• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میانمار ( برما ) میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج دنیا بھر کے جمہوریت پسند لبرل حلقوں کیلئے امید کی کرن ہیں ۔ ان نتائج کی وجہ سے نہ صرف دنیا میں جاری نظریاتی اور سیاسی مباحث کیلئے نئے زاویئے میسر آئیں گے بلکہ پاکستان جیسے ملکوں کے عوام کو مایوسی سے نکلنے میں بھی مدد ملے گی ۔ جمہوریت کیلئے طویل اور کٹھن جدوجہد کرنے والی میانمار کی عظیم سیاسی رہنما آنگ سان سوچی (Aung San Suu Kyi) کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ( این ایل ڈی ) نے پارلیمنٹ کی664 میں اب تک اعلان شدہ نشستوں میں سے369 نشستیں حاصل کر لی ہیں جبکہ برمی فوج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت یونین سالیڈیرٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( یو ایس ڈی پی ) کو صرف 42 نشستیں ملی ہیں ۔انتخابی فتح کے بعد یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ میانمار کا آئندہ صدر این ایل ڈی سے ہو گا ۔ یہ انتخابی نتائج کئی حوالوں سے حیران کن اور غیر متوقع ہیں جس کی وجہ سے عام مبصرین کے ساتھ ساتھ دنیا کے طاقتور خفیہ اداروں اور تھنک ٹینکس کو اپنے تجزیوں کے معیارات تبدیل کرنا پڑیں گے۔
نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بعد میانمار میں اقتدارمارچ میں فوج سے حقیقی طور پر عوام کو منتقل ہو گا ۔ آج کے دور میں ، جب دنیا بھر میں خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں حقیقی لبرل اور جمہوری قوتیں کمزور نظر آ رہی ہیں اور فوجوں یا ان کی پروردہ سیاسی جماعتوں نے سیاسی معاملات پر مکمل کنٹرول کیا ہوا ہے ، میانمار کے انتخابی نتائج ایک غیر معمولی اور حالات کا رخ موڑنے والا واقعہ ہیں ۔ ان انتخابی نتائج کا بہت گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ میانمار ہمارے خطے جنوبی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے ، جہاں نو آبادیاتی راج ، سامراجیت ، فسطائیت اور آمریت کے خلاف بے مثال مزاحمت ہوئی ۔ ایسی مزاحمت شاید ہمارے خطے کے کسی اور ملک میں نہیں ہوئی ۔ اسی پس منظر کی وجہ سے شاید این ایل ڈی انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرکے آئی ہے ۔ حالانکہ یہ انتخابات فوج کی بنائی گئی سیاسی جماعت یو ایس ڈی پی اور صدر تھین سین ( Thein Sein ) کی حکومت نے کرائے ۔ صدر تھین سین سابق فوجی کمانڈر ہیں ۔ فوج کی ’’ نظم و ضبط‘‘ والی جمہوریت میں ایک عوامی جماعت اس طرح الیکشن جیت جائے کہ فوج اپنی مرضی کی حکومت نہ بنا سکے ، یہ حقیقتاً ایک حیرت انگیز واقعہ ہے اور اس کا کریڈٹ آنگ سان سوچی کی مدبرانہ قیادت کو جاتا ہے ۔ پاکستان کے قیام کے 4 ماہ 20 دن بعد 4 جنوری 1948 ء کو میانمار نے برطانوی نو آبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کی ۔ میانمار کی آزادی کی تحریک اس خطے کے دیگر ممالک کی آزادی کی تحریکوں سے بہت مختلف ہے۔ برطانیہ نے 1886 ء میں برما کو انڈیا کا ایک صوبہ بنایا تھا ۔ 1890ء میں برطانوی راج کے خلاف گوریلا جنگ شروع ہو گئی تھی ۔ اس جنگ نے نو آبادیاتی راج ، سامراجیت اور فسطائیت کے خلاف کئی تحریکوں کو جنم دیا ۔ احتجاج ہڑتالیں برمی سماج کا معمول تھیں ۔ تھاکنز ( Thakins ) موومنٹ ، سن فین ( Sinn Fien ) موومنٹ ، 1300انقلاب اور کئی تحریکیں شامل ہیں ۔ جدوجہد آزادی کے دوران ’’ 30 کامریڈز ‘‘ کی آرمی بنی اور پھر وہ برما کی آزادی کی فوج بنی اور بعد ازاں یہ برما کی نیشنل آرمی قرار پائی ۔اسی جدوجہد کے عرصے میں سیاسی قیادت نے ’’ ان سین مینی فیسٹو ‘‘ تحریر کیا ، جس میں فاشزم کو دنیا کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا گیا ۔ جدوجہد آزادی کے دوران اینٹی فاشسٹ پیپلز فریڈم لیگ بھی بنی اور اسی نے آزادی کے بعد حکومت بنائی ۔ برما کی جدوجہد آزادی کی قیادت سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈرز کے ساتھ ساتھ 30 کامریڈز والے فوجی رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی ۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ جاپان کے فسطائی ہتھکنڈوں کے خلاف بھی وہاں کے لوگوں نے طویل جدوجہد کی ۔ برمی قوم کی مزاحمت کا تاریخی پس منظر ایسا ہے ، جس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے ۔ آنگ سان سوچی کے والد آنگ سان نہ صرف 30 کامریڈز میں شامل تھے بلکہ انہوں نے ایک ترقی پسند لیڈر کی حیثیت سے جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔ 1947 ء میں ان کو قتل کر دیا گیا تھا ، جب آنگ سان سوچی صرف دو سال کی تھیں ۔ برما کی آزادی کے بعد یہاں بڑا کھیل شروع ہوا اور رسہ کشی میں اقتدار فوج کے ہاتھ میں چلا گیا اور30 کامریڈز میں سے ایک جنرل نی ون ( Ne Win ) نے 1962 ء میں فوجی بغاوت کی اور برما کا آئین معطل کرکے مکمل فوجی حکمرانی قائم کی ۔ انہوں نے پارلیمانی جمہوریت کو برما کیلئے غیر موزوں قرار دیا ۔ برما تب سے یا تو براہ راست فوجی حکومتوں یا پھر ’’ نظم و ضبط ‘‘ والی جمہوری حکومتوں کے عذاب میں تھا اور برما کے عوام اس کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہیں ۔ 8 اگست 1988 ء کو جمہوریت کی بحالی کیلئے بہت بڑا مظاہرہ ہوا اور فوج نے قتل عام کیا ۔ اس دن کو ’1988 بغاوت ‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ وہ تحریک مسلسل چلتی رہی ۔ اسی تحریک کے دوران آنگ سان سوچی نے اپنی مزاحمتی سیاست کا آغاز کیا ۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی ہم عصر سیاست دان ہیں۔ انہوں نے مختلف اوقات میں مجموعی طور پر 21 سال نظر بندی میںگزارے ۔ ان کی شادی ایک برطانوی شہری ڈاکٹر مائیکل آئرس سے ہوئی تھی۔ آنگ سان سوچی آکسفورڈ سے برما کے ادب میں ڈاکٹریٹ کر چکی ہیں اور انہیں نوبل انعام بھی مل چکا ہے ۔ ان کے شوہر کو فوجی جنتا نے اس لئے برما نہیں آنے دیا کہ حکومت ان کی حفاظت نہیں کر سکتی ۔ فوجی جنتا نے آنگ سان سوچی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے شوہر سے ملنے خود باہر چلی جائیں لیکن سوچی ملک سے باہر نہیں گئیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ ملک سے باہر گئیں تو انہیں واپس نہیں آنے دیا جائے گا ۔ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہی رہیں اور جمہوریت کی جدوجہد کو آگے بڑھایا ۔ ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے ۔ فوجی جنتا نے ملک کو نسلی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ کوئی ملک گیر بڑی عوامی سیاسی جماعت وجود میں نہ آسکے ۔ سوچی کو وہ سارے مسائل درپیش تھے ، جو پاکستان یا اس طرح کے دیگر ملکوں کی جمہوری اور سیاسی قیادت کو درپیش ہوتے ہیں ۔ سوچی سیاسی تدبر کی حامل ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ وہ 21 ویں صدی کی عظیم لیڈر ہیں ۔ انہوں نے برما میں پر امن انقلاب برپا کیا ہے ۔ یہ انقلاب 20 ویں صدی کے انقلاب روس ، انقلاب چین اور انقلاب ایران جیسے انقلابوں کی طرح کےاثرات کا حامل ہے لیکن سوچی کا انقلاب دوسری طرز کا ہے۔ ان کا شمار 20 ویں صدی کے عظیم رہنماؤں میں کیا جا سکتا ہے ، جن میں لینن ، ماؤزتنگ ، چوین لائی ، قائد اعظم محمد علی جناح ، گاندھی ، نہرو ، نیلسن منڈیلا ، مہاتیر محمد جیسے پائے کے رہنما شامل ہیں ۔
عوام کی میانمار میں شاندار فتح سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر قیادت دیانت داری اور قربانی کے جذبے کے ساتھ لوگوں سے جڑی رہے تو ہر عہد میں آزادی اور جمہوریت کے ساتھ لوگوں کی رومانویت موجود ہوتی ہے اور وہ مزاحمت سے بھی دستبردار نہیں ہوتے ۔ سوچی کے والد کمیونسٹ تھے اور برما کے کئی فوجی حکمرانوں نے برمی عوام کے ترقی پسندانہ پس منظر کے پیش نظر اس ملک میں حکومت کا سوشلسٹ ماڈل بنانے کی بھی کوشش کی تاکہ وہ عوام کی حمایت حاصل کر سکیں لیکن انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوئی ۔ عوام نے ان لوگوں کی حمایت کی جنہوں نے جمہوریت کی بات کی ۔ تیسری دنیا کے دائیں اور بائیں بازو کے ’’ انقلابیوں ‘‘ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ پر امن تبدیلی کا راستہ صرف جمہوریت ہے۔ انتہا پسندی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ میانمار کے انتخابی نتائج سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ دنیا کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ تیسری دنیا میں لوگوں کو پیچیدہ سیاسی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے اور انہیں مذہب ، فرقے ، زبان اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ اس تقسیم سے غیر جمہوری قوتیں یا ان کی کارندہ نام نہاد سیاسی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔دیانت دار، visionary اور پڑھے لکھے افراد کی قیادت میں عوام جب بھی متحد ہونگے ، وہ تبدیلی لا سکتے ہیں ۔
تازہ ترین