• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشبوئوں کے شہر پیرس میں گزشتہ جمعہ خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے یورپ میں کسی نے نہ دیکھی تھی۔ ہنستے بستے شہرکےچھ مقامات پر دہشت گرد حملہ آور ہوئے اور آن کی آن پیرس کی رنگین شام خون میں نہا گئی اور سینکڑوں معصوم لوگ ہلاک و زخمی! ایک ہال میں محفلِ موسیقی بپا تھی جہاں ہر کوئی داد و تحسین دے رہا تھا، اپنے انجام سے بے خبر کہ اچانک نقاب پوش اندر داخل ہوئے اوراپناخونی کھیل شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سسکیاں تھیں یا پھر خون میں لتھڑے انسانی لاشے۔ ذرا ہی قریب نوجوان ریستورانوں میں گپیں ہانک رہے تھے اور ابھی جام ہاتھوں میں اُٹھائے ہی تھے کہ موت نے آن دبوچا۔ ذرا دور پیرس کے بڑے اسٹیڈیم میں جرمنی اور فرانس کا فٹ بال میچ جاری تھا کہ تین خود کش حملہ آوروں نے یکے بعد دیگرے خود کو اُڑا دیا۔ صدر اولاند تو محفوظ رہے ، اسٹیڈیم میں موجود 80 ہزار تماشائی بھی۔ ارادہ خطرناک تھا، مگر نقصان کم ہوا۔ پیرس ٹریجڈی نے نیویارک 9/11 حملے کی یاد تازہ کر دی یا پھر ممبئی میں کی گئی دہشت گردی کی۔ ساری دُنیا چیخ اُٹھی اور فرانسیسی صدر نے اسے فرانس کے خلاف جنگ قرار دیا۔ کہا اب پھر یہ جا رہا ہے کہ اس دہشت گردی نے یورپ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم 9/11 کے بعد دُنیا کے بدلنے کا منظر دیکھ چکے ہیں، تب القاعدہ نے اعترافِ جرم کیا تھا، اس بار داعش نے!القاعدہ کے تتر بتر ہونے کے بعد، داعش یا ’’اسلامی ریاست‘‘ نے ’’ قتال‘‘ کی کمان سنبھالی ہے۔ عراق کی فرقہ وارانہ جنگ کے بطن سے پیدا ہو کر، داعش نے عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا ہے۔ القاعدہ اگر بین الاقوامی چلتا پھرتا دہشت پسند گروہ تھا، تو داعش نے خود کو ’’اسلامی ریاست‘‘ کا نام دیا ہے اور اپنے نام سے شام و عراق کی جغرافیائی قدغن ہٹا کر اپنی خود ساختہ اُمہ کی ’’خلافت‘‘ کا اعلان کر دیا۔ کھوئی ہوئی خلافت کی بحالی کے اعلان کا مقصد سادہ لوح مسلمانوں، نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنا تھا۔ دُنیا کے 90 ملکوں سے نوجوان داعش کی جانب کھنچتے چلے گئے۔ مذہبی شدت پسندوں سے تنگ آئے ہوئے، اپنے ملکوں سے نااُمیدی کا شکار، عالمِ کفار کی تیرہ دستیوں سے نالاں نوجوان جنہوں نے خلافتِ راشدہ کے سنہری باب کے فقط قصے کہانیاں سنی تھیں، نام نہادخلیفۃ المسلمین ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے چلے آئے۔ یہی نوجوان ہیں جو اب واپس اپنے ملکوں میں جا کر فتنہ و فساد پھیلانے کو زندگی کا اعلیٰ ترین مطمع نظر سمجھتے ہیں۔ اس فانی دُنیا سے رخصت ہونے کی جلدی میں یہ نوجوان اپنے تئیں جنت کی لازوال زندگی کی تمام تر لذتوں سے فیضیاب ہونے کے متمنی نظر آتے ہیں۔
داعش کو فقط خوارجی قرار دینے سے کام نہیں چلے گا۔ ہر مسلک کے ماننے والوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں جو زہر گھولا گیا ہے، اُس کا سبق تو بعض مذہبی حلقے دیتے نہیں تھکتے۔ ذرا سوشل میڈیا پر جا کر تو دیکھیں یا پھر نوجوانوں سے ملیں، اُن میں سے کتنے ہیں جو ان خود کش حملہ آوروں کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتے ہیں؟ اُن کو اگر شکایت ہے تو صرف مغرب سے۔ یا پھر یہ معصومانہ انکارِ حقیقت کہ دہشت گرد تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتے، یہ محض مغربی سامراجی پروپیگنڈا ہے۔ جو کسی حل کی جانب راغب بھی ہوتے ہیں تو اس استدلال کیساتھ کہ دہشت گردی کے پیچھے چھپے تاریخی اسباب کو دُور کئے بغیر اس ردِّعمل کو ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا۔ نتیجتاً ایک ایسا بیانیہ زبان زد عام ہے جو شدت پسندی، مغرب دشمنی اور دہشت گردی کو جلا بخشتا ہے۔ اور کوئی نہیں ہے جو ممبر پر چڑھ کر اس قتل و غارت گری کے خلاف آواز بلند کرے۔ آخر اس دہشت گردی کا مقصد کیا ہے؟ یہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی بحالی کیلئے تو نہیں لگتا۔ البتہ دُنیا بھر کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کا باعث ضرور ہے اور خود مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں تہ و تیغ کرنے کا نسخہ!
طبلِ جنگ پھر بج چکا۔ اس بار یورپ سے سخت ردِّعمل آیا ہے۔ وہ یورپ جس نے اپنے دروازے ایشیائی تارکینِ وطن پر کھلے رکھے ہیں اور حال ہی میں یورپی ملکوں نے شام و عراق اور افغانستان سے پناہ گزینوں کو اپنے گلے لگایا ہے۔ وہی یورپ جس نے عراق و افغانستان کی جنگوں کے خلاف علَم بلند کیا۔ اور وہ یورپ جو اپنی ثقافتی کثرت پسندی (Cultural Pluralism) پر فخر کرتا ہے اور انسانی تہذیب و آزادی اور انسانی حقوق اور احترامِ انسانیت کا نقیب۔ یورپ پر حملے کا مقصد ان عالمگیر انسانی و جمہوری اقدار کا قتل ہے۔ داعش کا مقصد یہ بھی ہے کہ جو ایشیائی پناہ گزین یورپی معاشروں میں جذب ہونے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں اُن میں مذہبی شدت پسندی پیدا کی جائے، جس کیلئے قومی نفرت کو بڑھاوا دینے والی یورپی جماعتیں تیار بیٹھی ہیں۔ داعش کی پیرس میں دہشت گردی باہم جذب پذیری کے عمل کو روکنا ہے۔ اب یورپ متحد ہو کر مشرقِ وسطیٰ میں داعش و دیگر دہشت گردوں کے خلاف حملہ آور ہو گا جس سے پرانی صف بندیاں اُلٹ پلٹ جائیں گی۔ خاص طور پر وہ عرب ریاستیں جو داعش، القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں سے ہمدردی رکھتی ہیں، کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اُلٹنے کا ایجنڈا اب بدل کر رہے گا۔ حال ہی میں روس کی بشار الاسد کی حمایت میں فوجی و ہوائی کمک نے پہلے ہی نقشہ بدل دیا ہے۔ اب امریکہ روس اور ایران کی معاونت سے شام میں امن کے قیام پہ راضی ہوتا نظر آ رہا ہے تاکہ داعش کا صفایا کیا جا سکے۔ سب سے بڑی تبدیلیاں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور ایران کے حوالے سے ہونے جا رہی ہیں۔ جن کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اب تک پیرس پر حملہ آوروں میں کوئی پاکستانی شامل نہیں۔ لیکن حقانی نیٹ ورک، و دیگر کالعدم تنظیموں کے حوالے سے عالمی برادری جس مسلسل تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے، اب اس پر زور بڑھتا جائے گا اور افغانستان میں سیاسی سمجھوتے کیلئے عالمی بیتابی بڑھ جائے گی یا پھر ادھر سے عالمی توجہ ہٹ کر عراق و شام منتقل ہو جائے گی۔ اور ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار افغانستان ہمارے لئے مسئلہ پیدا کرے۔ حکمتِ عملی کے حوالے سے پاکستان کے لئےتیکھے سوالات اُٹھیں گے اور اُنہیں اب شاید ویسے نہیں ٹالا جا سکے گا جیسا کہ ہم پہلے کرتے رہے ہیں، جو بات پاکستان اور پوری مسلم دُنیا کیلئے غور طلب ہے کہ وہ شدت پسندی کو کیسے اپنے فکر و افکار سے نکال باہر کریں اور جدید دنیا سے ہم رکاب ہونے کی کوئی تخلیقی راہ نکالیں۔ فرانس میں تو اب Laisite یعنی کٹر سیکولرازم کی بات آگے بڑھے گی، جس سے مسلم اقلیتیں قوم پرستوں کی نسل پرستانہ تفریق سے شاید بچ پائیں۔ مسلم دُنیا کو بھی ریاستی امور میں مذہب کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا، ورنہ دین رہے گا نہ دُنیا۔ دین کا جو حشر فرقہ پرستوں نے کیا ہے اُس سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے۔ دہشت گردوں نے مذہب کا سہاراہ لے کر جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اُس کا سدباب بھی مسلم ممالک میں رواداری، جمہوریت اور روشن خیالی کے فروغ سے ہی ہو سکتا ہے، نہ کہ ہم اندھی ضد میں دہشت گردی کے گرداب میں گہرے پھنستے جائیں۔ پیرس حملے کے بعد دُنیا پھر بدل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی بدلیں گے؟
تازہ ترین