹ میں کراچی کو ملکی گروتھ کا محور قرار دیتے ہوئے شہر میں انفرااسٹرکچر کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت میں بہتری کی وجوہات میں امن و امان کی بہتر صورتحال، انرجی سپلائی میں بہتری، ترسیلات زر میں اضافہ، ریونیو کی وصولی میں گزشتہ 3 سالوں میں 68 فیصد اضافہ اور 46 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری سے چینی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کی گوادر پورٹ سے ملایا جانا شامل ہے۔ غربت کے نظرثانی شدہ جائزے کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد جو 2002ء میں 64.3 فیصد تھی، کم ہوکر 29.5فیصد رہ گئی ہے لیکن رپورٹ میں سرمایہ کاری اور ملکی برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2018ء تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5 فیصد سے زیادہ رہے گی جو جنوبی ایشیاء کی اوسط بیروزگاری کی شرح سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی سے پاکستانی معیشت گذشتہ برسوں میں زوال کا شکار رہی اور توانائی بحران کے باعث صنعتی سیکٹر کو مشکلات کا سامنا رہا لیکن اب امن و امان اور توانائی کی بہتر صورتحال کے باعث ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے اور پاکستان، آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کرکے معاشی بحران سے نکل گیا ہے تاہم ورلڈ بینک کے تجزیئے کے مطابق پاکستان کو مزید اسٹرکچرل اصلاحات کی ضرورت ہے جبکہ برآمدات میں اضافے کیلئے حکومت کو ایکسپورٹرز کی پیداواری لاگت میں کمی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
قارئین! میرے زیادہ تر کالم ملکی معیشت پر ہوتے ہیں اور میں کوشش کرتا ہوں کہ تجزیہ کرتے وقت غیر ملکی مالیاتی اداروں، ممتاز معیشت دانوں اور تھنک ٹینک کی آزادانہ رپورٹس کے اعداد و شمار پیش کروں تاکہ عوام ملکی معیشت کی حقیقی صورتحال سے آگاہ ہوسکیں۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ملکی معیشت پر ضرورت سے زیادہ تنقید یا حکومت کو خوش کرنے کیلئے ملکی معاشی کارکردگی کے غیر حقیقی اہداف پیش نہ کروں تاکہ عوام ملکی معیشت کے بارے میں صحیح رائے قائم کرسکیں۔ آج کے کالم میں بھی میں نے ملکی معیشت پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی رپورٹس کے ساتھ دیگر مالیاتی اداروں کی آزادانہ معاشی تجزیاتی رپورٹس بھی پیش کی ہیں تاکہ عوام کو ملکی معیشت پر حقیقی معنوں میں آگاہی ہوسکے۔




.
تازہ ترین