• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 7اکتوبر 2009ءکادن تھا جب مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی۔ جیسے ہی یہ بیان میڈیا پر نشر ہوا اور ٹی وی اسکرینیں بریکنگ نیوز سے سرخ ہوئیں تو گویا ایک تھرتھلی مچ گئی اور اقتدار کے ایوانوں میں ایک زلزلہ آ گیا۔ حکومتی صفوں میں ہڑبونگ مچنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلح افواج کی طرف سے جاری کیا گیا یہ اعلامیہ انتہائی غیرمعمولی تھا۔اس میں درج الفاظ کو سول جمہوری حکومت نے اپنے لئے گویا ایک ’’پیغام‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ یہ اعلامیہ امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کو مختلف شعبوں میں امداد دینے سے متعلق کیری لوگر بل کی منظوری کے بارے میں تھا۔ اس بل کو پاکستان کیلئے عظیم خوشخبری قرار دینے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانےوالے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ادا کئے گئے الفاظ کی گونج ابھی فضا میں ہی تھی کہ کور کمانڈرز نے بل میں شامل قومی سلامتی سے متعلق شقوں کو ناقابل قبول قرار دے کر مسترد کر دیا اور اعلامیے میں تحریر کیا کہ اس بارے میں باضابطہ موقف حکومت پاکستان کو بھجوایا جارہا ہے۔آئی ایس پی آر نے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ عوام کا نمائندہ ادارہ پارلیمنٹ ہے جو اس معاملے پر بحث کے ذریعے حکومت کو قومی رد عمل جاری کرنے میں رہنمائی فراہم کرے گا۔ مسلح افواج کی طرف سے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی امداد کومشروط کرنے،ادارہ جاتی ترقیوں میں مداخلت،ملٹری آپریشنز اور علاقائی خارجہ پالیسی سے متعلق کیری لوگر بل میں شامل دفعات کو مسترد کرنے کے بعد نہ صرف زرداری حکومت کوگھٹنے ٹیکنا پڑے تھے بلکہ امریکہ کو بھی بل میں ترامیم کرنا پڑی تھیں۔اس وقت مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھی جس نے مسلح افواج کے موقف کی تائید کی تھی جبکہ بطور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی کو یہ کہہ کر بہلا دیا تھا کہ ان کی جماعت کسی غیر جمہوری اقدام میں ساجھے دار نہیں بنے گی۔ اس وقت مسلح افواج نے پریس ریلیز میں جو غیر معمولی الفاظ شامل کئے ان کا مقصد ملکی سلامتی کا دفاع تھا اور اب جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری اعلامیے میں جو تحفظات ظاہر کئے گئے ان کا تعلق بھی براہ راست پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے سے ہی ہے۔اب ن لیگ کی حکومت نے مسلح افواج کے اعلامیے کوپیغام سمجھا ہے۔اس وقت تو کمانڈرز کے تحفظات کو جمہوری حکومت کے دائرہ اختیار میں مداخلت قرار نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی یہ کہا گیا تھا کہ ریاستی ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہے حالانکہ تب تو ایک آمر سے چھٹکارا پائے بمشکل ایک سال ہی گزرا تھا اور وہ ادارہ عوام میں اتنا مقبول بھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔ آج ملکی سلامتی کے ضامن اس ادارے کے ساتھ اختلافات پیدا کرنےکی کوششیں کیوں کی جار ہی ہیں جو نہ صرف مشرقی اور مغربی سرحدوں پر وطن کے دشمنوں سے برسرپیکار ہے بلکہ شہروں اور دیہاتوں میں ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے قلع قمع میں بھی مصروف عمل ہے۔ یہ بات مجھ جیسے طالب علم کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ سیاسی رہنمائوں کے لفظ گورننس سے اتنا بدکنے کی وجہ کیا ہے،وہ کون سا نفسیاتی خوف ہے جو متفقہ طور پر اٹھارویں آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے باوجود ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہو رہا۔ کیوں چھ ہجوں کے ایک لفظ کو بنیاد بنا کر ایسی تھیوریاں پیش کی جا رہی ہیں اور ایسے تانے بانے بننا شروع کر دئیے گئے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اسی سپہ سالار کے بارے میں کیوں بدگمانی ظاہر کی جا رہی ہے جس نے دھرنے کے دوران منتخب جمہوری وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا ،جو بارہا ببانگ دہل کہہ چکاہے کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے درکار ہر تعاون فراہم کیا جائے گا۔ آخر سیاستدانوں کو گورننس کےلفظ میں ایسا کیا نظر آیا کہ ریاستی ادارے کے آئین سے تجاوز کا احساس جاں گزیں ہو گیا۔ ڈرے سہمے اور خوف زدہ ان آئین سازوں کو تب آئین کی خلاف ورزی کیوں یاد نہیں آتی جب وہ امن و امان کے قیام کی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں اور ضمنی الیکشن ہو یا بلدیاتی انتخابات مدد فوج سے طلب کی جاتی ہے۔ تب آئین کی کتاب کس غلاف میں لپیٹ دی جاتی ہے جب اپیکس کمیٹیوں کے ذریعے سول انتظامیہ کے اختیارات یونیفارم میں ملبوس افسران کو سونپ دئیے جاتے ہیں۔ تب وہ دائرہ کار کیوں سکڑ جاتا اور مداخلت کا مفہوم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے جب بد عنوانی کے معاملات کی چھان بین بھی رینجرز نمٹا رہی ہوتی ہے۔ یہ باور ہونے پر تب چند گھنٹوں میں ہی اس آئین کا حلیہ کیسے تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ سول ادارے اور عدالتیں اتنی استعداد کار کی حامل نہیں ہیں کہ وہ دہشت گردی کے مرتکب افراد کو پکڑ کر سزادے سکیں۔ اس وقت دھیان آئین کی طرف کیوں نہیں جاتا جب قومی ایکشن پلان کی تیاری کے ایک سال گزر جانے کے باوجود عمل درآمد سے متعلق مرکزی ادارے نیکٹا کے سروس رولز تک نہیں بنائے جاتے۔اہم وزارتوں اور اداروں کے سربراہان کے عہدے خالی رکھنے یا ان پر اپنے من پسند جونیئر افسران کو تعینات کرتے ہوئے آئین کی پاسداری کا خیال کیوں نہیں آتا۔ قومی مالیاتی کمیشن اور مشترکہ مفادات کونسل جیسے آئینی اداروں کے اجلاس طلب کرنے ہوں تو مہینوں تک آئین سے آنکھیں کیوں پھیر لی جاتی ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت جس پارلیمنٹ کی بالادستی عزیز ہو جاتی ہے ،حالات معمول پر آتے ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کی آئینی قدغن کیوں غیر اہم ہو جاتی ہے۔ جناب عالی یہاں درجنوں مثالیں ایسی دی جا سکتی ہیں کہ کیسے دن رات آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں لیکن آپ کو آئین کی حدود یاد آئیں بھی تو صرف ایک لفظ گورننس کے ذکر پر کہ آپ کی توجہ ادھر کیوں مبذول کرائی گئی۔ جناب آپ اتنی سی بات پہ اس قدر خائف کیوں ہو گئے ،کیوں رائی کا پہاڑ بنانے پر مصر ہیں۔ سیاست دانوں کی اس بے چینی کی وجہ وہ نعرے تو نہیں جو زبان زد عام ہیں، جناب خاطر جمع رکھیں جب خود دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کا ایمان ہے کہ آپ عوام کو جواب دہ ہیں تو پھر اسی عوام کی دی ہوئی دو تہائی اکثریت کے باوجود دھڑکا کیسا۔ آپ سب نے متحد ہو کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جس ادارے کو قائدانہ کردار سونپا ہے اگر وہ اسی کردار کے اندر رہتے ہوئے کسی کمزوری یا خامی کی نشان دہی کرتا ہے تو اس کو مثبت انداز میں لیں۔آئی ایس پی آر کے بیان کا مقصد تنبیہ نہیں بلکہ اصلاح کرنا ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر جو نتائج حاصل کئے گئے ہیں ان کو اس نازک مرحلے پر بھی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ پائیدار بنایا جا سکے۔ خدارا اپنے اندر کے خوف کی وجہ سے گورننس کے لفظ میں ماضی کی پرچھائیاں مت ڈھونڈیں۔
تازہ ترین