• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیو دہلی ایئرپورٹ سے ایئر انڈیا کی پرواز کلکتہ کیلئے روانہ ہونے والی تھی‘ عام مسافروں کی اس مقامی پرواز پر انڈیا کے پردھان منتری‘ چند وزراء اور ان کا عملہ بھی کلکتہ جا رہا تھا‘چنانچہ جہاز کی فرسٹ کلاس وی آئی پی (V.I.P's) کیلئے مخصوص تھی۔ اس پرواز کی ایک مسافر خاتون جہاز میں سوار ہوئی اور فرسٹ کلاس کی پہلی نشست پر براجمان ہو گئی‘ جو وزیراعظم کیلئے رکھی گئی تھی‘ جہاز کے عملے نے خاتون کا بورڈ نگ کارڈ دیکھا تو وہ اکانومی کلاس کا تھا‘ چنانچہ فضائی میزبان نے مسافر خاتون کو پیچھے اکانومی میں جانے کو کہا مگر اس نے پیچھے جانے سے انکار کر دیا‘ اس کا استدلال تھا کہ اس نے کلکتہ تک سفر کیلئے پیسے خرچ کئے ہیں اور جہاز میں پہلے سوار ہونے والی مسافر ہوں لہٰذا ’’پہلے آئو ‘ پہلے پائو‘‘ کے اصول پر اپنی مرضی کی نشست پر بیٹھوں گی۔ فضائی میزبان نے ’’سپروائزر‘‘ کو صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ بھاگا ہو ا مسافر خاتون کے پاس آیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ فرسٹ کلاس ہے اور آپ کا ٹکٹ اکانومی کا ہے۔ ویسے بھی یہ نشست دوسرے مسافر کیلئے پہلے سے ’’بک‘‘ ہے ‘مگر اس خاتون نے مان کے نہیں دیا۔ جہاز کے عملے میں بے چینی پھیل گئی‘ اس لئے کہ پردھان منتری آیا ہی چاہتے تھے‘ ان حالات میں مسافر سے کوئی سختی ممکن نہیں تھی جس سے بدمزگی پیدا ہو۔ چنانچہ سپروائزر نے جہاز کے کپتان کو آگاہ کیا تو کپتان نے معاون پائلٹ کو بھیجا کہ خاتون کو سمجھا بجھا کر پیچھے اپنی نشست پر جانے کیلئے آمادہ کرے‘ معاون کپتان کی کوشش بھی ناکام رہی اور اس نے پائلٹ کو بتایا کہ خاتون بہت ضدی ہے‘ وہ ہماری کوئی بات سننے کو تیار نہیں‘ کپتان نے پوچھا خاتون ہے کون؟ وہ کوئی سردارنی دکھائی دیتی ہیں‘ اوہ! میری بیوی بھی سردارنی ہے‘ مجھے اس سے نمٹنے کا کچھ تجربہ ہے‘ میں کوشش کرتا ہوں‘ یہ کہہ کر کپتان مسافر خاتون کے پاس گیا‘ دھیمی آواز میں اس سے دو ایک جملوں کا تبادلہ ہوا تو خاتون مسافر ’’پہلے کیوں نہیں بتایا ‘‘کہتی ہوئی تیزی سے اٹھ کر اپنی خالی نشست پر چلی گئی۔ جہا زکے عملے نے اطمینان کا سانس لیا اور کپتان سے پوچھا کہ آپ نے کیا جادو کیا؟ کچھ نہیں‘ میں نے پوچھا‘ محترم خاتون آپ کہاں جا رہی ہیں؟ بولی‘ کلکتہ جاتی ہوں۔ میں نے کہا مگر یہ فرسٹ کلاس تو کلکتہ نہیں جائے گی‘ کلکتہ جانے والی کلاس تو پچھلی ہے‘ چنانچہ وہ شکایت کرتی ہوئی کہ ’’مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ چپکے سے اپنی نشست پر چلی گئی۔ کپتان نے ایک ہی جہاز کی دو کلاسوں کو الگ الگ منزلوں کی طرف روانہ کر دیا۔
ہم اس تحریر کو لطیفہ خیال کرتے رہے تاوقتیکہ پانامہ لیکس کے سپریم کورٹ میں زیر بحث مقدمہ میں جناب اکرم شیخ نے سپریم کورٹ میں قطر کے شہزادے کا خط پیش کر کے میلہ لوٹ لیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم اس سے پہلے مختلف مؤقف اختیار کر چکے ہیں تو شیخ صاحب کا جواب تھا ’’میں وزیراعظم کے بچوں کا وکیل ہوں‘ وزیراعظم کا نہیں۔‘‘ انہوں نے ایک جہاز ‘ ایک ہی کلاس میں برابر نشستوں پر بیٹھے باپ بیٹوں کو الگ الگ ملکوں سے مختلف منزلوں کی طرف روانہ کر کے جہاز کے کپتان کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں 2005ء میں جدہ کی اسٹیل مل بیچتے پائے گئے تاکہ لندن کے فلیٹ خریدنے کیلئے بچوں کو رقم فراہم کریں مگر اکرم شیخ صاحب وزیراعظم سے زیادہ باخبر نکلے‘ انہوں نے اس خاندان کی گم شدہ لاٹری ڈھونڈ نکالی‘ وہ بھی 1980ء کی‘ جب نوازشریف صاحب سیاست کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں ہوئے تھے‘ نہ ہی اس خاندان کی پہنچ ابھی ’’انسپکٹر انکم ٹیکس ‘‘ سے آگے بڑھی تھی مگراکرم شیخ نے انہیں قطرکے شاہی خاندان کا بزنس پارٹنر بنا ڈالا۔
اکرم شیخ صاحب ہمارے دوست ہیں‘ دوستی بھی ایسی کہ جس کے نصف صدی ہونے میں صرف پانچ سال باقی ہیں‘یقیناً ہماری چھوٹی سی گستاخی پر زیادہ سیخ پا نہیں ہوں گے‘ اگر ہوں بھی تو فکرمندی کی ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ جاوید ہاشمی کی طرح‘ ہمارے عدالتی معاملات بھی شیخ صاحب کو بھگتنا پڑتے ہیں اور وہ بھی ’’بلامعاوضہ‘ ‘،اگر ہمارے خلاف کوئی دعویٰ دائر کریں گے تو بھی یقیناً ہماری طرف سے انہی کو وکیل صفائی مقرر کیا جائے گا اور وہ بھی حسب سابق کسی معاوضے کے بغیر۔ شیخ صاحب کی یہ خوبی ہے کہ وہ کوئی مقدمہ ہار جانا پسند نہیں کرتے‘ اپنے مؤکل کو بچانے کیلئے کشتیوں کے پشتے لگا سکتے ہیں‘ اگرچہ تڑپتے لاشوں میں مؤکل کے ’’آبا‘‘اور ’’اجداد ‘‘ہی کیوں نہ ہوں؟ یہ لطیفہ تو آپ سن ہی چکے ہوں گے کہ دادا نے پانامہ لیکس والے اپنے پوتے کو برزخ سے خط لکھا ہے کہ ’’ببلو میاں میں کب کا فرشتوں کو حساب کتاب دے کر فارغ ہو چکا تھا اور میری روح برزخ میں آرام فرما تھی‘ مگر تمہارے قطر والے شہزادے کے خط کے بعد پھر میری پیشی ہو گئی ہے‘ اب میرے لئے بڑی دقت ہوگی ‘ اس لئے کہ یہاں کے رجسٹروں میں ’’انٹری‘‘ خالی نہیں چھوڑی جاتی‘ لہٰذا میں پرانی تاریخوں میں قطر والی رقوم کا اندراج کیسے ثابت کرونگا؟ پاکستانی عدالت کو تبدیل شدہ یا اضافی دستاویز سے مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر یہاں کی دستاویزات کمپیوٹرائزڈ ہیں‘ پاس ورڈز کسی فرشتے کے پاس نہیں کہ انہیں کچھ دے دلا کر تبدیل کر لیا جائے۔‘‘ بہرحال شیخ صاحب کوئی کارروائی کریں بھی تو عدالت میں ہمارے وکیل وہی ہوں گے‘ اپنے مؤکل کو ہارتا دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہیں خود ہی ہارنا پڑے گا۔ میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے‘ ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مُل کوڈی پیندا‘ ہارن دا مُل ہیرا
اب وہ جیت کی ’’کوڑی ‘‘پانے کیلئے ہار کے ’’ہیرے‘‘ سے دستبردار نہیں ہو سکتے‘ آخر کو شیخ بھی ہیں۔
اِدھر دادا نیا حساب نکلنے سے پریشان تھے‘ اُدھر سے چچی تہمینہ درانی بھی‘ اپنی سچ بولنے کی عادت سے مجبور ہو کر خواہ مخواہ بیچ میں کود پڑی ہیں‘ وہ بھی بڑی دلیل کے ساتھ۔ کہتی ہیں ’’میاں محمد شریف صاحب شریعت کے پابند تھے‘ اگر لندن کے فلیٹ یا قطر میں جائیداد ہوتی تو دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اس میں سے حصہ ضرور دیا جاتا‘ مگر میرے شوہر اور دیور کے حصے میں ایسی کوئی جائیداد نہیں آئی۔ ‘‘ تہمینہ درانی سے تھوڑا تعارف تو ہمیں بھی حاصل ہے۔
تب سے جب وہ ’’مینڈا سائیں‘‘ کی رہائی کی کوششوں میں پارلیمنٹ آیا کرتی تھیں‘ انہیں پارلیمنٹ ہائوس آنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی تو اپنی ضمانت پر پاس جاری کر کے لایا کرتا تھا۔ ’’بڑے باپ کی بہادر بیٹی بڑے وقار سے رہتی ہیں اور اپنی مرضی چلاتی ہیں۔امہ لیکس کے بعد پیدا ہونے والی ساری صورتحال پر سب سے خوبصورت تبصرہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر ’’شہلا رضا‘‘ نے کیا‘ وہ کہتی ہیں ’’ساری (ن) لیگ مل کر ایک اچھا سا جھوٹ ہی بنا لیتی ‘ جس پر ساری پارٹی اور خاندان متحد ہو کر ایک مؤقف تو اپنا سکتے۔ پیپلزپارٹی میں شہلا رضا اور قمر الزمان کائرہ یقینا تعریف و تحسین کے مستحق ہیں‘ دورِ ظلمات میں انہوں نے فرضی‘ کمزور اور ہارے ہوئے مقدمات کو جس خوبی سے لڑا اور جس خندہ پیشانی سے برداشت کیا وہ انہی کا حصہ ہے۔


.
تازہ ترین